بر خور دار! مابدولت کا شعر ہے ؎
ہو ئے ہم جو مرکے رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اُٹھتا نہ کہیںمزار ہوتا
کوئی بدنام زماں میجر گگوئی ہے کہ اس کے اُلٹ کہہ گیا ؎
ہو امیں جوپھر سے رُسوا، ہوںاور بھی عزت دار
کہ ملیں گے اب پُرسکار، بہ طفیل مودی سرکار
کہاں ہمارے شعر کا عجزوانکسار ، کہاں یہ اہنکار، ذہنی خلفشار، گناہوں پر اصرار، جرائم کی جے جے کار ؟؟؟ تو بہ توبہ توبہ !!! گھٹیا شعر سننا تھا کہ ناچیز کو متلی ہوئی، طبیعت پربار گزرا ،پیمانہ ٔ صبر لبریز ہوا، گن چکر کشمیری سے پوچھا کون ہے یہ میجر گگوئی؟ اُلٹی کھوپڑی والا، ناسمجھ، پاجی،عقل سے پیدل،شعرگوئی سے نابلد۔ گن چکر نے کن سوئی کے انداز میںجواب دیا: شی، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ، چچادھیرے دھیرے بول کوئی سن نہ لے، میجر گگوئی ملک ِہند کا لشکری ہے، سنگھ پریوار کی پھٹکری ہے ، وطن عزیز کے سینے پر مونگ دَلنے والا عسکری ہے ۔۔۔اور یہ ارض ِکشمیر ہے ، شیخ ِبے حرم کی سیاسی تقصیر کا تختہ ٔ مشق ، من تو شدم کی تعبیر ، ابابیلوں کی جاگیر ، پابہ زنجیر ، کھوٹی تقدیر ، لکیر کا فقیر ، یہاں افسپا کا دبدبہ ہے ، جنگل راج کا غلغلہ ہے،بندوق کا غلبہ ہے، تذلیل و بےآبروئی رنگروٹوں کا مشغلہ ہے، لوٹ مار کی حکمرانی ہے،آگ زنی کا اَنتھک سلسلہ ہے ، زندانوں کی کثرت ہے، تعذیب خانے قدم قدم ہیں، خاکستر بستیاں ہیں، منہدم بازار ہیں ، شہداء کے مقابر ہیں ، مظلوموں کی آہیں اورستم رسیدوں کی چیخیں ہیں ۔ اور بہ کرمِ افسپا یہاں وردی والا جو کرے وہ اصول ،جو کہے وہ قا نون، وہ مارے تو قوم کا وفادار، جسے مارے وہ غدار وناہنجار، جو ظلم وجبر پر اُف کرے وہ گرفتار، وردی پوش جس حیادار کی عزت لوٹے وہ بچارا دل فگار و شرمسار ، بے یارومددگار، تار تار و بے ا عتبار ۔ کشمیر کا سیاست کار ہو یا حوالدار، جوجتنا بڑا گناہ گار وہ اتنا ہی باعزت پیش ِسرکار ؎
ہ بزم وہ ہے جہاں روسیاہ ہوتے ہیں
حضورِ پیرِ مغاں کج روان ِ مادر زاد
یہاں سرور سے ہوتی ہے فضل کی تصدیق
یہاں سبو سے پرکھتے ہیں علم کے اسناد
یہاں نشاط کے آگے نقاب اُلٹتی ہے
شرافتِ نسبی ٔورِ ذالتِ اجداد
