بھائی! کا ہے کی جنگ بندی ؟؟؟ یہ لفظ تو صرف زیب ِ داستان ، یہاںموت رقصاں ، حالات نامہربان،ماردھاڑ بلا عنوان، نوہٹہ اور پلوامہ میں وردی پوش قہرمان ، دو جوانوں کی لے لی جان ، دربہ گام میں قبرستان کی بے حرمتی ،شوپیان میں میوہ باغات کی تیشہ زنی،اِدھر ٹھوکر اُ دھر پتھر، اِدھر گالی اُدھر گولی ؎
سُکھ ملا جس کو زمانے میں،مبارک ہو اُسے
ہم نے کچھ بھی نہ پایا غم و حسرت کے سوا
وادی ٔ گلپوش میںتوپ وتلوار کا بے قابو دور ہے، ساتھ میں چاروں اور بے مطلب شور ہے :گفت وشنید کرو، بات چیت ہو، محاربہ نہیں مکالمہ آزماؤ۔۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ عقل کا اندھا ہی گرم گفتاروں کا یقین کرے ۔ جہاں امن ناپید، آرام حرام ، بے چینی بام ِ عروج پر، ظلم انتہاؤں پر، تشددرُوبہ ترقی، ہلاکتیں زندگی کامعمول، گھروں کی توڑپھوڑ ، پھل دار پیڑ پودوں کی کاٹ پھاڑ، سنگ ہائے ِمزار تک نشانۂ نفرت،وہاں سنو سناؤ کی بے سُر بے تال راگ سے اُمید کیجئے ؟
ناچیز حیران وپریشاں گفتگو کس سے ، کس موضوع پر، کہاں کیجئے؟ مودی مہاراج گلا کا ٹ کاٹ کر گلے لگانے کا اُپدیش سنائے، راجناتھ کوئی اور ہی آد یش دے ، امیت شاہ دونوں سے ہٹ کر اپنی ہی ہانکے، فوج کسی اور سمت چلے، قلم دوات کا ہدف صرف کرسی بچاؤ، ہل کانعرہ اے ظالمو اے جابرو! کرسی ہماری چھوڑ دو، ہاتھ راہل کی بکھری دستار سمیٹنے والوں کے ساتھ ۔۔۔ ایسے میں بے یارو یاور کشمیریوں کو بات چیت کی پیش کش؟ یہ مذاق ، ٹھٹھ مخول ، وقت گزاری کا بہانہ نہیں تو اور کیا؟
گناہ گار اسی ادھیڑ بُن میں چلم سلگائے، دم پہ دم مارے ، کش یہ کش لگائے، ایک سوال کے ہزار دشت و بیابان چھانتا رہا۔ سوچتا رہا آخر یہ مسئلہ کشمیر ہے کس پر ندے کا نام ؟ معمہ یا چیستاں، طلسم ہوش رُبا یا فسانہ ٔ عجائب، سینہ ٔ کائنات میں چھپا راز یا خدائے بے نیاز کا عتاب ؟ ناچیز انگشت بدندان ، یہاں کی بے اعتبار زمین ،بے بھروسہ آسمان ، سیاست بدنام ، سلطنت وبالِ جان ؟ ساراجہاں کہے یہ خطۂ بے اَمان ہے ، آزادی کا بانکا اَرمان ہے ، ہرصبح شیشہ ہرشام سنگستان ہے ، کبھی سیاسی زلزلہ، کبھی ظلم کی آندھی ،کبھی تشدد کاباد وباران ہے، کبھی چلچلاتی دھوپ، کبھی چلۂ کلان ہے ، کبھی بندوق ، پیلٹ، پاوا، قبریں، اَندھ کاریوں کا طوفان ہے، کبھی ہڑتال سے شہر ودیہات ویران ہیں ،کبھی قریہ قریہ پتھراؤ کا بحران ہے، ہرماہ زہر ناک ہرسال بلائے جان ہے ، یہی حبیب جالبؔ کے نالوں کا عنوان ؎
یہ شعلہ نہ دب جائے یہ آگ نہ سوجائے
پھر سامنے منزل ہے ایسا نہ ہو کھوجائے
ہے وقت یہی یارو، جو ہونا ہے ہو جائے
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پر چم
ہر جابر وظالم کا کر تے رہو سرخم
اس وادیٔ پُر خوں سے اُ ٹھے گا دھواں کب تک
محکومی گلشن پر روئے گا سماں کب تک
محروم نوا ہوگی غنچوں کی زباں کب تک
ہر پھول ہے فریادی آنکھوں میں لئے شبنم
