بر خور دار ! دیارِ ہند کی یہ مختصر کہانی ہے ، شاہ ِ ہند پہ چھائی جوانی ہے ، اچھے دنوں کی نظر فریب روانی ہے، وکاس کا بکواس لاثانی ہے ، کنول کھلا بن پانی ہے ، ہاتھ کی لکیر آنی جانی ہے، اُتر تا دکن پورب تا پچھم مملکت ِزعفرانی ہے ، نئی بوتل میں شراب پرانی ہے ، گرفتارِ اذیت مسلمانی ہے ، قلم زمین ِبارانی ہے ، ہل کو بنجر میں تلاشِ پانی ہے، پار کو یاد آگئی نانی ہے۔۔۔ یہی فسانہ ٔ دہر پڑ ھنے میں اپنے دیوان خانے میں یکہ وتنہا چلم سلگارہا تھا کہ افسوس لال افسوسؔ یکایک جلوہ افروزہوا۔ گناہ گار نے سوچا چلو اس کے دم قدم سے تنہائی کے لمحات سے کچھ نجات تو ملے۔ سلیک علیک کے بعد خندہ پیشانی سے حقہ اُس کی طرف بڑھا کر کہا شوق فرمایئے ۔ وہ بڑی بے رُخی سے بولا: مرزاؔ بہتر ہے زہر پلاؤ زہر۔ اب اور جی کے کیا کر نا ؟ گھٹ گھٹ کے جینے سے بہتر ایک ہی بار مرنا ہے ع
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
میرا ماتھا ٹھنکا! جی میں آیا افسوس ؔکو اسی دم مار بھگاؤں مگراپنی خاندانی وجاہت آڑے آئی ۔ خیال یہ تھا کہ اس کی صحبت میں میراغم غلط ہو گا مگر یہاں معاملہ اُلٹا نکلا۔ آپ ہی بتائیں آدمی کا دل پرا گندہ ، ذہن منتشر ، جگر پارہ پارہ ہو اور کوئی خشم آلودہ آدمی منحوس صورت لے کر آپ کا چین چرائے سکون غارت کرے ، تو کیا کر یئے ؟ افسوسؔ کی زبان میں لڑکھڑاہٹ، جسم پر تھر تھراہٹ، ہاتھوں پر کپکپاہٹ طاری دیکھی تو بندے نے ضبط واحتیاط اور خوشامد کی پگڈنڈی پکڑ لی ۔ حال یہ ہو ا ؎
ہے لب پہ خوشامد اور غضب کے مارے
بیٹھے ہو ئے جی میں گا لیاں دیتے ہیں
منہ سے بے ساختہ نکلا:لاحول ولا قوۃ! مریں حضورکے رقیب وحریف، جناب دشمنوں کی طبیعت آج پھر سے ناساز ہے کیا؟ بلغم زُکام کا حملہ تو نہیں ہوا؟ فرمایئے قہوہ منگاؤں یا شربت ِگاؤ زبان کا فنجان لاؤں ، یا حبِ اطمینان گلے اُتروا دوں؟
افسوس ؔانہوںنے کوئی جواب نہ دیا ، دل کا بوجھ ہلکا کر نے کے لئے غم ِدوراں کا یہ پٹارا کھولا :حضرت! قہوہ نہ شربت ، دوار نہ دارو، مودی بخار سے قوم کی جان چھڑاؤ، آخر کیا ہے شاہ ِ ہند کے جادو میں، سب کا ساتھ سب کاوِکاس سراسر واہیات وبکواس ، جنتا اُس سے بے آس ، پھر بھی مودی آئے راس ، اُسی پر دکھایااٹل وشواس۔ تین ہزار انسانی لا شوں کا اُچکتا یہ طوفان گجرات سے نکلا، دلی آدھمکا، اب اُترپردیش میں ڈیرا جمایا، اُتر اکھنڈ تک پر پھیلائے، یہ کسی لہر کا چمتکار نہیں، کسی سحر کی تاثیر نہیں ،قہر خداوندی ہے ، آشوبِ زمانہ ہے۔۔۔ میاں !شرافت کے لئے زمین تنگ ہو چکی ہے، انسانیت کے شیش خانے پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے، قیامت کبریٰ بپا ہوئی ہے ۔اسی دن کے لئے کہاسرور نے ؎
مراسارا لہو جس کی حنا بندی میں کام آیا
خدایا! اب وہ جنت بھی خیالی ہوتی جاتی ہے
میں نے افسوسؔ لال سے کہا : صبر بھئی صبر، خاطر جمع رکھیو ، ایسی کیا اُفتاد پڑی کہ اتنے پریشان و غضب ناک ہو رہے ہو ؟ اور پھر ہم جیسوں کاشاہ ِ ہند سے کیا لینا کیا دینا، کہاں راجہ بھوج کہاں گنگوتیلی ! یہ اُلٹی سیدھی ہانکنے کا کیا فائدہ؟عرض کیا ہے ؎
