جان ِ من! سناہے مودی کی مملکت سنگھ کی سلطنت میں تم تمہارے بھائی بند دوست احباب امیر غریب سب یکمشت کنگال ہوگئے، یک قلم بے پر و بال ہوگئے، یکبارصبح بے حال شام پامال ہوگئے، یک لخت اچھے دنوںکے سراب میں خانہ خرابی کی مثال ہوگئے ۔ پتہ نہیں بھلے چنگے شاہ ِہند کو کیا سوجھی آناً فاناً پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں کو ردی کاغذہو نے کا شراپھ دیا ؟ کوئی اسے آمریت کہے یا کوئی حماقت سمجھے، مرضی اس کی، ہم تو یہ کہیں گے پھنس گئے تو تڑپنا کیا۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج مودی میں آئے ۔ اگر شاہ ِ ہند میں محمد تغلق کا بھوت حلول کر گیا تو کیوںخواہ مخواہ دل ملول ہوجایئے ؟ انہوں نے بھوت کے دباؤ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور کرارے نوٹوں کی گھر واپسی کر ڈالی ، ان پرخط ِ تنسیخ پھیرا وہ بھی اس جھوٹ کے ساتھ کہ کالے دھن اور بدعنوانی کا قلع قمع نوٹوں کی ادلا بدلی سے ہوئی۔ ہا ہا ہا! اب ملا تو کیا ملا ؟ راشیوں کو دوہزاری نوٹوں کا گا ندھیائی نذرانہ، غرباء کو غم و تکلیف کا افسانہ، بے زروں کو بے چینی کا زمانہ، زر داروں کو اوپری کمائی کا بہانہ ، سنگھ پریوار کو دیش بھگتی کا ترانہ، امبانیوں کو ملک لوٹنے کا نیا خم خانہ، بدعنوانوں کو حرام خوریوں کا ٹھکانہ۔۔۔ مگر بچارے غم کے مارے غریب کی گھر گرہستی ٹھپ ، بازار وں کا ستیا ناس ، بیوپاری مچھر مار ، بے روزگا وں کی دردِ سری ۔ مودی کی اس کاکر خانی پر یاد آیا ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ ٔ غم ہی سہی نغمہ ٔشادی نہ سہی
میری یا !تو کیا واقعی مودی شہنشاہ نے آندھی بن کر گاندھی کی تصویر سے مزین پانچ سو اور ایک ہزار کا کریا کرم کر دیا؟ کیا ووٹ کے بعد نوٹ بھی اپنی سیاسی ہم ہستی کی بھینٹ چڑھائے؟ یہ نہ سوچا ہاتھ سے منہ تک محدود کا ئنات کا غریب باسی کیا کمائے کیا کھائے ؟ تو کیا یہی شائنگ انڈیا ہوا ؟ یہی اچھے دنوں کا صبحِ بے نور اور شام ِبے سرور ہے؟ تو کیا اسی کا مطلب سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے؟ تو کیا یہی جمہوریت اور انسانیت ہوئی کہ عام آ دمی خون پسینے سے کمائے گئے پانچ سو یاہزار روپے دے مگر دودھ والا اسے رد کرے، ساگ سبزی والا نابابا نا کہے ، دوکاندار چل ہٹ بولے؟ پناہ بر خدا! میں کہتاہوں یہ تو کل یُگ ہوا،یہ سب کا ساتھ سب کا وناش ہوا ۔ بے چارے نوٹوں کی اس دُرگت پر شہر میںہر شخص پر یشان سا ہے، کوئی ٹاٹا برلا امبانی نہیں عام آدمی سینے میں جلن آنکھ میں طوفان لئے سر راہ پکار ے جا رہاہے میرا پیارا پیارا نوٹ لے لو ایک روٹی دو۔ ہر دُکھیارا شاہ ِ ہند کے بارے میں دہائی دیتا ہے ؎
