عید الفطر یک ماہی صیام کے اختتام پرروزہ دار کی ظاہر ی پاکیزگی اور باطنی طہارت کے شکرانہ میں اظہار فرحت وانبساط کا نام ہے ۔حضور اقدس صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں یہ روحانی فرحت نصیب ہو تو شکرانے کیلئے قبل از نمازعید خیرات کرکے اس خوشی میںاپنی ملت کے کمزور ونادار طبقوں کو شامل کرو اورعید گاہ جاکر اس کا اجتماعی شکرانہ نماز دوگانہ سے پیش کرکے خدا کے دربار میں سربسجود ہوجائو۔آنے جانے میں علحدہ علحدہ راستہ اختیار کرو کیونکہ تیرے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو استقبال کے لئے دست بستہ رکھے ہیں جو تمہارے مصافحہ کے لئے انتظار میںبیٹھے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی المرتضیٰ ؓ عید کے روز جو کی روٹی کھارہے تھے کہ کسی نے عرض کی کہ آج عید ہے، فرمایا میری عید اُس دن ہے جس دن کوئی گناہ میرے بدن سے صادر نہ ہوجائے۔یقینا روزوں کے طفیل انسان کے اندر ملکوتی نظام دوبالا ہوجاتا ہے ، خدائے برحق اُسے آسمانی خوانوں سے فربہ بناتا ہے جو بدن کو بھی قوت اور روح کو بشاشت عطاکرتے ہیں ۔حضرت عیسیٰ ؑ نے یہ فرماکر اسی خوان کی تمنا کی : ’’اے اللہ اے میرے رب! نازل کر آسمان سے ہم پر روحانی خوان تاکہ وہ دن ہمارے لئے عید ہو اور آپ کی نشانیوں میںسے ہو اورآپ بہترین عطا کرنے والے ہیں‘‘۔ لہٰذا روحانی تقاضوں کے باعث مومن کا ہردن روزعید ہے جب اس کے قلب پر رحمت کی بارش نازل ہوتی ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب اس کا قلب تزکیہ نفس سے مہیط انوار بن جائے ، اورنفس کشی اور تزکیہ ٔ قلب اس کا بہترین وسیلہ ہے ۔حضرت اُم المومنین عایشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ بھوک سے خدائے برحق کے دروازے کو دستک دے دو،تمہارے لئے یہ در کھولا جائے گا ۔حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں مومن کے لئے پانچ عیدیں ہیں (۱) جس دن مسلمان گناہ سے محفوظ رہے یعنی اُس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو (۲) جس دن ایمان سلامت ہوکر دنیاسے رخصت ہوجائے۔(۳)جس دن ایک مسلمان دوزخ کے پُل سے سلامتی کے ساتھ گذر جائے ۔(۴) جس دن مومن جنت میںداخل ہوجائے۔(۵) جس دن پروردگار عالمین کے دیدار ورضا سے فیض یاب ہوجائے ۔یقینا ماہ رمضان کے قدر دانوں کے واسطے پانچوں عید کی بشارت ہے ۔ جہنم سے آزادی جنت کی بشارت وقت افطار دیدار مولیٰ نصیب ہوجانا ہے ،یوم عرفہ کو معرفت اوراجر وانعام حاصل ہوجاتا ہے، ان تمام نعمتوں کا شکرانہ روز عید ہے۔ اگر ایسی عید سبوں کو نصیب ہوجائے توناممکن ہے کہ کائنات کو ایمان وعمل صالح کے توسط سے امن وامان میسر ہوجائے ،قتل وغارت ظلم وجبر بند ہو، انسانی ہمدردیاں اور محبتیں کرۂ ارض کا نصیب ہوجائیں، پھرہر طرف عید ہی عید ہو گی ،یتیموں کو تنہائی محسوس نہ ہو گی ،ان کے سرپر شفقتوں کا سایہ ہوگا ، مظلوموں کی دادرسی ہوگی۔ ذرایا د کیجئے وہ عظیم الشان دن جب عید ہی کے روز حضرت رسول اکرم ﷺ نے عید گاہ میں ایک بچے کو روتے ہوئے دیکھا ،فرمایا تم کیوں روتے ہو؟ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں یتیم ہوں، اگر میر ابھی کوئی ہوتا تو مجھے بھی آج نئے کپڑے زیب تن ہوتے ۔حضور اقدس ؐ نے اشک با رچشمان ِ مبارک سے اپنے دست مقدس سے اُٹھاکر اس یتیم بچے کوسینۂ اطہر سے لگایا اور کا شانہ ٔ نبوت پہنچایا۔ عیدمنانی ہو تو ایسی ہی دل سوزی اور محبت سے منا کر اپنی خوشی دوچند کردیں۔
رابطہ:صدر انجمن حمایت الاسلام جموں وکشمیر