بک رہاہوں جنوں میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
کارِ خاص والے آپ کی سنیں ،داعش جتلاکر اوپر پہنچا دیں ۔ افسوسؔ بولا: مرزا! آپ بھی فضول و بے ہودہ ہیں ؟ مجھے مغالطہ لگا کہ آپ قوم کے غم گسار ملک کے وفادار ہیں،آپ نہ زمانہ شناس نہ درد خواہ۔ کچھ پتہ بھی ہے ملک ِ ہندکہاں سے کہاں پہنچا؟ دستار بچانے کے لئے بندے نے پوچھا: سرکار! ملک ِ ہند شاید وہیں کا وہیں کھڑا ہے جہاں میرے پردادا کے پردادا نے ا سے استادہ دیکھا تھا ، ہم ہی اِدھراُدھر سرک گئے ، ہند نے کب کہیں اورجانے کا قصد کیا؟ کبھی کوہ ِ قاف سر کر نے کا خیال آیا نہ دیوارِ چین سے سر ٹکرانے کا شوق چرایا ؟ پہلے ہاتھ کا ساتھ دیا اب کنول کی جے جے کار کر ے، یہاں امیروں کی امیری اٹل ہے،غریبوں کی بدحالی انمٹ ہے، جھوٹوں کے لئے تالی ہے ، سچوں کی پامالی ہے، ا مبانی کا بول بالا ہے، اڈانی کا دور دورہ ہے ۔۔۔ افسوسؔ بولا: کتنے نادان ہو! اتنی بھی خبر نہیں پانچ ریاستوں میں عوام کو اپنا استحصال کر نے والے نئے بادشاہوںکی تلاش تھی ؟ انہی سحر زدہ سیدھے سادھوں کے صدقے دو جگہ تخت ِشاہی زعفرانیوں کو ملا، وہ بھی کھوکھلے نعروں جھوٹے وعدوں کے عوض۔ مودی مہاراج نے مسلمانوں کو در کنارکر کے دوقومی نظریے کی لاج رکھی ۔ کیایہ اس وشال ملک کے لئے اچھا شگون ہے ؟
میں نے بناوٹی حیرت واستعجاب سے کہا: اچھا تو کمپنی بہادر کی یہ مجال! وہ پھر سے شروع ہوا : مرزا! کمپنی کب کی رخصت ہوگئی ، پیچھے جو یتیم ولاوارث قوم چھوڑی، وہی اب جن سنگھ کو پٹے پر ملی ، جن سنگھ دین دھرم، کھان پان، لبا س زبان، رنگ نسل ، بھید بھاؤ کے نام پر تیر وتلوار سے خنجر وکٹار سے جنتا کی مار کاٹ کئے جارہی ہے۔۔۔ ملک لاوارث،قوم بے حس، عوام منزل ناآشنا ، غریب مٹیں ، نادار پٹیں ، سیاست چال بازی دغا بازی و سخن ساز ی، غریبوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔۔۔ پتہ بھی ہے جن سنگھ کیا کر ہی ہے ؟ برسوں سے بابری مسجد رام جنم بھومی، تین سو ستھر، گھر واپسی، سہ طلاق، قبرستان و شمشان، عید اور دیوالی اُچھال کر نفرتیں کدورتیں عداوتیں فتنے بیچ رہی ہے۔ سنہرے سپنوں کی اس سوداگری میں عام خام پائل کی جھنکار کیوں؟ ہندوتو کے پرستار کیوں؟ جنم جنم سے سنگھ پریوار کیوں ؟ عامل بھرشٹاچار کیوں؟ حامی ٔ اتیاچار کیوں ؟ یہی پانچ کیوں مجھے اندر سے چاٹ رہے ہیں۔