وہ آئے بزم میں توا تنا برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ظل ِ الہیٰ کے شاہی فرمان پر ہر سیدھا سادہ شہزادہ ، زید بکر بہت دُکھی ہو گیا، رنج وغم کی وادیوں میں اہل ہوش و خرد کھوگیا۔ محنت کش خود سے پوچھ رہا ہے یہ کیا ہو ا؟ کیوں ہو ا؟ کیسے ہوا؟ صاحب ِثروت ماتھا پیٹے رورو کہے ایک چائے والے کو اپنے سرجیکل سٹرائک کے لئے میرے ہی گاڑھے پسینے کی دھن دولت ملی کیا ؟ مفلس و مفلوک الحال سوال کر ے اگر میک اِن انڈیا کا چیستاں یہی ہے تو باز آیا میں مودی مودی جپنے سے ؟ ہر کس وناکس حیران وششدر کہ اس کا رستانی کا اصل راز ہے کیا؟ دروغ بر گردن راوی دل جلے کہیں کہ مودی کی یہ بجلی غریبوں پر یونہی الل ٹپ نہ گری ۔ پہلے سوئس بنک میں اپنے ۶۴۸ ؍سیہ دل دھن پتی دوستوں ،ا ُن کے حوالیوں موالیوں کو خفیہ طور خبردار کیا: بھائی لوگو! نوٹوں کو سونے، لعل جواہرات ، جائیدادوں میں بدل دو ، پھر خود کوغریبوں کو کچا چبانے کے لئے فارغ کردو۔ انسان نما گد حرام کمائی کو حلال میں بدلنے سے فارغ ہو گئے تو آفت کے پرکالے نے اُترپردیش کے پیش آیندہ انتخابی دنگل میں مخالفین کے مہارتھیوں کو سوتے میں چاروں شانے چت گرایا ، کہتے ہیں یہ پرانے پاپی ووٹ خریدنے کے لئے کھربوں کی چھپا چھپی کھیل رہے تھے مگر سو لوہار کی ایک سنار کے مصداق شاہ ِ ہند نے نوٹوں کی سیاست کا رنگ دولفظو ں کی کہانی سے بھنگ کر ڈالا، انہیںکاغذ کے پرزے بتلا کر مودی نے حزبِ اختلاف کو انتخاب کے بپھرے سمندر میں کاغذ کی ناؤ میں بٹھوایا ۔بیک جنبش قلم پانچ سو ہزار کے نوٹ راندہ ٔ درگاہ ٹھہراکر کاغذ کے پُر زے بنائے، بالکل اسی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے سلامتی کونسل میں کشمیر قراردادوں کو کا غذ کا پرزہ کہہ کر کشمیر کی صداقت پر حملہ زنی کی۔ مودی نے اپنی بھاشا میں یہ ناگپوری منتر پڑھا کہ سانپ بھی مرا لاٹھی بھی نہ ٹوٹی مگر ؎
شوق ہر رنگ میں رقیب ِ سر وساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
اس قصہ ٔ طولانی پر ایک دل جلے نے میری یہ سمع خراشی کی : چچا!اُ دھر ٹرمپ فرنگ میں لانگ جمپ ماری،اِدھرمودی خوشی کے مارے اپنے ہی کرنسی کو نقلی ، جعلی، بدعنوانوں کی نانی کہہ کر گویا قطب مینار سے نیچے چھلانگ مار گیا، حساب برابر۔ شہنشاہِ ہند جام ِ جم پہ بن بلائے مہمان کی طرح آیا، یہ فرمانِ ناگپوری کا بھاشن دیا:میرے مترو دیس واسیو! تمام پُرشو اور مہیلاؤں کو امریکہ میں ٹرمپ کو و جیتا گوشِت ہونے پر بھدائی دیتاہوں ، ہیلری کی ہار پر ہم اپنے ردھے کی گہرائیوں سے دُکھ ویکٹ کر تے ہیں ۔سجنو! یہ نہ کہنا میںبے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہوں، بلکہ سَت یہ ہے کہ دنیا ہمیشہ چڑھتے سورج کی پوجا کرتی ہے ، آپ سُو چت ہیں کہ اوبامہ کو چائے پلانے کے لئے میں نے دس لاکھ کا بڑھیا سوٹ پہن کر اس کا بیرا بننے کا شوق پورا کیا۔ میںکلنٹن کی مترتا کا بھی آدر کرتاہوں ۔ تاریخ بھول نہیں سکتی کہ بل کلنٹن نے کارگل میں ہماری نیا پار لگائی، ان کی پتنی نے بھی ہمیشہ ہمارامان رکھا۔ اب یہ ٹرمپ جی ہے ، بھگوان کی کرپا سے یہ زعفرانی سیناؤں کے لئے لمبی دوڑ کا گھوڑا ثابت ہوگا، نفرت کی راج نیتی ، جنگ کی پری بھاشا میںیہ ہم پر بازی لے گا، یہ میرا وشواس بھی ہے اور پرارتھنابھی۔ میں نے پہلے ہی روز فون کر کے اسے اپنی کامیابی پر شبھ کامنائیں دیں ۔ آپ لوگوں کا زیادہ سمے نہ لیتے ہوئے مجھے خوشی کے اس اوسر پرمن کی بات نہیں سنانی ہے، آج دھن کی بات کرتاہوں۔کالا دھن بدیس سے دیس میں لانا میرے بس کا روگ نہیں ، دُر بھاگیہ سے سارے کالے دھن والے ہمارے ہی پریوار کے سدیس ہیں ، مگر میں شپتھ لیتاہوں کہ ہم کالے دھن والوں کا پیچھا نہ چھوڑیں گے، جب تک وہ دل کھول کر ہمیں پارٹی فنڈ کا ہفتہ چگتا کریں ، ہم بھی دل والے ہیں ، کوئی کٹھور نہیں ، اُن کے ہِتوں کی رکھشا کریں گے۔ میں ہربھارتیہ ناگرک کو یہ سُوچنا دیتا ہوں کہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ جن پر راشٹر پتا گاندھی کی شبیہ ہے، آج آدھی رات سے کاغذ کا پرزہ ہوں گے ۔ آپ کا پرشن ہو گا ایسا کیوں؟ میرا اُتر ہے کہ یہ کالاھن ہے ، نقلی ہے ، آنتک وادیوں کا ہتھیار ہے ۔ ان سے سودا سلف لایئے نہ اپنی جیب میں لئے پھر یئے۔ جانتا ہوں کہ آپ کو کچھ دیر اَسویدا ہوگی ، اس کے لئے شما کرنا ۔ یاد رکھئے اب سے دو تین گھنٹے بعدان نوٹوں سے جو پیار کرے وہ پُرش ہو تو دیش دروہی ، مہیلا ہوتو کلموہی، یُوا ہو توآتنکی ہے۔ من کی بات ہے کہ مجھ سے کسی ناگرک کا سکھ چین نہیں دیکھا جاتا، ہر ناگرک کے شانے پر مہنگائی کا بوجھ لاد لاد کر، دیس کی پریشانیاں بڑھاکر، ایک ایک ناگرک پر رات کا آرام دن کا چین حرام ہو، یہی چنتا ئیںچوبیسوںگھنٹے لگی رہتی ہیں ۔ جس دن یہ سب پر یوارک لکش پورے ہوں گے وہی میری خوشی کا دن ہوگا ۔ میرے شبھ چنتکو! آپ وکتی گت رُوپ سے جانتے ہیں اُترپردیش کا کڑا اور بڑا امتحان سر پرکھڑا ہے ، وہاں کچھ سمے بعد مت دان ہونے والا ہے ، اپنی راج نیتی جیوت رہنے کے لئے وہاں میراپراجت ہونا ضروری ہے۔ پر بھو نہ کرے اگر وہاں مہا گھٹ بندھن ہو اور اپنا حال دلی بہار جیسا برا ہواتو ناگپورگیا کام سے۔ اسی لئے اپنے پیارے مت داتاؤں کو گرمانے کے لئے،اُن میں اپنی ویرتا کاجوش دوڑانے کے لئے میںنے نِر نے لیا ہے کہ سیما پر گولی بارود کا بھنڈار بھنگ کر تارہوں گا۔ اس ہتھیا کانڈ سے سو فی صد میرا پلہ بھاری ہونا ہی ہونا ہے، مفت میں نواز شریف کے ساتھ راولپنڈی میںچائے پہ چرچا کا بیاج بھی ادا ہوگا۔ میرے اس متر کو فضول خان پانا مہ لیکس پانامہ لیکس چلّا کر آئے روز پریشان کر رہا ہے ۔ سیما پر یُدھ کے بیج بوکر ہم یہاں مت دان میں جیت فصل بھی کاٹیں گے، اور وہاں نواز میاں پریشانی مکت ہوگا، یعنی دونوں کھل نائکوںکا لابھ، دونوں کی وجے ۔ اندر کی ایک اور بات، میں نے سیما پار کوئی سرجیکل سٹرائک نہ کیا ، کیا میری مت ماری گئی تھی کہ پر مانُو ہتھیا ر والے ہمسایہ دیس کو چھیڑکر کہوں آبیل مجھے مار، یہ تو اپنی بناسپتی پہلوانی کاپر یچے کرنا تھا سو ہم نے کیا، مگر وشواس رکھئے میرا چھپا یدھ بلوچستان میں جاری رہے گا ۔۔۔ سَت یہ ہے کہ پانچ سواور ہزار نوٹوں پر سرجیکل سٹرائک سے ہر غریب کو ستانا ہے، ہر دھنوان کو چتاؤنی دینی ہے کہ میری جے جے کار نہ کی تو خاک پہ بٹھاؤںگا اورتمہاری سپمتی رہے گی نہ علی بابا کے چھپے خزانے۔ رہی یہ غریب جنتا، ان کے لئے جینا مرنا ایک ہی بات ہے ، اگر یہ غریب ہٹاؤ یوجنا کے تحت آدھے پورے مر بھی جائیں تو اس میںبراکیا ہے ۔ بچارے سیدھے سورگ میں جائیں گے ۔ تمام ناگرک سُوچت رہیں کہ میں حریت کی طرح ہفتہ وار کلینڈر نہیں دیتا بلکہ پورے پچاس دن کا کلینڈر دیتاہوں۔ اس پر آج آدھی راتری سے عمل ہوگا۔ ہر ایک وَگتی کو بنک اور اے ٹی ایم چلو پروگرام پر بھی کاربند رہنا ہوگا ۔ میں ہوں دیش کا مہا سیوک۔ جے ہند
جان ِ من ! میری نظر میں اس بھاشن کا مطلب ،لب لباب یہ ہے ؎
رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجئے
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے
ہند کے غربیو !تمہارے پانچ سو ہزار کے ردی نوٹوں کو شاہ ِ ہند چاہے کالا دھن کی گالی دے یا حلال کمائی کا اعزاز بخشیں ، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت ۔ تم ہی تودیوانے، احمق ، نادان ، کج نگاہ ، بے عقل ، فاتر و کور دماغ تھے کہ اچھے دن کے فریب میں آکر مودی کا آگیا جی آگیا کیا، پھر خود مصائب کی زنجیر میں پھنس گئے، کھلی آنکھ کے احمقانہ خواب کے اسیر ہوئے۔ اب کاہے کو پریشان ہو؟ رُوداد ِ جہاں اور فسانہ ٔ دہر ہی یہ ہے کہ مگر مچھ باہر اور مچھر جال کے ا ندر ہوں، اس لئے غم نہ کھا ، فکر نہ کر، زندگی دھوپ چھاؤں ہے، یہاں بڑے بڑوں کو ٹھوکریں لگتی ہیں، دیوالیے نکلتے ہیں، پچھتاوے ملتے ہیں، خسارے ہوتے ہیں، ایسا چلتا رہتا ہے ۔ مودی کو بھی اپنامنطقی انجام دیکھنا ہوگا ۔ الٹے پلٹے حالات کے اس پھیر بدل کے بہانے ہم جیسے خانہ خرابوں ، فقیر الفقراء رئیس الغرباء کی صف ِ میں تم سب پھٹیچر کا خوش آمدید ، آب وخور سے محرومی کا مزا کیا ہوتا ہے، اب پتہ چلے گا ۔ میری دعاہے کہ ملک ِہند میں حالات کی چکی کا جلد ازجلداُلٹا چکر شروع ہو تاکہ کسی رات شہنشاہِ ہند جام ِ جم پر آکر اُدھر یہ اعلان کر ے آج سے کشمیر بھارت کا اَبھِن انگ نہیں رہا، سوتنتر دیش ہے، اُدھر حریت اپنی لمبی چوڑی ہڑتال سے آزادی کا اعلان فرمائے ۔
آزادی کا طالب
غالب