میرے سرکار ! ذرا سا یاد کریئے ، میجر گگوئی نے کیسے بیروہ کے لاچار فاروق ڈار کواپنے تمغے ، ترقی، مرحبا، شا باشی کا پیش کفتار بنایا۔ غریب دیہاتی کو میجر نے کانوائی کی جیپ کے ساتھ رسی سے کیاباندھ لیا کہ اُسے سرخاب کے پر لگے ، اس کے لئے گھی کے چراغ جلائے گئے ، سپہ سالار ہند نے تعریفوں کے پُل باندھے، زعفرانیوں نے ہیرو بتایا، چنلوں نے دُلار دیا ۔ کمال یہ کیا تھا کہ اَدھ موئے ڈار کو ذلیل وخوار کرکے گلی گلی گھمایا ،کوچہ کوچہ نمائش کی ، اہل کشمیر کو بہت دُکھایابے انتہا رُلایا ۔ آپ ہی بتائیںیہ کوئی بہادری ہوئی ؟ نہیں قطعاًنہیں ، یہ اسرائیل کی بھونڈی نقالی تھی ، یہ صیہونی قاتلوں کی جگالی تھی ، یہ بزدلی کا کھلا اظہار تھا ، یہ محض ظلم وجور کا چمتکار تھا ، یہ آدمیت سے بیزاری کا اشتہار تھا ۔۔۔ اَہنساوادیوں سے میجر نے خیالی سرجیکل اسٹرائیک کی مانند اتنی واہ واہی پائی کہ چھاتی ساٹھ انچ تک پھول گئی، اس پر بے جا تعریفوں کے ڈونگرے برسائے گئے، دیش بھگت، وِیر بہادر، حاضر دماغ ،لاجواب سینانی کیا کیا القابات نہ ملے ۔ میجر کا سر گھوم گیا، آسمان نیچے نظر آیا، خود کو اوپر نیلے گگن میں پایا۔ قدرت کاکرشمہ دیکھئے اس غبارے سے بہت جلد ہوا نکل گئی ۔ گگوئی کو ایک اور میدان ِ جنگ سجانے کی سوجھی مگر پہلے کی طرح منہ کی کھائی۔ اپنی بیٹی کی عمر کے برابر کسی نابالغ غریب ونادار لڑکی کو بہلا پھسلاکر ہوٹل لایا ، مقامی دلال بھی ساتھ تھا ، آنکھوں پر نفس ِامارہ کی پٹی ، مدہوش ، حواس باختہ ، گم گشتہ راہ، عقل سے پیدل ۔ گگوئی کایہ سر اپا ہوٹل کے منیجر نے خوب تاڑ لیا، سوچا دال میں کچھ کالاہے، وہ اخلاق کی سرحد پر چوکسی برتنے پر ڈٹ گیا، ہوٹل کا کمرہ شب باشی کے لئے دینے سے انکار کیا ، میجر بے دست وپاہوا، سٹپٹایا، چیخا چلّایا، رعب جمایا، منت سماجت کی، منیجر نے اپنے ضمیرواصول کا مورچہ سنبھالا ، بزبان حال بتایا ابھی کشمیری مسلمان کی غیرت زندہ ہے، حمیت باقی ہے ۔ نوبت دوطرفہ تلخ کلامی اور مقامی لوگوں کی ناراضگی سے گزرگر مقامی پولیس کارروائی تک پہنچی۔ میجر ، لڑکی ، دلال تینوں حوالات میں بند کئے گئے ، تھانے میں یہ انکشاف ہوا پکڑا گیا شخص کوئی اور نہیں افواجِ ہند کا میجر گگوئی ہے ۔
چچا!اس شخص کو پتہ ہے کشمیر میں ظلم وبربریت نصف النہار پر ہے ، مودی سرکار یہاں تخریب و تنفر کی بجلیوں کی خواستگار ہے، کھٹوعہ سے کنن پوشپورہ تک بنت ِحوا کی عزتوں پر اغیار کی یلغار ہے، اس لئے جتنا گگوئی ظلم و وحشت میں نامدار ہو گا ،اتنے اسے پُر سکار وںکی قطار منتظر ہوگی، یہی حقیقت اس نے اپنی تُک بندی میں جتائی ۔ ۔۔ بے شک ضعیف و ناتواں ہوں ولیکن ایسے بھوکے درندوں کے خلاف خون کھول اٹھتا ہے ، جذبات میں تلاطم کی بپھراہٹ پیدا ہوتی ہے ، غصے کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور میرا وعدہ ہے ؎
ان پاپ کے محلوں کو گرادوں گا اِک دن
ان ناچ کے رسیوں کو نچا دوں گا اِک دن