واللہ! افسوس لالؔ کی ہر بات، ہرخدشہ، ہر فکر وتشویش سیدھے دل و دماغ میں اترتی رہی، مگر اسے اورچڑانے کے لئے پوچھ بیٹھا: بھائی ! سنگھ اتنا خانہ خراب ہے تو شاہ سلمان نے مودی مہاراج کو سب سے بڑا شاہی تمغہ کیوں دیا ؟ اُترپردیش نے اعتماد کا تاج کیوں پہنا یا؟مفتیانِ عظام نے عوامی خواہشات کو لتاڑکر منشور اتحاد کے اُڑن کٹھولے میں قطبین کا سفر عوامی خواہشات کے برعکس کیوں طے کیا؟ شیخانِ کشمیر نے دلی جاکر شیاما پرساد مکھر جی کے والی وارثوں کی چاکری گجرات قتل عام کے باوجود کیوں جاری رکھی؟ وہ بھڑک کر بولا : کشمیر کو بیچ میں کیوں لایا ؟ اس کی ساری حزنیہ داستان قطبین کے فراق و وصال کے گرد گھومتی رہی ، شیخ نے مہاراجہ کے خلاف مسلم پرچم اُٹھایا ،پھر اسی کے گماشتوں سے مل کر نیشنل جھنڈے سے قطبین کا اتحاد کیا، ناظم اعلیٰ کی نوکری پائی، سنتالیس میں قطبین کے مصنوعی اتحاد پرالحاق کی مہر چسپاں کی ، وزرات عظمیٰ سنبھالی، پچھتر میں قطبین کے ا تصال کے لئے رائے شماری کو جہلم برد کیا، وزارتِ عالیہ عاریتاً پائی ، اب مفتیاں، بخاریاں، اندرابیاں ، شاہاں و پیراں اسی روایت پرچلیں ، کیا بُرا کیا ؟ ان کا فلسفۂ حکومت وسلطنت ہے ؎
ہم نے پہنا کوٹ فرنگی چھیل چھبیلے شاد ہوئے
لوگ ہمیں کہتے تھے ’’ملا‘‘ پھر سے ہم ایجاد ہوئے
لبرل ہے اپروچ ہماری، کنولوں کے اُستاد ہوئے
مسجد مندر جھگڑا کیسا ، دقیانوسی باتیں ہیں
میں غریب افسوسؔ کی ترش کلامی سے حظ اٹھاتا رہا،مگر اُس کا دل رکھنے کے لئے اس کی ہاں میں ہاں بھی ملاتا رہا۔ اندر ہی اندر یہ خیال و گمان ستا رہاتھا ہو نہ ہو آج مشتنڈے نے یا توجوابازی میں اپنی بیگم کی سر چادر بھی گنوادی ہے، یا انگور کی بیٹی کچھ زیادہ ہی چڑھا دی ہے کہ بے لگام بہکی بہکی باتیں کرتاجارہاہے۔ افسوسؔ نے میرے پشتینی جام ِجم کو دیکھا تو اپنا غصہ نکالنے کے لئے اسی پر بھی دوایک لاتیں ماریںاورچلّایا: اس کم بخت دوردرشن کی ایسی کی تیسی! اسی نامردا نے انتخابی نتائج دکھا دکھاکر میرے جنون کا پارہ گرم کر دیا ۔ مرزا! یہ کیسی جمہوریت ؟یہ کونسی سیاست؟ یہ کہاں کی آدمیت ؟یہ کدھر کی معقولیت؟ منی پورہ کی آپا ا روم شرمیلا کو سولہ برس کی تپسیا کاصلہ صرف پچانوے ووٹ؟ میاں جی ! یہاں بندوں کو گنا کر تے ہیں تولا نہیں کر تے ۔ ہائے میری شومی ٔ قسمت اُترپردیش میں مودی واد کی جیت سے میں لاچار بیک بار سٹہ بازار میں اپنی ساری پونجی ہار بیٹھا، میری پیش بینیاں ایک ایک کر کے غلط نکلیں ، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا ، اب کون میری دانائی کی داد دے گا ؟ میں لٹ گیا ، برباد ہو گیا، اب میں باؤلا ہو رہا ہوں، تم کہو اگر سکے پر پا بندی ، محنت ومشقت کی نس بندی ، بازاروں کی بے رونقی ،کاروبار کی مندی، دلت جاتی اور مسلم قوم کی زبان بندی ، گھر واپسی کی دیوار بندی، گاؤ رکھشا کی آ ندھی، خونچکاںقصۂ دادری نا لائق جمہور کو قبول ہے تو اسے انتہا پسندی پر واویلا کا دورہ کیوں پڑتا ؟ بیڑا غرق ہو اس نامراد سیاست کا ، ستیا ناس ہو اس نام نہاد جمہوریت کا۔ بخدا جعلی جمہوریت نے ہم غریبوں کی پریشانیاں ہمیشہ بڑھادیں، ہر بار بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنایا، تگنی کا ناچ نچایا ، اب دیکھنا عنقریب سری نگر بڈگام ، پلوامہ اسلام آباد میں بے بال وپر جمہوریت کی نیلم پری کا جادو سر چڑھ کر بولے گا ، بائیکاٹ کا ہی لوگ بائیکاٹ کریں گے، دیکھنا۔اسی لئے میں مصحفیؔ کی بات پر لبیک کہوں ؎