کشمیر کی وادی میں لہراکے رہو پرچم
ایک حضرت کہتے ہیں:چچا !یہ ہلچل یہ بے چینی قائدین کے لئے سونے کی کان ہے ، بنڈل بازوں کے لئے مال وزر کی دوکان ہے، قلم دوات کنول کہیں کشمیر میں امن وامان ہے، دل میں بسا ہندوستان ہے ، امن ِعامہ بگاڑنے کے پیچھے صرف دست ِپاکستان ہے ، ہم نے ان کو دیا دردِ بلوچستان ہے ،مودی مہاراج کشمیر کا دل سے قدردان ہے، وہ عالمی بنجارا نگر نگر راگ اَلاپے ؎
تیری وادی وادی گھوموں، تیرا کونہ کونہ چوموں
میرے خوابوں کی تعبیر، میرے جموں اور کشمیر
جان ِ جگر ! بغل میں چھری منہ میں رام رام ، بات چیت کی قے پہ قے کر نے و الے تضاد کے جیالے دوئی کے متوالے ہیں۔ان کے لئے وطن تجارتی منڈی ، کرسی جنت سامان ، یہاں بھی انوکھے انسان،پل میں تولہ پل میں ماشہ، کوئی ووٹ کا اعلان ، کوئی بائیکاٹ پر قربان ، ایک لمحہ ہم کیا چاہتے کے پہلوان، دوسرے لمحہ خامشی و سرد مہری کے زمستان ۔ نظیرؔا کبر آبادی نے اسی پر کہا ؎
مضمون سرد مہریٔ جاناں رقم کروں
گر ہاتھ آئے کاغذ ِکشمیر کا ورق
یہ جویہاں کے سیاسی یاجوج ماجوج ہیں نا، یہ شتر بے لگام ، موسم کے بدلتے ہی نیا جنم پانا ان کے بائیں ہاتھ کا کام، یہ کرسی سے بندھے سانڈ، جموں میں کھانڈ ہی کھانڈ، کشمیر میں اٹونامی، سیلف رُول کے بانڈ، ایوان سے غسل خانے تک کیوں نہ گنگنا ئیں ؎
یہ وادیٔ کشمیر ہے جنت کا نظارا
ہر چہرہ یہاں چاند تو ہر ذرہ ستارا
یہ تخت وتاج کے بندے، ساون کے اَ ندھے، کوئلوں کی دلالی میں منہ کالے، اہل وطن کے مصائب مٰن اغیار کے جرائم میں شراکت دار ، دہلوی پیادے، قتل ِانصاف کو عدلِ نوشیروان بتانے و الے ، درباری قصیدہ خوان، دلی کی رضا جوئی میں ایک ہی چھکری گانے والے ؎
جو تم کو ہو پسند وہی بات کریں گے
تم دن کو اگر رات کہیں رات کہیں گے
ان کا ماضی ، حال ، مستقبل ایک شراب وخمار کی پیداوار، شان ِ بےنیازی کا رنگ ڈھنگ بھی یکساں۔۔۔ سنہ سنتا لیس کو جموں میں چھ لاکھ بے گور وکفن مسلمانوں کی لاشیں گلی گلی کوچہ کوچہ بکھر گئیں، درازقد نے مقتولین کی ہمدردی میں دو بول بولے ؟ کشمیری تانگہ بانوں کا فوج بے دردانہ قتل کر گئی، ناظم اعلیٰ نے قاتلوں سے کوئی بے ضرر گلہ بھی کیا ؟ وٹالی کے دانت سر راہ فوجیوں نے ہاکیوں سے توڑ دئے ، شیخ نے اُف کی ؟ گجراتی مسلم گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے ، فاروق کی جبین پہ شکن پڑی ؟ وردی پوشوں کے ہاتھوں سنہ سولہ میں سنہ آٹھ، سنہ دس کی طرح سینکڑوں نفوس قبروں میں اُتارے گئے ، بے شمار نوعمر بچے بچیاں نوعمر تاعمر اندھے بنائے گئے، ہزاروں مجروح ومعذور ہوئے ، بستیاں غارت ہوئیں ، جیلیں بھر دی گئیں، حلب کی طرح کشمیر قلب ِبریاں چشم گریاں ہو ا، صاحبہ نے افسپائی ابابیلوں سے بھولے سے کبھی کہا: بہت ہو چکا، اب خدارا بس کرو ! ۔۔۔ا وراب سو چوہے کھا کر بات چیت کی ڈفلی کا مطلب کیا؟ تم خود سمجھ دار ہو !
