اسلام ایک ایسا مبارک دین و مذہب ہے جس کی تعلیمات لہو ولعب سے کوسوں دور اورخرافات کے شائبہ سے بالکل پاک ہیں۔ چنانچہ اسلامی شریعت نے جہاں انسانی فطرت کالحاظ کرتے ہوئے اہل اسلام کے لئے سال میں دو عید یں ۔۔۔عیدالفطر اور عیدالاضحٰی۔۔۔ خوشی ومسرت کے اظہار کے لئے کئے ہیں۔ عیدین کے موقع پر میں دوگانہ نمازِ عید واجب کرکے اظہار مسرت کو معرفت ِخداندی اورشکر انہ ٔ نعمت جیسی واجبات پر مر کوز کیا ہے ۔ عید محض مذہبی تیوہار نہیں بلکہ انعامات خداوندی کی شکرگذاری کادن ہے۔عید کھیل کود کادن نہیں بلکہ خداکی معرفت حاصل کرنے کادن ہے۔وہ منظر بڑاخوشنمااور ایمان افروزہوتاہے جب ایک ہی دن،ایک وقت، ایک ہی اندازمیںاورایک ہی جذبہ کے ساتھ دنیاکے قریہ قریہ ،چپہ چپہ،شہردرشہر،مساجد میں ،میدانوں میں،سڑکوںپہ ،عیدگاہوں میں فرزندان توحید بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہوکر نہ صرف اپنی عبدیت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اسلامی اخوت کی بھی شاندار مثال بھی پیش کرتے ہیں کہ جب مطہرو معطر لباس پہنے بچے،بوڑھے ، خواتین اورجوان عید کی خوشیاں مناتے ہوئے اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید میں مشغول نظر آتے ہیں ۔ان روح پرورمناظر کودیکھنے والے ایمان والوں کے قلوب عظمت ِایزدی سے سر شاراورروحیں ایمانی سرور سے معمورہوجاتی ہیں۔رحمت کے فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں،بڑے بڑے مجمعوں میں عاجزی وانکساری اور تضرع وزاری کے ساتھ دُعاکے لئے ااُٹھنے والے ہاتھ رحمت خدا وندی کے بے پا یا ں نزول کا سبب بن جاتے ہیں ۔ دنیاکی اکثر اقوام و ملل کایہ طرزعمل ہوتا ہے کہ وہ اپنے تہواراورخوشی کے دن لہب ولعب ناچ گانے ،شراب نوشی اور گندی تفریحات کی نذر کرتے ہیں،اگلے پچھلے رنج وغم اورمصائب کوبھول کروقتی خوشی میں ایسے سرشارہوجاتے ہیں کہ انہیں اخلاق وتہذیب کی سدھ بدھ ہی نہیں رہتی ۔ یہی دستور زمانۂ جاہلیت میں بھی رائج تھا۔
حضورِ اکرمﷺ جب ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ کے لوگ سال میں دودن خوشی کے مناتے تھے ۔ان دونوں دنوں میں خوب کھیل کود ہوتاتھااورگانے باجے کی مجلسیں جمتی تھیں مگرحضوراکرمﷺنے ان سب سلسلوں کو ختم فرماکراللہ تعالیٰ کے حکم سے ان دودنوں کے بجائے دوخوشی کے دن(عیدالفطر اورعید الاضحی)مقرر فرمائے(ابودائود)اور ان دنوں میں اظہارِ مسرت کے لئے کھیل کود ،لہو ولعب اور غلط سلط تفریحات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی بلکہ اسلام کے پیروکاروں کو حکم ہواکہ وہ مسرت کا اظہار اس انداز میں کریں کہ خوشی ان کے ظاہراورباطن سے نمایاں ہوسکے ،دلوں کی گہرائیوں سے سرور کی خوشبوئیں اُٹھیں ،ذہن ودماغ کے گوشوں سے عطر بیز ہوائیں پھیلیں اوربدن کارگ وریشہ اور رواں رواں اظہار ِمسرت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوششیں کرنے لگے۔ایسی لازوال خوشی کے حصول اور اس کے اظہار کاصرف ایک ہی طریقہ ہے اوروہ ہے یہ کہ انسان جس رب کائنات کابندہ ہے ،وہ اس بندہ نواز کے سامنے اپنی بندگی کااظہار کرکے اس کی خوشنودی کا مستحق بن جائے ۔ظاہر ہے جس بندے کاآقااُس سے خوش ہوجائے ،اس بندے کیلئے اس سے بڑھ کراور کیاخوشی ہوسکتی ہے ؟اسی لئے قرآن کریم میں فرمایاگیا(ورضوانٌ من اللہ اکبر)اور اللہ کی طرف سے خوشنودی سب سے بڑی نعمت ہے )۔اسی وجہ سے پر اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لئے خوشی کے دنوں میں اظہار ِ بندگی کا حکم دے کرشکرانہ کے طور پردوگانہ اداکرنے کی تاکیدفرمائی ہے ۔یہی عبادت ِ خداوندی عید کی اصل روح قرار پاتی ہے۔ بقیہ لوازمات مثلاًنہانادھونا،خوشبولگانا،نئے کپڑے پہننا،بشاشت ظاہرکرناوغیرہ سب ضمنی ہیں ۔آج کے دن کااصل کام اور پیغام یہ ہے کہ بندۂ مومن اپنے عمل سے یہ ظاہرکردے کہ وہ واقعی اپنے رب کافرمانبردار اور اطاعت گذار ہے اورایسے ہی بندہ کو درحقیقت آج خوشی منانے کاحق ہے۔
