پیرو مرشد! یہ سر زمین ِ جنت مثال ، قدرت کی صناعی کا کمال ، سر سبز و شادابیوں کا جمال ، دشت و صحرا کا حسین وجمیل مایا جال، افسوس کہ آدمی خون آشامیوں میں بے حال ، کہ آدمیت پامال ، زندہ رہنا محال ، زندگی فقط جبر وتشدد کا جنجال، ہر کلمہ خواں رنج و غم سے نڈھال ، بے چارہ گان کا سُر نہ کوئی تال، جہاں جاؤ وہاں کاحاکم دجال ، باوردی ستم گاروں کا دنبال ، وہ انسانیت کاکچومر نکالیں تو دیش بھگت ،ہم ناکردہ گناہوں کی سزا پر آہ کریں توپشتینی گناہ گار ، خاندانی عیب دار ، گولی اور گالی کے حق دار ، قلم دوات کنول کے مظالم میں شراکت دار ، ہل ہاتھ کے ساتھ سات سمند رپار ، شادی غمی فضولیات کا مچھلی بازار ، سیاست دان جرائم کے پیروکار، لال سنگھ مجرموں کا یار ، گنگا کی پہلی پسند اَندھ کار ، حریت بس ہڑتا لی للکار ،عام آدمی مریض وبیمار۔۔۔ اور بندہ مکھی مار درابو کی مانند بے کار ،زمین سے نہ اُگنے والی اور آسمان سے نہ اُترنے والی آزادی کے لئے سرا پا انتظار، ٹرمپ کی مہربانی کا طلب گار ، اقوام غیر متحدہ کے بے رحموں سے رحم مانگنے میں بے ننگ وعار۔ حضرت ! خدارا بتایئے ان تضادات کی جلوتوں میں جینا بھی کوئی جینا ہوا؟ سچ کہا ہے شکیل بدایونی نے ؎
او دنیا کے رکھوالے
سن درد بھرے میرے نالے
آش نراش کے دورنگوں سے
دنیا تونے سجائی
نیا کے سنگ طوفان بنایا
ملن کے ساتھ جدائی
جا دیکھ لیا ہرجائی
لٹ گئی میرے پیار کی نگری
اب تو نیر بہالے
اور دنیا کے رکھوالے
سن درد میرے نالے
آگ بنی ساون کی برکھا
پھول بنے انگارے
ناگن بن گئی رات سہانی
پتھر بن گئے تارے
سب ٹوٹ چکے ہیں سہارے
جیون اپنا واپس لے لے
جیون دینے والے
او دنیا کے رکھوالے
محل اُداس اور گلیاں سُونی
چُپ چُپ ہیں دیواریں
دل کیا اُجڑا دنیا اُجڑی
روٹھ گئی ہیں بہاریں
ہم جیون کیسے گزاریں
مولا ئے کریم کس بات کا انتظار ہے ؟بُلالے اس بے آس بندے کو اپنے پاس۔جوشؔ نے کیا ہوش کی بات کہی ع
جویائے کفن ہے زندگی کا جامہ
دیکھ اس جنت ِارضی پر جویائے کفن کا دبدبہ ہے ، داروغہ ٔ جہنم کی حکمرانی ہے، یعنی شرینی پر مرچوں کی سلطانی ہے، گلشن ِکشمیر پہ فرماں روا غولِ بیابانی ہے، یہ بلائے ناگہانی ہے ،آفت ِآسمانی ہے ۔ ا س کے دم قدم سے دشت و بیاباں وحشت زدہ ، شہر و دیہات غم زدہ، جھیل جھرنے خون آلودہ کہ سکون غارت، اطمینان غائب، آرام عنقا، دل اُجڑا دیار ، افسردگیاں ذہن پر سوار، مایوسیوں کا گردوغبار، دل شکنیوں کا پھلتا پھولتا بیوپار ، امن پسندوں کی گردنیں زیر تلوار، جُرم جرأت ِاظہار، گناہ سچ کی پکار، زعفرانی پادشاہ انسانیت سے بیزار، پولیس والے خلائق کے درپئے آزار، مظلوم بے یارو مددگار، بالا نشیں قائد دراز قد کے مثل خاک نشینانِ کاشمر کے دلدار نہ طرف دار، طبعاً عیار مزاجاًمکار۔اقبال نے اسی عالم اضطراب میں یہ آرزو کی ؎
دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیاہوں یارب
کیا لطف اُنجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
ہر درد مند دل کو رونا میرا رُلادے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید اُنہیں جگا دے
بندہ پرور!واللہ یہاں جیتے جی مر رہاہوں ، اپنی بُری تقدیر کے درو دیوارسے ڈر رہاہوں ، ختم نہ ہونی والی آہوں کی تپش سے قلب ِ بریاںکا مرہم کر رہاہوں، قطاراندرقطار آنسوؤں سے غم ِزندگی کا بہی کھاتہ بھر رہاہوں ۔ بقول اکبرؔ ع
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ طلسم ِہستی