بھئی ! کیا اوٹ پٹانگ پوچھی؟ کس منہ سے کہوں یہاںحقوق البشر کا زیر وزبر ہیں ؟ شاہانِ کشمیر اسی کی پردہ پوشی کے لئے گفت وشنید کی رَ ٹ لگائیں ۔ سادگی کی حد بھی دیکھئے، دو بارخلقت ِ بے نوا کے قائدین دلی دربار بہاریں لانے گئے، بات چیت کی اَگنی پریکھشا کو پار کیا، مگر اپنے ساتھ لایا گیا؟ مایوسیوں کی خزانیں، نااُمیدیوں کی گھٹائیں۔ کل پرسوں اپنابکواسی لال باؤلا ؔ بھی کشمیر پر گفت وشنید کے لئے دلی گیا۔ مہاراج نے دیکھتے ہی دربان کو حکم دیا: داروغۂ زندان کو بلاؤ ۔ وہ پیاسی تلوارتھامے اندرچلا آیا، پوچھا کیا حکم ہے سرکار؟مہاراج بولا اس گستاخ کے منہ میں دو درجن گرم گرم آلو ٹھونس دو، ذرا ونچے سُر میں بولنے لگا ہے ۔ یہ غلام ابن غلام چیخیں مارے تو مالش بھی کرنا ، زیادہ چلّائے تو نامراد منہ پھٹ کولاپتہ نگر پہنچا دینا ۔
ستر سال سے وردی پوش اہل کشمیرکا یونہی کچومر نکالتے رہے، ارضِ کشمیر دبتا مسلتارہا، مٹتامرتا رہا، زخم پہ زخم کھاتا رہا،جلتا رہا ، اُجڑتا رہا ، بگڑتارہا ، بکھرتا رہا ، روتا رہا، کھیت کھلیان ، جھیل جھرنے جنازے اگلتے رہے!!! لاشوں کا بڑھتا ہوا کارواں ہر دم جواں، زندگی ماتم کناں ، چہار سُوآہ وفغاں، چہرہ چہرہ دردِ نہاں ، دل دل پریشان،ہر آنکھ آنسوؤں کا سیل ِرواں ، آہوں کا آتش فشاں، کر فیو رُودادِ زماں، ہڑتالیں حریت کا گل ِخندان، بندشیں شاہی فرمان ، افسپا ئی قیامتیں ،پی ایس اے کی بلائیں ،نئے نئے قبرستان ، جیلوں کی ہر لحظہ نئی شان نئی آن، میر عدل کا نہ کہیں نام نہ نشان، جو سچ کے لئے زبان کھولے اس پر لشکرہند نامہربان، ایسے میںمکالمیہ آرائی کا تُک کیا ع
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
اپنی نگاہ میں کشمیر ایک وسیع وعریض قبرستان، کم نصیبی کا عنوان ہے ، شاہانِ دلی و کشمیر کی نظرمیں یہ دل فریب و دل نواز قدرت کی سحر انگیز تحریر ، خوب صورت نظاروں، فطرت کے اشاروں، زندگی بخش بہاروں کی جادوئی تصویر، شام ِزمہریر ، صبح مثل ِحریر ہے ۔ حاکمانِ با کمال کا سیاسی کرشمہ دیکھئے، موضوعِ کشمیر پر جوشؔ کے ان اشعار کو عالمی نصاب میں ڈلوایا ہے ؎
جو شاعر ہے تو دیکھ آیات کو
ان آیاتِ آئینۂ ذات کو
یہ تابندہ شبنم، یہ رقصندہ آب
یہ گل ریز گلشن، یہ گل گوں سحاب
یہ پہنائی چرخِ نیلوفری
یہ پر بستہ خشکی یہ جولاں تری
یہ شاخوں پہ چڑیوں کی چہکاریاں
یہ فرشِ سماعت پہ گل باریاں
یہ پتوں پہ بوندوں کی شریں کھنک
یہ آڑی پھواریں، یہ بانکی دھنک
یہ گو ہر فشاںآبشاروں کے ساز
یہ آب ِرواں کا خم ِدل نواز
یہ ذرات وانجم، یہ شمس وقمر
یہ ذرہائے تاباں، یہ گل ہائے تر
یہ راتوں سے دن اور دن سے یہ رات
یہ نہروں کی لہروں میں جوئے حیات
یہ جوئے خراماں یہ بوئے ختن
گل وسنبل ونرگس ونسترن !
