مجاہد عالم ندوی
دنیا بھر میں منعقد ہونے والی رنگا رنگ اور تفریحی تقریبات کرسمَس ڈے چونکہ عیسائیوں کا دن ہے اور وہ اسے اپنے طریقے کے مطابق مناتے ہیں ، اس لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ کرسمَس ڈے کے معنی معلوم ہو جائیں تاکہ مسلمانوں کو اس کی حقیقت کا علم ہو جائے کہ کرسمَس ڈے کے معنی ہے ’’ وہ دن جس میں مسیح کے لیے اکٹھا ہوا جائے ۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ یہ دن عیسی کی ولادت کا دن ہی نہیں ہے ، عیسائیوں کے یہاں بھی عیسیٰ ؑ کی تاریخ پیدائش اور سن پیدائش میں بہت شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام انبیاء کرام میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا شاہکار بنا کر اور معجزانہ انداز میں آپ کو دنیا میں بھیجا ، آپ کی زندگی شروع ہی سے غیر معمولی رہی ، اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور پھر زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا ، دوبارہ قرب قیامت آپ دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی نہایت سبق آموز اور عبرت انگیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر الگ الگ اسلوب و انداز میں آپ کی شخصیت کا ذکر فرمایا ۔ لیکن آپ کے ماننے والوں نے آپ علیہ السلام کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک کیا اور آپ کی جانب اور آپ کی ماں حضرت مریم ؑ کی جانب بہت سی غیر ضروری اور لایعنی و مشرکانہ باتوں کو جوڑ دیا ، عقائد و نظریات کو منسوب کر دیا اور آپ کی پیدائش کے نام پر جو تہذیب و شرافت کے خلاف اور حقائق سے ناواقف ہو کر رسم و رواج کو انجام دینے کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ آئیے ایک مختصر نظر کرسمس ڈے کی حقیقت پر ڈالتے ہیں اور اس نام پر جو خرافات انجام دی جاتی ہیں ان کو ملاحظہ کرتے ہیں ۔
چنانچہ 25؍دسمبر کو دنیا بھر میں عیسائی کرسمس ڈے مناتے ہیں ، جس تاریخ کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اسی تاریخ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی ہے ، اسی خوشی میں وہ اس دن کو عید کی طرح مناتے ہیں ، خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں ، جشن و مسرت سے سرشار ہو کر خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف کام انجام دیتے ہیں ۔ اس کی کیا حقیقت ہے اس کو ملاحظہ کیجیے ۔
کرسمس (Christmas) دو الفاظ کرائسٹ (Christ) اور (Mass) کا مرکب ہے ۔ کرائسٹ (Christ) مسیح (علیہ السلام) کو کہتے ہیں اور ماس (Mass) اجتماع ، اکھٹا ہونا ہے ۔ یعنی مسیح کے لیے اکھٹا ہونا ، مسیحی اجتماع یا یوم میلاد مسیح علیہ السلام ۔ یہ لفظ تقریبا چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا ، اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے ۔
مسیح علیہ السلام کی تاریخ پیدائش بلکہ سن پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا اسے 25 ؍دسمبر کو ، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا 6؍جنوری کو اور ارمنی کلیسا 19؍جنوری کو مناتا ہے ۔ کرسمس کا تہوار 25 ؍دسمبر کو ہونے کا ذکر پہلی مرتبہ شاہ قسطنطین (جو کہ چوتھی صدی عیسوی میں بت پرستی ترک کر کے عیسائیت میں داخل ہو گیا تھا) کے عہد میں 325 عیسوی میں ہوا ۔ یاد رہے کہ صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں ۔تیسری صدی عیسوی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے 20مئی کو منایا جائے ۔ لیکن 25دسمبر کو پہلے پہل رول (اٹلی) میں بطور مسیحی مذہبی تہوار مقرر کیا گیا تاکہ اس وقت ایک غیر مسیحی تہوار زحل (یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا) کو جو سورج کے راس الجدی پر پہنچنے کے موقع پر ہوتا تھا ، پس ِپشت ڈال کر اس کی جگہ مسیح کی سالگرہ منائے جائے ۔ (قاموس الکتاب :ص۱۴۷ بحوالہ کرسمس کی حقیقت:۶)
کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب لائف آف کرائسٹ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت کا کہیں پتہ نہیں چلتا ۔ یہ ہے کرسمس ڈے کی حقیقت جسے دنیا میں حضرت عیسیٰ ؑکا یوم پیدائش سمجھ کر دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے ، تاریخی حقیقت سے سب ناواقف ہو کر اور صحیح ترین روایتوں کے فقدان کے سبب خود اپنے پوپ و پادریوں کی من گھڑت بیان کردہ تاریخ کے مطابق پوری عیسائی دنیا اندھیرے میں پڑی ہوئی ہے ، اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ اسے اپنے نبی کی ولادت سے منسوب کرتے ہیں اور خود نبی کی تعلیمات اور شرافت و پاکیزگی والی ہدایات کو فراموش کر کے طوفان بدتمیزی قائم کرتے ہیں ، شراب و شباب کے نشے میں دھت ہو کر انسانی اور اخلاقی حدوں کو پامال کرتے ہیں ۔
کرسمس کا آغاز ہوا تھا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کیا جائے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابتداء میں یہ ایک ایسی بدعت تھی جس کی واحد فضول خرچی ’’موم بتیاں‘‘ تھیں لیکن پھر ’’ کرسمس ٹری‘‘ آیا ، پھر موسیقی ، پھر ڈانس اور آخر میں شراب بھی اس تہوار میں شامل ہو گئی ۔ شراب داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کر گیا ۔ صرف برطانیہ کا یہ حال ہے کہ ہر سال کرسمس پر 7 ارب 30 کروڑ پاؤنڈ کی شراب پی جاتی ہے ۔ 25دسمبر 2005ء میں برطانیہ میں جھگڑوں ، لڑائی ، مار کٹائی کے دس لاکھ واقعات سامنے آئے ، شراب نوشی کی بنا پر 25دسمبر 2002 میں آبرو ریزی اور زیادتی کے 19ہزار کیس درج ہوئے ۔(کرسمس کی حقیقت تاریخ کے آئینہ میں:۱۱) اس طرح یہ لوگ خود ساختہ مذہبی دن کی دھجیاں اڑاتے ہیں ، اور اپنے پیغمبر کے نام پر تمام ناروا چیزوں کو اختیار کرتے ہیں ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت نہایت ہی قابل احترام ہے، اور ان کی سیرت و زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ، ان کی پاک و صاف زندگی اور ان کی ماں حضرت مریم کے پاکیزہ کردار کی شہادت قرآن کریم نے دی ہے ، جتنی سچائیوں کو قرآن نے بیان کیا ان کی تحریف کردہ کتابوں میں بھی وہ نہیں ہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے خود ان مبارک ناموں پر اپنی عیش و مستیوں کو پورا کیا اور اس بے حیائی کے طوفان میں پوری دنیا کو لے جانا چاہتے ہیں ، دیہاتوں ، قریوں کے مسلمانوں پر ان کے ایمان لیوا حملے ، دین سے دور مسلمانوں کو عیسائیت کے جال میں پھنسانے کی تدبیریں دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہیں ، حقائق کو بھلا کر کفر و شرک کے دلدل میں انسانوں کو پھنسانے کی کوشش میں مال و دولت کے انبار لٹا رہے ہیں ۔ ایسے میں مسلمانوں کو ان حقائق سے باخبر رہنا ضروری ہے ، ان تمام رسموں اور رواجوں اور غیروں کے تہواروں سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے ۔ بالخصوص عیسائی مشنری اسکولوں میں تعلیم پانے والے مسلمان بچوں کو ان تمام چیزوں محفوظ رکھنا ضروری ہے ۔ ہم معیاری تعلیم کے خوابوں میں کہیں اپنی اولاد کو دین وایمان سے دور نہ کر دیں!
(رابطہ۔ 8429816993)
[email protected]>