شاید آپ بھی جانتے ہوںشوپیان شب وروز کا خونی پیرہن ، پلوامہ درد و کرب کا کفن، حاجن وہندوارہ کانٹوں کی چبھن، سری نگر و بڈگام مظالم و مصائب کاگرہن ،کپوارہ واسلام آباد بے چینی کی کڑھن، بارہمولہ اور کھٹوعہ کے نصیب میں رنج و محن۔۔۔ یہ خانہ خراب، یہ ذرہ ٔ بے نشاں کس کس پر روئے ، خرماں نصیب فلسطین پر دل پشیمان، بے خانمان ِشام پر ذہن پراگندہ ، بغداد کے برق و بخارات پر اشک باری، تکالیف وکلفت کے چمن یمن پر واویلا جاری، اندوہ ودل گیر کشمیر پر رُواں رُواں مبتلائے غم ؎
حیراں ہوں‘ دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
بندہ نہیں جانتا روئے کہ جگر کو پیٹے، ماتم وبین کا شغل فرمائے کہ سینہ کوبی کرے۔ دن کو چین نہ رات کو آرام ، غم میں ڈوبے صبح وشام، ہجوم در ہجوم آفات وآلام ، چہار سُو ہلاکتوں کی یلغار، جابجامقابر کی بہار، جنازوں کی تکرار، زخمیوں کی بھرمار، انسانیت لاچار، مودی مہاراج ترشول کاراج کمار، لال قلعے کی نیلامی کا گناہ گار ، تاج محل کے خلاف تبردار، مفتیاں جھوٹاگفتار، حریت خاصہ دار، ملک ِ کشمیر بے کل وبے قرار، بستی بستی مرثیہ،قریہ قریہ تعزیہ ، اِدھر بے زبان ماتمین ، اُ دھر بے نواخلقت۔ ہماری یہی دنیا یہی کائنات ۔ دشمن کے پاس کیا کیا نہیں ؟ توپ وتفنگ کی لا محدود طاقت، پتھردلی کی بے پناہ قوت ، لامثال بغض وعداوت ،شرابی کبابی ٹرمپ کی حمایت ، اسرائیلیوں کی جیسی شرافت، فتنہ وفساد کی طبیعت ، جنگ وجدل کی عادت،ناگپوری نفرت، شریک ِجرم مفتیوں کی ریاضت، ایجنڈا آف آلائنس کی دھوکہ باز سیاست، مکروفریب کی ذہانت، سیلف رول کی قبائے راحت، اٹونومی کاگناہ ِ بے لذت، با عزت امن کاخزانۂ عنایت، اتحادِ قطبین کی خاندانی وجاہت، افسپا کی خدائیت۔۔۔ ہمت نہ ہاریئے ، اپنے پاس بھی بہت کچھ ہے ۔۔۔ زخم زخم جذبے ، نعرہ زنیاں ، سنگ بازیاں، المیے، الٹے سیدھے بیانات کی اُلٹیاں، تقریریں، ہڑتالیں ، تباہیاں، بربادیاں، معلوم ونامعلوم قبریں ، دنیائے انسانیت کی بے اعتنائیاں ، انسانی سروں کی دلالیاں، مفت میں بکنے کی نیلامیاں، کھلی آنکھوں کے خواب، کفن بردوش سر فروش، آسیائیں، نیلوفریں ، آصفائیں ؎
میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لکھ دیا من جملۂ اسبابِ ویرانی مجھے
جان ِ من !حیران وپریشاں ہوں، اپنی قلم دوات کنول کے گیسوئے تابدار کی تاقیامت گرفتار کیوں ؟ خوب بہت خوب ! اس نے قائد ِنامدار کی تقلید میں وعدہ دیا جنت ِکشمیر کی بہار کا ، ہم نے آنکھ بند کر کے اعتبار کیا، اپنے تقدیر کے پٹے کا تحویلدار بنایا، جھوٹے وعدے سنہرے سپنے خرید خرید کر مردمومن کو کرسیٔ اقتدار پر بٹھایا، صلہ کیا پایاشمال وجنوب شرق وغرب میں خون خون آبشار، چھروںکے لیل ونہار ، لہو لہو اُپہار، نامساعد حالات کا منجدھار ، شہیدمقبروں کا باغ وبہار۔ ستم یہ کہ اپنے پہنچے ہوء اقتداری ملاو دُرویش بقول اکبرؔ ع
ہنسنے کو بھی تیار ہیں رونے کو بھی موجود
میرے جگر !مجھے اس جنت میںاور جینے کی سز ا مزید منظور نہیں ، بے کیف روز وشب کی زنجیر زندگی کہلائے تو موت کی حقیقت کیا؟ ابدی نیند کے معنی کیا ؟ چھی چھی چھی ! یہ شبانہ روز بے رحمی، سنگ دلی، بے مروتی ! بار بار مر نے سے کیا ایک ہی بارآنکھ موندھنا بہتر نہیں؟ اسی لئے دل جلے اکبرؔ نے فریاد و فغان کی ؎
امتیازِ حسرت ورنج والم جاتارہا
غم ہو اتنا کہ اب احسا سِ غم جاتارہا
جس سے تھا خود داریٔ اربا بِ حاجت کا نباہ
وہ سلیقہ تم سے اے اہل کرم جاتا رہا
اجل کا طالب
غالب