میاں! آ ج ناچیز کی داستان سنئے ۔ کل علی الصبح ماہانہ’’ شہر ناپرساں‘‘ کا نامہ نگارمجنونؔ باؤلا نگری دیوان خانے میں آدھمکا۔ مجنونؔ ہے کون ؟ درباری ٹی وی چنلوں جیسی فالتوچیز ، خر دماغی کا نادر نمونہ، بکواسی لال کا ہم مزاج ، فکر وشعور سے بے بہرہ، ذہانت سے پیدل، لکیر کا فقیر، جھوٹ کی جاگیر ،مفادات کاا سیر، ننگ ِانسانیت پھر بھی خبط یہ ہے کہ مابدولت قلمروئے سیاست کے شہسوار ، صحافت ِ زمانہ کے شناور، بے بدل سخن ور ،اعلیٰ پایہ دانش ور ، بلند مرتبہ تجزیہ نگار ، وادی ٔ دل فگار کا موسم بہار ۔۔۔ مجنون صاحب دیوان خانے میں کش کش پر لگاکے درودیوار کو دھواں دھواں کر تا رہا، شکم سیر ہواتو مسکا مارتے ہوئے بولا: بہت دن سے چاہ رہا تھا کیوں نہ میرزا نوشہ ،نجم الدولہ، دبیرالملک میرزا اسداللہ خان کا کا ایک عدد انٹرویو لیا جائے، یہی مدعا ومقصد لئے حاضر خدمت ہوں۔۔۔ چونکہ منہ میں زبان رکھتا ہوں، اس لئے نپے تلے الفاظ میں کہا: بھئی مجنون ؔ !میں کیا میری اوقات کیا ؟ خانہ خراب دیوانہ مستانہ، موروثی کٹیا میں پڑا پرانا گاؤ تکیہ،کبھی جام ِ جم کی تصاویرمیں گم،کبھی شعر وسخن کے لب وبام میں کھویا ، نہ آمدبہار کی خبر ، نہ خزاں جانے کا علم، نہ سیاست سے شغف، نہ ا ربابِ اقتدار سے ناتہ ؎
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھادے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ ِ ناتمامی
مجنونؔ صاحب! گناہ گار کی مانئے، اپنے کسی ہم رتبہ مفکر، کسی ہم پایہ مبصرسے کلام کریں، شاید بحر کی تہ سے کچھ اُچھلے۔ یہ خود سے بے خبر انسان کس کام کا؟مجنون نے مفت مشورے کی نفی کردی: نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے مرزا صاحب! آپ کے ایک داغ ِ ناتمام میں ہزاروں درد پنہاں ، فسانہ ٔ دہر کی لہریں رقصاں ، سر گزشتوں کا خزینہ نہاں ۔ ہمیں ملک ِہند و ملک ِکشمیر سیاسی اُلٹ پھیر پہ آپ سے کچھ اُگلوانا ہے ، رُودادِ چمن جاننی ہے ، جناب کی اتنی زیادہ کسر نفسی ٹھیک بھی نہیں ۔۔۔ چلئے شروعات اس چبھتے سوال سے کریں ، مرزا ! اگر زعفران زار میں چہار سُو ترشول وتلوار ، حالات خوں بار ، کلمہ خوان زیر عتاب ، یوگیوں اور بر ہمچاریوں کا عذاب برستاہے ، ایک خلقت خوارو لاچار ہے ، عام خام کے لئے جگ دُکھ بھرا سنسار ہے ، مر نا سہل جینا دشوار ہے ! آپ اتنے خوددار وجاندار ہیں تو اس گھٹن میں گزر کیسے ہورہی ؟ کر کیا رہے آپ ہیں ؟ کچھ کھا پی بھی رہے ہیں؟ قیدحیات اور بند غم میں کیا کیا شغل فرما رہے ہیں؟ کہیں آپ بھی قلم دواتیوں کی تقلید میں ایجنڈا آف الائنس کے مچلکہ پر دربار کے نوکر تو نہ ہوئے؟ میں نے کہا: آپ نے تو ایک ہی سانس میں کئی دُکھتی رگوں پر انگلی رکھ دی ، ہر سوال ایک ہمالیائی جنجال ہے ، گناہ گار کے لئے جواب دینا محال ہے ۔۔۔ بندہ مست قلندر، نہ غم ِجنت نہ فکر ِدوزخ، کبھی مچھندر کبھی سکندر، روح کی کشتی مرضِ دائم کے حوالے، بدن کا سفینہ قرض چلاوئے، فاقہ مستی ، مے کشی ، قرض خواہی کے مابین ایک اَٹوٹ رشتہ جنم جنم کے لئے جڑتاجاوئے ۔۔۔ ہاں جب دنیا کے نشیب وفراز میں غم کی بدلی مطلع ٔقلب پر چھا جاوئے یااُداس دل بوجھل من کو رُلاوئے تو لگے ہاتھوں یہ غزل وردِزبان ہوجاوئے ؎
ابنِ مریم ہو اکر ے کوئی
میرے دل کی دوا کرے کوئی
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کر ے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطاکر ے کوئی
یہ ہے اپنا ایک جان بچاؤ مستقل بالذات ایجنڈا آف الائنس ۔ سچ پوچھئے تولفظوں کا ہیر پھیر چھوڑ کر یہی سند وفا کبھی الحاق کبھی ایکارڈ کبھی قطبین کے اتحاد میںڈھلی ، سیاست کی منڈی میں اس کا بھاؤ نرخ بھی یکساں رہا۔اس کے صدقے کشمیر ی قائدین میںجو جتنا مکارو کلاکار بنا،اتنا دلی کا چہیتا راج کمار ہوا ۔ اُسے کرنا کیا ہوتاہے ؟ اپنی جھوٹی خودداری کے گیت گاؤ، قوم ِ کشمیرپر جانثاری کی ہر مسجددرگاہ مندر میں قسمیں کھاؤ، دُم کٹے بھی ہو مگر اپنے آپ کو شیر وطن جتلاؤ ، ذُو وجہین یعنی دوچہرے اپناکر ذومعنین سیاست چلاؤ، سیاسی نوٹنکیوں سے دربار سے راہ روسم بڑھاؤ ، پھر ہوش و گوش سے اغیار کے سامنے بار بارگردن جھکاؤ، بات بات پر سجدہ ریز ہوجاؤ، حکم ملے تواپنی سیاست کو آوارہ گردی بتاؤ، فرمان ملے تو پنڈت کالونی ، سینک کالونی ، پتن جلی کالونی کے نقش نگار کراؤ ، قوم پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے کوڑے برساؤ، زیادہ شور شرابہ کرے توافسپا کا دیو اہرمن گھر گھر درد ر بٹھاؤ، پہلے ہی دن اپنی دستار وشلوار سے دستبردار ہوجاؤ ، انہیں دہلوی چوکھٹ کا پونچھا مارنے کے لئے وہیں چھوڑ آؤ، خودبرہنہ سر ننگے بدن ہوکر غلامی کی اتنی موٹی کھال پہن جاؤ کہ دربار کے ہر ظلم وستم کوامن کابول، ترقی کی راگ ، جمہوریت کانغمہ بتاؤ ، لوگوں کو لشکر ہند کے رحم وکرم پر جینے مر نے کادرس دیتے جاؤ ۔ ۔۔ منشور ا تحاد کی اس لازمی شرط پہ چپ چاپ ہوجاؤ کہ صرف شاہان ِ دہلوی کی مرضی ہوگی کب تمہیں نوکر بنائیں ، کب برطرف کریں، کب جیل دیں ، کب ایکارڈ دیں ، کب عاریتاً کرسی دیں ، کب اعتماد واپس لیں ، کب بحال کریں، کب دُھتکاریں،کب پیلٹ سے مالامال کریں ، کب گولیوں سے نہال کریں ، کب لشکردفاع کا سہارا دیں، کب تم سے قبریں کھدوا کر دیش بھگتی کا امتحان لیں ، کب مطلبی یارانہ توڑیں ، کب جھوٹا دوستانہ جوڑیں، کب کسی شیخ کو اندرا کو بتائے گھڑی کی سوئیاں پیچھے نہیں جاتیں، کب بر سر عام مودی کسی مفتی کو جھڑک دے مجھے کشمیر کے بارہ میںکسی سے ہدایت لینے کی ضرو رت نہیں۔ تمہیں بس کرسی کا یہ منتر جپتے رہناہے ؎
