رئیس صدیقی
مغلیہ دور کے تاریخی شہر آگرہ میں ۲۷؍ دسمبر ۱۷۹۷ عیسوی میں اپنی آمد درج کرنے والے مرزا اسداللہ بیگ غالبؔ نے ۱۵؍ فروری ۱۸۶۹ میں ہندوستان کی راجدھانی دِلّی میں آخری سانس لی۔ اب تک انکی شاعری کو دو سو برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ تب سے اب تک انکی حیات، شخصیت، فارسی و اردو شاعری اور خطوط نگاری پر کئی زبانوں کے مستند ادبی دانشوروں کے مختلف زاویوں اور نظریوں پر مبنی بے شمار مضامین اور تحقیقی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب واحد اردو کے ایسے ممتاز شاعر ہیں جو آج تک اردو شاعری پر غالب ہیں۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیان اور
غالب اپنی جدت پسندی اور انو کھے اندازِ بیان، زندگی کے تجربات، مشاہدات، فلسفہ اور فکرِ نو کو اپنی شاعری میں موتیوں کی طرح پرونے کے نادر اور منفرد فنی سحر انگیزی کی وجہ سے اتنی بلند مسندِ شاعری پر براجمان ہیں کہ انکے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے کہ انھوں نے بچوں کے لیے کبھی کچھ کہا ہوگا یا کچھ لکھا ہوگا یا ان کے بہت سے اشعار بچوں کے لیے بھی کار آمد ہو سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غالب نے اپنی شاعری میں اطفال یعنی بچے اور بازیچہ یعنی کھیل کو اپنے ایک شعرمیں استعمال کرتے ہوئے زندگی برتنے کا فلسفہ بہت ہی آسان لفظوں اور انداز میں بیان کر دیا اور یہ بھی ظاہر کر دیا کہ بچوں کی چاہت ، بچوں سے لگائو اور بچوں کی موج مستی وکھیل کود سے بھرا بچپن دراصل انکی خواہش اور مسرت آمیززندگی کا لازمی حصہ ہے۔ بازیچہء اطفال اور تماشہ نظرِِنو کے متقاضی ہیں :
بازیچہ ء اطفال ہے دنیا مرے آ گے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
اب ذرا ان اشعار پر نظر ڈالیے : ؎
نہ سنو گر بُرا کہے کوئی۔ نہ کہو گربُرا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی۔ بخش دو گر خطا کرے کوئی
تم سلامت رہو ہزار برس ۔ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
یہ شعر بھی محبوب کے بجائے آج کل کے بچوںکو سلیقہ سے بات کرنے کی نصیحت کے بہ طور بہت کارآمد ثابت ہو سکتاہے۔ در حقیقت، غالب کو بھی عام آدم زاد کی طرح بچوں سے بہت لگائو تھا۔ ان کے سات بچے تھے لیکن افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی پندرہ مہینے سے زیادہ جی نہیں سکا۔اپنی اس تنہائی اور اور بعض دوسری وجوہات کی بنا پر غالب نے اپنی بیوی کے بھانجے، زین العابدین خاں عارف کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا لیکن افسوس کہ عارف اپنی پینتیس سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ غالب عارف کی موت سے بہت غمگین تھے ۔ انہوں نے عارف کی موت سے نڈھال ہو کر بہت درد بھرا مرثیہ بھی لکھا :
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
غالب کے بہت سے اشعار اور مثنوی قادر نامہ زبان اور اسلوب کے اعتبار سے بچوں کی سمجھ اور تربیت کے لیے نہ صرف کارآمد ہیں بلکہ شعری ادب ِاطفال کے خزانہ میں متن و اندازِ بیان کے اعتبار سے انمول، بیش بہا،قابلِ قدر، نا قابلِ فراموش اور زندئہ جاوید اضافہ ہیں۔ در اصل، غالب نے عارف مرحوم کے چھوٹے بچوں کو انکی پرورش کے لیے اپنے پاس رکھ لیا اور ان معصوم بچوں کی بنیادی ابتدائی تعلیم کی غرض سے مثنوی قادر نامہ لکھی ۔ یہ مثنوی ایک طرح کی بچوں کے لیے لغت نامہ ہے جس میں غالب نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف یعنی ہم معنی الفاظ بیان کیے ہیں تاکہ پڑھنے والوںکے ذخیرئہ الفاظ میں اضافہ ہو سکے۔
9810141528 رابطہ۔
[email protected]
���������� ������