مٹ جائیں گے انسان کی صورت کے یہ حیوان
بھونچال ہوں بھونچال ہوں طوفان ہوں طوفان
چچا! ہم کیا ہماری اوقات کیا، آپ ہی خود ہمیں سمجھا گئے ہیں ؎
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشت ِغم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں
ہوں دردمند، جبر ہو یااختیار ہو
گاہ نالۂ کشیدہ، گاہ اشک ِکشیدہ ہوں
ہرگز کسی کے دل میں نہیںہے میری جگہ
ہوں میں کلام ِنغز، ولے ناشنیدہ ہوں
گن چکر کی زبانی یہ رُوداد سن کرخانہ خراب کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو چھلکے، دل پر غم اورغصے کا دورہ پڑا۔ گن چکر کو شاید اپنے پتھر بازی کا شغل یاد آیا، فوراً اخبار شہر ناپرساں میرے کپکپاتے ہاتھ میں تھماکررفوچکر ہو ا۔
برخوردار! کیا تم نے آج اخبار شہر ناپرساں دیکھا ؟ ضرور دیکھا ہوگا ۔ میں نے بھی ناشتے کے وقت تھوڑی سی ورق گردانی کی۔ کیاتم نے اخبار کی پیشانی پر سرینگر کی وہ بولتی تصویر دیکھی ؟ میں نے بھی دیکھی۔ آنکھیں پھٹی پھٹی کی رہ گئی ہوں گی؟ ہاں! تصویر دیکھ کرمیری حیرت کا ٹوٹا سفینہ بھی سوچ سمند رمیں ہچکولے کھاتا رہا ۔ دلِ نادان کو ا س ایک تصویر میں چھپی ہزار داستانوں کاسراغ ملا ۔ تصویر بھی کیا خوب منظر دکھا تی ہے، اُدھر کشمیر کا مزاحمتی تھری جی ۔۔۔ گیلانی جی ، میرواعظ جی ، یاسین جی ،اِدھر سری نگر کے سٹیج پر الحاقی تھری جی۔۔۔ مودی جی، محبوبہ جی ، فاروق جی ۔ ۔۔عقل نے پوچھا یہ دوسر اتھری جی ایک دوسرے کے رفیق ہیں یارقیب ؟ بصیرت نے جواب دیا مودی جی نے کرسی کے متوالوں کا اتحاد کر دکھایا، رہیں دہلوی جی کی قلم دوات سے نزدیکیاں ، ہل سے دوریاں، یہ سب بے بھروسہ موسموں کی طرح ہیں ، کبھی اُلٹ جائے کبھی پلٹ جائیں ، یعنی بقول حالیؔ ع
پھرو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی
کرسی کے پجاریوں کو تخت وتاج کے لئے کیا کیا نہیں کر نا پڑتا۔ گندی نالی کے کیڑوں کو بوسہ دینا پڑتاہے، شیا ما پرساد مکھرجی کی آل اولاد کو گلے لگانا پڑتا ہے، دن کو رات، رات کو دن کہنا پڑتاہے ۔ یہ کافرادا کشمیر کی کرسی ہے ہی ایسی ہر جائی کہ اپنے پیچھے سب کو گھمائے، پھر ٹھینگا دکھائے۔ اللہ رے اللہ ! اپنی سیاست ِکشمیر بھی کیا کمال کی چیز ہے ، شیخ وبرہمن کو ملائے، شرق وغرب کو اکھٹا کر ے ، اپنوں سے بیر سکھائے ، غیروں سے جوڑ کرائے ، اس کی ہرادا نرالی، اس کا تھرکنا ، اُچھلنا، دھڑکنا ، اُبھرکر ڈوبنا ، ڈوب کر اُبھرنا، سب کچھ اس کی سیمابی طبیعت کے جلوے ہیں ۔