اے مصحفیؔ بے لطف ہے اس شہر میں رہنا
سچ ہے کہ کچھ انسان کی توقیر نہیں ہے
بڑی دیر تک افسوسؔ لال کی آپ بیتی سنتارہا، تنگ آکراسے جگ بیتی سنانے جسارت کی: بندہ ٔ خدا! ٹھنڈ رکھ ٹھنڈ، قسم کمپنی بہادر کی انتخابی بخار لمحاتی ہوتا ہے، فوراً چڑھے، بہ عجلت اُترے ، ٹرمپ نے میدان مارا، لوگ ہکا بکا بھی رہے ، مشتعل بھی ہوئے، جلسے جلوس بھی کئے، ٹرمپ نے اپنا پتہ چالاکی سے کھیلا تھا، شاہ ِ ہندمودی کے پاس بھی جادو ٹونا ہے، وہ عوام کالانام میں خوب چلا، مودی نے سخن سازیاں کیں ، نامعلوم ترقی کا نغمہ خوانی کی ، اچھے دنوں کی چھکری سنادی،خیالی اُڑان کا چرچاکیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے ، میدان خالی تھا، نہ کہیں بہار جیسا مہا گھٹ بندھن ، نہ کہیںدلی کا کیجری وال جیسا رہنما، پلڑا ایک طرف جھکنا تھا سو جھک گیا۔ بھئی! یہ مودی مہاراج کی اچھی قسمت نہیں تو کیا ہے ، مشن کشمیر خوابِ پریشاں تھا، تعبیر مفتیاں نے آملیں گے سینہ چاکان ِ چمن سے سینہ چاک گنگنا کے کردی۔ مانتاہوں جن سنگھ کی حیران کن انتخابی جیت نے دل جلوں کی اُمیدیں زیر وزبر کیں، تبدیلی کی توقعات کا منہ چڑایا ، بعضوں کے خیالات کی تصدیق کی ،کہیوں کے ظن وتخمین پر چپت رسید کی ،کرسی کی مالا جپنے والے کہیںہار گئے کہیں جیت گئے، کو ئی اُٹھاکو ئی گرا ، کسی کے منہ پر طمانچہ پڑاکوئی تماشہ بنا ۔ رسم ِ دنیا کے مطابق تخت وتاج کی جنگ میں رنگ ِجہاں بدلا ، نبض ِ کائنات اُلٹ گئی، اُتر پردیش و اُترا کھنڈمودی کے سنگ چلا، پنجاب،گوا، منی پور راہل کے سنگ ہوا، اکھلیش کے ہاتھ رباب نہ چنگ آیا، مایا وتی بے رنگ وبے ڈھنگ ہوئی۔ جناب عالی !یہ بادشاہ سازی کا شغل جادوئی ہوتا ہے ۔ رہا پھٹیچر ناتھ ولد غریب چند ساکن زوال آباد،وہ بچارا پانچ سو ہزار نوٹ کے سوگ میں ڈوبا ہے ، مہنگائی کا رُلایا ہوا ہے ، بے کاری کا ستایا ہوا ہے۔۔۔ زمانے کی نگاہ تاک میں ہے کہ دلی کی قوت، اُترپردیش کی اکثریت کے بل پہ رام مندر تعمیر ہوگا ؟ تین سو ستھر کا کر یا کرم ہو گا؟ یکسان عائلی نظام نافذ ہو گا؟ ذرا سااورا نتظار کر ئیو اور دیکھیو کھتنی اور کر نی میں کتنا فرق ہوتاہے ۔ یہ سارا کھیل مودی کی جادوئی مقبولیت ہے؟ کانگریس کی محرومی ٔ قیادت ہے؟ بھاجپا کی فرقہ پرستانہ سیاست ہے ؟قوم کی یاسیت ہے ؟ جھوٹے نعروں سپنوں کی جاذبیت ہے؟ جس نے جن سنگھ کو جتایا، میں کہوں یہ سب میں تھوڑا تھوڑا ہے۔ ۔۔ میرے فلسفیانہ گفتار سے افسوس لال اتنا اوب گیا کہ میٹھی نیند کے خراٹے لیتے ۲۰۱۹ء کے انتخابی خواب وخیال میں گم ہو ا ، کیا پتہ شایدا ب ۲۰۲۴ء کے انتخابات کے وقت اس کی نیندٹوٹ جائے ۔ چلئے ہم بھی رُوداد ِ وطن کا بہی کھاتہ یہیں پر بند کرکے کشمیر کی دونشستوں کے انتخابات ہونے تک میٹھی نیند کی بانہوں میں چلے جاتے ہیں۔ شب بخیر!
میٹھی نیند کا طالب
غالب