عیدین کی راتیں اللہ تعالی کی نظر میں نہایت فضیلت رکھتی ہیں ،ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا جو شخص اخلاص واحتساب کے ساتھ عیدین کی راتیں عبادت میں گذارے ،اس کا قلب اس دن زندہ رہے گا جب سب لوگوں کے دل مرجائیں گے ۔(ابن ماجہ )یعنی اس رات میں عبادت کرنے والے خوش نصیب حضرات میدان ِ محشر کی سختیوں میں بے خوف اور مطمئن ہوں گے اوربعض روایتوں میں ہے کہ عید کی رات آسمانوں میں ۔لیلۃ الجائزہ ۔یعنی انعام کی رات کے عنوان سے جانی جاتی ہے ۔اس لئے ان راتوں کو فضول مٹر گشتی،تفریحات اورواہی تباہی مشاغل میں گذارنے کے بجائے عبادت واطاعت میں گذارنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس خیر کثیر سے محروم نہیں رہاجائے۔
عید کے مسنون اعمال
(۱)غسل کرنا۔(۲)مسواک کرنا۔(۳)خوشبولگانا۔(۴)عید الفطر کی نماز سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھاکرجانا۔(۵)اگر صدقۂ فطر واجب ہوتو عید کی نماز سے پہلے اداکرنا۔(۶)بقرہ عید میں نماز کے بعد آکر قربانی کاگوشت کھانا۔(۷)عید کی نماز عیدگاہ (شہر کے باہر میدان )میں پڑھنا(۸)عید کی نماز کے لئے پیدل جانا،بلاضرورت سواری پرنہ جانا۔(۹)عید کے لئے ایک راستہ سے جانادوسرے راستہ سے واپس آنا،(۱۰)عید کے دن زیادہ سے زیادہ تکبیرات ۔اللہ اکبر اللہ اکبر ،لا الہ الا اللہ واللہ اکبر،اللہ اکبروللہ الحمد،پڑھنا(عید الفطر میں آہستہ آواز سے اور بقرہ عید میں بلند آواز سے)(مشکوۃ شریف،ماخوذ کتاب المسائل)
عید نماز سے متعلق چند مسائل
(۱)نمازِ عید شروع کرتے وقت مقتدی کے دل میں یہ استحضار رہے کہ میں قبلہ روہوکر اس امام کے پیچھے دورکعت واجب نمازاداکررہاہوں جس میں۶چھ زائد واجب تکبیریں ہیں ۔نیت کے لئے یہ استحضار کافی ہے زبان سے نیت کے کلمات اداکرناضروری نہیں باقی اگر کوئی اداکرلے تو بھی جائز ہے (الاشباہ والنظائر)(۲)ترکیب نماز عید۔نمازِ عید کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیرِتحریمہ کہہ کرہاتھ باندھ لیں ،ثناپڑھیں ،اس کے بعد دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے معمولی فصل سے تین مرتبہ تکبیر کہیں ،پہلی دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑتے رہیں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھیں اس کے بعد فاتحہ اور سورۂ ملائیں ،پھر رکوع سجدہ کرکے رکعت مکمل کرلیں ۔دوسری رکعت میں اولاًفاتحہ وسورۃ پڑھنے کے بعد رکوع میں نہ جائیں بلکہ تین مرتبہ ہاتھ اٹھاکرتین تکبیریں کہیں اور درمیان میں ہاتھ نہ باندھیں اس کے بعد بغیر ہاتھ اٹھائے تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں اور بقیہ نماز حسبِ معمول پوری کریں (۳)عیدین میں عورتوں کے احکام :مردوںکی طرح عورتوں کے لئے بھی عید کے دن مستحب یہ ہے کہ وہ غسل کریں اور عمدہ لباس جس میں پردہ اچھی طرح سے ہوتاہوزیب ِتن کریں کیوں کہ یہ خوشی اور زیب وزینت کادن ہے ۔ ( ۴)عیدین کا خطبہ تکبیرات سے شروع کرنا:عیدین کا خطبہ شروع کرنے سے قبل ۹؍مرتبہ لگاتار تکبیراتِ تشریق پڑھنامستحب ہے جب کہ دوسرے خطبہ کے شروع میں سات تکبیرات پڑھنا مروی ہے۔(۵)نمازِ عید کے بعد دُعا :عیدین کی نماز کے بعد دعاکرناجنابِ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔حدیث میں ہے کہ دورِنبوتؐ میں حائضہ بھی دعائوں میں شرکت کے لئے عید گاہ جایا کرتی تھیں ۔(۶)عید کے دن ایک دوسرے کومبارک باددیناجائز ہے(۷)تکبیر تشریق فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے ۔(۸)تکبیر تشریق بھول جانا :تکبیر تشریق کہناواجب ہے ،اگر کوئی مانع فعل صادر ہوجائے مثلاً مسجد سے باہر نکل گیایاکوئی بات چیت کرلی یا عمداً وضو توڑ دیا،توان تمام صورتوں میں تکبیر تشریق ساقط ہوجائے گی ،لیکن سہواًوضوٹوٹ جائے تو تکبیر کہہ لے اور اگر قبلہ سے سینہ پھر گیاتب بھی کہہ لی جائے۔(۹)عورتوں پربھی تکبیرِتشریق واجب ہے ،لیکن وہ بالکل آہستہ آہستہ پڑھیں گی۔