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاش کہ تم میر ے لئے ہوتے
مجنون میاں ! آپ اپنا یہی سوال دربار کے زیر بارِ احسان اور اغیار کے مرہون ِ منت کسی حاکم اعلیٰ سے پوچھئے ، وہ بولے گا ملک ِکشمیر میں رنگ ونور کے دہلوی انعامات ہیں ، چارسُو اسی کی عنایات ہیں، ہر جا آسائشوں کے باغات ہیں، کوہ ودمن میںجمہوریت کی سوغات ہیں۔۔۔ پھر یہی سوال پھر کسی عام خام پھٹیچر کے سر ماریئے ،وہ بولے گا: حضور ! یہ ملک ہمارا ہے کہاں کہ ا س کا فیصلہ ہم کریں ، یہ ٹرمپ کے تُرپ کی چال ہے ، چین کا نانہال ہے ، یو این کا سسرال ہے ، زعفرانیوں کا مایا جال ہے، یہاںبُرے دنوں سے ہر انسان پامال ہے ، آدمیت نڈھال ہے، اچھے دن کا سپنا بے سُروتال ہے، قلم دوات بے پر وبال ہے، قائد تا کوتوال ہر ایک عملاً دجال ہے ، ہل والا سیاسی گرو گھنٹال ہے، حریت صرف ہڑتال ہے، ظلم لازوال ہے ، ستم بے مثال ہے ۔۔۔مجنونؔ میاںنے تائیداً کہا: مرزا !آپ کے منہ میں گھ شکر ، ساحرانہ سیاست والے جھوٹی تسلیاں دے دے کر لوگوں کو کیا کیا سبز باغ دکھائیں ۔۔۔ اب مجنون ؔ نے پہلو بدلا، نئی چلم سلگائی، موضوع بدلا، بولا: مرزا جی !ملک ِکشمیر میں آج کل انتخابات کی گرماگرمی ہے ، اس موضوع پر کچھ کٹھی میٹھی گفتگو ہوجائے ، مسائل ِسیاست امورِسلطنت کا حال احوال سنیں سنائیں لائف بنائیں۔۔۔ میں کچھ شش وپنج میںپڑ گیا مجنون کیا بکواس ہانک رہا ہے۔ فوراً اچھنبے کا حد متارکہ پار کیا ، حیرت کا خط ِانتظام بھی پھلانگ دیا ، پوچھا : ارے بھئی کون سے انتخابات؟ کہاں کے انتخابات؟ وہ تو دو ڈھائی سال قبل ہوئے نا؟ ان دنوں کوئی مہم ؟ کوئی لہر ؟ ، کوئی ایک آدھ عوامی جلسہ ؟کوئی جلوس ؟ کوئی زندہ باد مردہ باد ؟ کوئی جھوٹ کا پلندہ منشور ؟ کوئی سبز رومال ؟ کوئی پاک نمک ؟ یہ سب ندارد۔ آپ کو ضرور بھوت پریت کا سایہ چمٹ گیا ہے۔ کسی قبرستان سے تو نہ گزرے؟ ہوش وحواس ٹھیک ہیں؟ طبیعت خراب تونہیں ؟ اب کی بار بھی دماغ کے پیچ پرزے ڈھیلے تو نہ پڑے؟۔۔۔مجنونؔ نے میری لاعلمیت اور ناواقفیت پر ایک شرارت بھراقہقہ مار کر کہا ع
تم ہی کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہئے
مرزا نوشہ ! استغفراللہ اپنے گھر سنسار سے اتنی بے خبر ی؟ جناب کے پاس اتنا بھی ذخیرہ ٔ معلومات نہیں ؟ اسے حضور کی بے نیازی کہوں یا لاپروائی سمجھوں ؟ شاید قویٰ میںا ضمحلال آگیا ہو، ورنہ یہاں تو بچہ بچہ جانتا ہے سری نگر اور بڈگام میں ضمنی انتخابات ہورہے ہیں ، امیدواروں میں ایک خیالی معرکہ بپا ہے ، الفاظ کی جنگ جاری ہے ، سرکاری ڈاک بنگلوں پر دباؤ بڑھا ہے ، حریف امیدوار اخبارات میں ایک دوسرے پر توپیں داغ رہے ہیں ، کا نٹے کی اخباری ٹکر ہے ، تابڑ توڑ بیانات کے گشتی ہرکارے دوڑرہے ہیں، با ئیکاٹیوں کی شب وروزگرفتاریاں ہورہی ہیں ، کئی قسمتوں کا اٹل فیصلہ ہو نا ہے ، کئی تقدیروں کا انمٹ تصفیہ ہوناہے ۔۔۔اور آپ پتہ نہیں کہاں کھوئے ہیں؟ کیا یہ بھی علم نہیں اِدھرقائد ثانی فاروق میدان میں ہیں ؟اُدھر قائد ثالث مفتی تصدق ہیں ؟ یعنی دو شاہانِ کشمیر کے دو چہیتے شہزادے ایک دوسرے کے آگے پیچھے۔ ایک یہ چا ہے دلی جاکر دربار کی اتنی چاکری کرجاوئے کہ کنول کے زیر قیادت قلم دوات کی زعفرانی حکومت چھ سال کی لکشمن ریکھا پار کر جاوئے، ودسرے کا خواب ِ پریشاں یہ کہ دلی میں مودی کو واجپائی کا واسطہ دے دے کر اپنے تارہل سے جوڑنے کی منت سماجت کر جاوئے۔ دونوںشاہزادے ایک ودسرے کے خلاف زبانی سرجیکل اسٹرائیک کے لئے کنگن تا کولگام وبدسگام کے بند کمروںمیںپاپڑ بیل رہے ہیں ۔ مطلب یہ کہ ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
مرزا جی! دنیا کا چکر الٹا پلٹاہے ؟ دل تھام کر سنئے جس حمید قرہ نے قلم دوات کے بل پر فاروق کے ہل کو بے پھل کیا ، گزشتہ انتخابی مقابلے میں چاروں شانے چت گرایا، اب وہی قرہ ہاتھ کے ساتھ مل کر ہل جوت رہاہے ، اپنی کشت ِ ویران میںمانگے کے اُجالے کی شجر کاری کررہاہے، یہ سیاسی چھل کپٹ کیا گل کھلائے ،وہ مستقبل قریب میں دیکھئے گا مگر قرہ کے بارے میں یہ کہے بغیر رہا بھی نہ جائے ؎
ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ ِتمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی برآوئے
مجنون ؔ مسلسل بولتا رہا۔۔۔ مرزا! گردش ِ لیل ونہارمیں انسانیت چاک گریباں، آسمانِ ہند پہ زعفرانی بجلیاں، ملک وقوم وحشت و جنون میں رقصاں، اُترپردیش کا مسلمان بہت بہت پریشاں، یوگی آدتیہ ناتھ تخت ِشاہی پر براجماں، انصاف کاناطقہ در گریباں ، کیا ہوجاوئے اب حالِ جہاں۔مجھ جیسے نامور ایک نامہ نگار نے یوگی سے کہا: آپ کو بہت بہت بھدائی، شاہِ ہند آپ کا فدائی ، تاجِ ناگپور کی تخت ِ لکھنو سے ہوگئی سگائی، ریاست میں سنگھ کی خدائی، اکھلیش کی تخت وتاج سے تاحکم ثانی جدائی، راہل کا خاندانی خدم وحشم شکست کا شیدائی ، چار کروڑ لکھنوی مسلمانوں کی قسمت میں سیاسی گدائی۔ ۔۔ اس ساری کہانی کے پیچھے کیا راز ہے ؟یوگی نے صرف جے سری رام الاپا ، کوئی جواب نہ دیا تو میں نے اشارہ پالیا ؎
ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
مجنونؔ میری خاموشی سے خفا ہوکر بولا: گستاخی معاف !یہ طویل خامشی کیوں؟ اخفائے حال ٹھیک نہیں، یوں منہ لٹکائے بیٹھے رہنا اپنی توہین ہے۔ میں نے از راہ ِ تمسخر کہا! مجنونؔ میاں! آپ باؤلانگر کے ہیں ، عقل مندی اسی میں ہے ، آپ کی باتیں ساکت وصامت ہوکر سنیں اور سہیں ۔ ایک تازہ شعر سناکر رخصت چاہوں گا ، بیگم نے بڑی دیر بعد لکھنوی کباب کی فرمائش کی ہے، بازار جانے کی مجبوری ہے ۔ مجنونؔ بولا: لوجی! آپ کو یہ بھی پتہ نہیں یوگی مہاراج نے گائے بیل ہی نہیں بھیڑ بکری کے ذبح خانوں پر بھی پابندی عائد کردی ۔ اُدھر حریت نے انتخابی بائیکاٹ کے لئے ہڑتال کال دی، دوکانیں مقفل، کاروبارِ حیات بند ، بازار سنسنان ہیں ، کارخانے ویران۔ میں نے کہا: واللہ یہ بڑا ظلم نہایت بے ا نصافی ہے! گردش ِزندگی بند ہو تو ہو ،لذت کام ودہن یوگی کی پابندی حریت کی ہڑتال سے مستثنیٰ رہے ۔ یہ ہمارا جمہوری ، آئینی ، انسانی حق ہے۔ میں جارہاہوں یوگی اور گیلانی سے اپنا حالِ دل سنانے۔ یوگی سے بولوں گا : یوگی جی! جوچاہے ستیا ناس کرو، جمہوریت کی ناک کاٹو، انسانیت کے ہاتھ پیر باندھ دو ، کلمہ خوانوں کو زندہ کھاؤ چباؤ ، اذانوں کی ممانعت کرو، خدائے واحد کے گھر میں مورتیاں سجاؤ ، انسانوں کا ذبیحہ حلال کر دکھاؤ۔۔۔ صرف ایک بِنتی ہے ،ذبح خانوں پر بندش ہٹاؤ، یہ نہ ہوا تو ہمارے وازہ وان کو چیل کوئے بھی نہ پوچھیں ۔۔۔ اور یہ عبادت گاہوں میں پتھر کی مورتیاں سجانے کا کشٹ کیوں اٹھار ہے ہو ؟ ارے یار! کیا تم ہمیں بندہ ٔ خدا سمجھتے ہو ؟ غلط ۔۔۔ ہم لوگ گوشت پوست والی چلتی پھرتی مورتیاں ہی ہیں ، خود اپنی عبادت کر تے ہیں ، اوروں سے بھی اپنی پوجا کرواتے ہیں۔ ہم کلمہ خوان اپنی اپنی خدائیت اور نفسانیت کی دوکانیں چلانے میں یوں مست نہ ہوتے تو ایک یوگی سنیاسی کی کیا مجال کہ ہمارا ربِ اعلیٰ بن جاتا۔ یہ تھوڑا سا کرم فرمائیو کہ ذبح خانوں کو کھلا چھوڑو ۔۔۔ گیلانی صاحب سے بصد ادب کہوں گا : قبلہ اسکول، شفاخانہ ، کارخانہ ، محنت مزدوری سب کچھ بند ہو ہماری بلا سے، مگر قصائیوں کی دوکانیں، نشاط شالیمار ، وازہ وان پر ہڑتال نافذ ہوئی تو بہت غضب ہو گا ۔ امیدہے وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں میری بات از راہ ِ کرم مانیں گے ۔ ورنہ میں وہیں کے وہیں اخوان میں جاکر جمشید شیرازی کا ڈب پارٹ بنوں گا۔ اچھا مجنونؔ میاں خدا خافظ۔ یہی کہتے کہتے نیاانقلاب لانے کے لئے بندہ کٹیا سے بھاگ کھڑ ہو ا۔
انقلاب کا طالب
غالب