عیدالفطرکی تقریب سعید کے موقع پر اسلا میانِ عالم کو بالعموم اور ملت اسلامیہ جموں وکشمیر کوبالخصوص ہدیہ تہنیت وتبریک پیش کرتے ہوئے جہاں مجھے شادمانی وطمانیت کا احساس ہورہا ہے، وہاں عالمی سطح پر مسلمانوں کی حالت زار وزبوں ، انتشار وافتراق اور اغیار کے دامِ فریب میںپھنس کر ایک دوسرے کے خلاف اُن کی نبردآزمائیاں دل وجگر پر آرے چلا رہی ہیں۔ افسوس کہ شرق وغرب اور شمال وجنوب میں اسلام کے نام لیواؤں پر قہر وستم اور جبر وتشددکی یورشیں اپنے زوروں پر ہیں۔ آج وہ خیرالقرون رہ رہ کر یاد آرہاہے جب ہم اپنے ایمان وعمل اور اخوت ، مودت اورمحبت کے بل پر چہار دانگ عالم میں صالحیت اور آدمیت کے امام تھے، زمانے کی گردش ہمارے آبروئے چشم کے ماتحت تھی ، دنیا امن وامان کا گہوارہ تھی ۔ وائے حسرتا! فی زماننا ہم بہ حیثیت اُمت پر کاہ کے بھی برابر نہیں ۔ 1857ء سے پہلے مسلمان پوری دنیا کے ایک کروڑ 65؍لاکھ مربع میل کے فرماں روا تھے ، پھر جب بتدریج اپنی اجتماعی بے عملی اور کتاب وسنت سے دوری کے سبب ہم عروج سے زوال کی جانب لڑھکتے گئے کہ بیسویں صدی کے اوائل تک یہ رقبہ صرف 45؍لاکھ مربع میل تک سکڑ گیا، یعنی ایک تہائی سے بھی کم ۔ یہ بات شک وتردد سے بالاتر ہے کہ ظاہراًمادی اعتبار سے اس وقت مسلمان ترقی کی جس منزل پر ہیں، اس کی مثال ماضی میںکہیں نہیں ملتی ،نئے لوگ اور نئی قومیں بھی دامن ِاسلام میںپناہ لے رہی ہیں بلکہ عالمی ماہرین آبادیات کے مطابق ہر چھ سال میںعالمی آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب ایک فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ اس ظاہری شان و شوکت اور ترقی کے باوجود ہم پراگندہ وپریشان کیوںہیں؟ جو دنیا ہماری زیر نگین تھی ، آج ہم اسی دنیا کے تابع فرمان کیوںبنے جی رہے ہیں؟ وجوہات ڈھونڈیئے تو پتہ چلے گا کہ عیش ونشاط ہماری گھٹی میں پڑ چکا ہے اورحصول مال وزر ہماری زندگیوں کا مقصد وحید ٹھہرا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ دین سے دوری ، میدانِ دعوت سے فرار ، ایمانی اجتماعیت اور ملّی وحدت کی بجائے قبیلوں ،قومیتوں، وطنیتوں، زبانوں اور مسلک ومشرب کے خانوں میں ڈھل کر ہم اپنی اصل شناخت کھو چکے ہیں ۔ لہٰذا کثرت ِ تعداد اور مال ومتاع کی بہتات ہمیں ذلتوں اور ہزیمتوں سے نہیں بچا پار ہے ہیں۔ حدیث نبوی ﷺ دوٹوک الفاظ میں اس صورت حال کی یوں گرہ کشائی کرتی ہے: ’’جب اُمت میںدنیا کی محبت غالب اور موت سے خوف محسوس ہوگا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ساری دنیا ہم پر پل پڑے گی۔‘‘
آج عید الفطر کی بہارہم پر ایسے حالات میں سایہ فگن ہے کہ ہم جہاں خود استبداد کی چکی میں پس رہے ہیں، وہاں فلسطین ،شام ، عراق ، یمن، میانمار کے مسلمانوں کی عید خون میں نہلائی ہوئی ہے ، بے شمار معصوم بچے تہ ِتیغ ہوچکے ہیں ، کتنی ہی عفت مآب خواتین کے سہاگ لٹ گئے ہیں، پیر وجواں کا قتل عام جاری ہے۔ باقی دنیا سے کیا گلہ خودمسلم ممالک کا ردعمل بھی رسمی بیانات سے آگے نہیں جاتا ۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیل اپنے آقائوں کی مرضی کے عین مطابق مسلمانوں کے سینوں پر مونگ دل رہا ہے کہ جگر خون کے آنسو رو رہا ہے، کلیجے پھٹ ر ہے ہیں اور قلوب اس سوختہ سامانی پر ماتم کناں ہیں۔ان گھمبیر حالات کے حوالے سے ہمیں اس سنت اللہ کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ اللہ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں تبدیل کرتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کیلئے تیار نہ ہو۔بہر حال عالمی ا ور مقامی سطح پر اس رنج دہ صورت حال کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم فرداًفرداً بھی اور اجتماعاً بھی حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی کو پکڑے رہیں اور ہماری زندگیاں بالفعل قرآن وسنت کی زیب وزینت سے مزین ہوں۔یہ ہوا تو کن فیکون کاواحد مالک للہ اُمت مسلمہ کی اقبال مندیاں بحال کر کے ہمارے نصیبوں کو لگے گرہن کا خاتمہ لازماً کر ے گا ۔
آئیے !عید الفطر کے موقع پر اپنے وطن کی حالت ِزار اور اہل فلسطین سمیت مسلم دنیا کے دیگر خطوں میں قہروستم کے شکار مظلومین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور اسلامی شعائر کا پورا خیال رکھ کر عید سادگی وتمکنت سے منائیںاور کسی ایسی خلاف اسلام حرکت کا ارتکاب نہ کریں کہ عید ہمارا مضحکہ اُڑادئے اور ہلال عید ہماری مردہ ضمیری پر سوگوار ہو… ایک بار پھر ہدیہ تہنیت پیش کرتے ہوئے ملت کو جمعیۃ وجماعت کے ملی ،فلاحی اورتعلیمی منصوبوں کی بہر نوع امداد کی اپیل کے اعادہ کے ساتھ روئے زمین کے تمام مسلمانوں کی شادکامی کے لئے دست بدعاہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔
رابطہ :ناظم اعلیٰ جمعیۃ اہلحدیث جموںوکشمیر