یہ بیلیں، حقیقت کی زلفِ دراز
یہ نہریں، مشیت کی اِک موج ناز
یہ ذروں کی مٹھی میں سو آفتاب
یہ موجوں کے عقدوں میں روح سحاب
خیابان وبستان وکوہ وکمر
یہ لولو ومرجان ولعل گہر
یہی کاشمر ہاں یہی کاشمر
میرے تاج ِشاہی کاشمس وقمر
صاحب ! یہ صرف کاغذی پیرہن ہے ۔ اگر اسے بے نام ؔ کا شمیری ساکن نامعلوم قبر ستان کو پہنایئے تو وہ چیخ اٹھے گا: مرزا! میرا جان وتن وطن پہ قربان ! یہ کس دریدہ دہن، بد صوت وبے لحن، بیمار ذہن نے لہو لہو کشمیر کو صرف حسن و جمال شگفتگی کا بانکپن بتایا؟ یہ زمین دردو کسک، افسردگی وبے چار گی ، حسرت و غم کا لہلہاتاچمن ہے، جنت ِکشمیر کے عوام پابہ زنجیر، کہیںمعلوم ونامعلوم قبریں کہیں خونی لکیر ، ہر کشمیری اندوہ و دلگیر۔۔۔رہے شاہِ شاہان ،وہ اغیار کے سامنے خمیدہ سر خمیدہ کمر،کشکولی فقیر، وادی میں قدم رنجہ ہوں تو بلوان ، دلی میں بھیگی بلیاں، زبانِ زعفران ا ورکلامِ خنجر میں بتلائیں ہم ہیں درد ِ کشمیرکی دوائے اکسیر ، آزادیٔ ضمیر سے توبہ تقصیر، ایکارڈ کے آلاتِ مزامیر، منشور ِاتحاد کی لفظی تصویر، کشمیر ہمارے باپ دادا کی جاگیر، ہم کرسیوں کے اسیر، اقتداری خفتن فقیر، ہمارے دم سے ظلم وجبرکے کوہ وبیابان زبرون تا پامیر، جینے کی آرزو ہے تو بات چیت کے لئے منہ بند کر کے ہمارے حضور سرجھکائے آؤ ع
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
جان ِ من !آج یہ عاصی اہل کشمیر کی مظلومیت پر زاروقطار رویا ، اشکوں کا تیز گام بہاؤ خشک داڑھی کوتر بہ تر کر گیا۔ یہ گتھی لاکھ سلجھائے نہیں سلجھتی ، جب دل میں اُداسیاں ہوں، شانوں پر غم کے پہاڑ ہوں ، قدم لڑکھڑاتے ہوں ، وجود لرزتا ہو تو بات چیت کیا کروں ؟ صلح صفائی کی میز چہ مطلب دارد ؟ طاقت کے نشے میں چُور وہ مہاراج ہماری کیا سنے جو قبر وں تک کو بھی بخشنے پر تیار نہیں، جو منہ سے جنگ بندی جنگ بندی کہے ، ہاتھ سے ہماری تقدیر کی تختی پر نئی جھڑپوں ،نئی ہلاکتوں ،نئی بربادیوں کی سختی جوڑدے ،جو ہمیں اپنی بے پناہ طاقت سے زمین میںزندہ گاڑ ے، ہماری شرافت کے شیش خانے کو میجر گگوئی جیسوں سے بے تکلفی سے سنگسار کر وائے۔ واللہ مہاراج کمزور سے سمجھوتہ نہیں غیر مشروط معافی اور مچلکہ نامہ چاہتا ہے؟ اور میں ہوں کہ منافقانہ گفتگو کو نہیں بلکہ کاغذی پیرہن کی ڈھال بناکر زندگی کی اَمان چاہتاہوں۔
اَمان کا طالب
غالب