بھئی !اور کوئی نئی تازی سناؤ۔تم نے اخبار شہر نا پُرسان میں وہ سنسنی خیز انکشاف پڑھا ہوگا۔ دروغ بر گردنِ راوی کہتے ہیں سوپر کے شہرۂ آفاق فارسی پروفیسر بٹ صاحب پر الہام ہوا ہے کہ اگلے سال ہند پاک مذاکرات کی رُکی پڑی گاڑی پھرسے دوڑے گی بلکہ اُڑے گی، بندے کو یقین نہیں مگر بدلتی دنیا میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ کہتے ہیں یہاں اسرائیل کا جگری یارمودی دوبارہ وزیراعظم ہوگا ، پار بھی کوئی نہ کوئی امریکہ کا ٹٹو برسر اقتدار ہوگا ، دونوں ایک دوسرے کا حال چال پوچھنے، برتھ ڈے کیک کاٹنے ، شالوں ساڑھیوں کا تبادلہ کر نے ، مزاج پُر سی کر نے کے واسطے نقلی گفت وشنید کی میز سجائیں گے۔ اسی اثناء میں حدمتارکہ پر ماراماری ساری یاری دوستی کو اُلٹا پلٹا کر دے گی ۔ کشمیر جلتا رہے گا، تیر وتلوار چلتے رہیں گے، کھٹوعہ اور چک کاؤسہ کی ناقابل بیان داستانیں بنتی رہیں گی ،لاحاصل بات چیت کے دور چلتے رہیں گے۔ ع
دل کو خوش رکھنے کے لئے غالب ؔ اچھا ہے
اس الہامی پیش گوئی سے مجھے پروفیسر کا وہ پچیس سال پرانا شاعرا نہ الہام یاد آیا ؎
ٹنڈس پیٹھ ٹنڈ تیہ ٹنڈس لجی زِیر
کابل قندہار پتہ کشمیر
تازہ پیش گوئی پور اہونے میں دوچار صدیاں اور انتظار کر ناپڑے ، کوئی مضائقہ نہیں ۔ قسم اسد درانی اور اے ایس دُلت کی نئی جاسوسانہ کتاب کی، ہم قیامت تک کا انتظار کریں گے ۔ پروفیسر بٹ کی نئی پیش گوئی اندر کی بات ہے ۔ کم ازکم اس سے میری آوارہ سوچ کی خشک سالی ختم ہوئی، میری خوش فہمیوں کا بغیچہ سیراب ہوا ، جی خوش ہوا، دل کو سکون ملا،دماغ کو چین ملا۔ پیش گوئی سے آنے والے کل کے حالات کا پلاٹ بھی سامنے آیا۔اگر زبان پہلوی کے پروفیسر صاحب ملیں تو کہنا غالب کہتا ہے آپ کے منہ میں گھی شکر ، آپ ہزار برس جئیں، ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار، بڑے دنوں سے آپ کی گل افشانیوں کا انتظار تھا ، اللہ جزائے خیر دے چٹکیوں میں منہ کا ذائقہ بدل دیا ، مگر گستاخی معاف یہ جو تجویز دی کہ متحدہ مزاحمتی قیادت اپنا ایک ہی لیڈر چن لے، یارانِ نکتہ دان کہتے ہیں کہ یہ افلاطونی تجویز بے سروپا ہے۔ ہماراایک ہی لیڈر ہوا تو باقی دو کیا کریں گے ؟ ان کے لئے بھی کوئی کام دام ہونا چاہیے نا ۔ نا بابا نا، کشمیر کے لئے تثلیث ہی ٹھیک ہے ۔ لوگ باگ اس فارسی تجویز سے یہ مطلب نچوڑ یں تو کیا کہیں کہ پروفیسر خود کے لئے قائداعلیٰ کی کرسی چاہتے ہیں ، بھلے ہی وہ یک نفری فوج ہیں مگر اپنی ذات میںا نجمن ہیں ۔ بندہ بھی ایک ہی قائد، ایک ہی قبلہ ،ایک ہی منزل کی تلاش میں بھٹکا ہوا راہی ہے۔
ایک ہی قائد کا طالب
غالب