عید الاضحی کی تقریب سعید کل 29جولائی بمطابق10ذی الحجہ روایتی مذہبی جذبے کے تحت منائی جارہی ہے ۔لوگ عید کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیںاور عید سے قبل بازاروں میں جم کر خریداری ہورہی ہے لیکن اس چہل پہل سے بے نیاز کچھ معصوم بچے ایسے بھی ہیں جن کی عید نہیں ہے ۔وہ یتیم خانوں میں زیر کفالت ہیں اور وہیں اپنی بے بسی پر ماتم کناں ہیں۔عید کی خوشی کا اظہار ہر مسلم کا حق ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی معنوں میں عید کی اصل خوشی کا حقدار کون ہے ۔آج جب کہ ہم عید کی مناسبت سے لذیذ زیافتیں پکانے اور عمدہ لباس تیار کرنے میں مگن ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ہمارے اہل خانہ کی عید اچھی ہو،ایسے میں عیدکے ان پُر مسرت لمحات میں ہمیں اپنے اڑوس پڑوس میں اُن یتیم بچوں اور بیوائوں کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جو عید منانا چاہتے ہیں لیکن ان کے ہاں کھانے تک کیلئے کچھ نہیں ہے۔یتیم خانوں کا قیام احسن اقدام ہے لیکن جس طرح آج کل ہر گلی اور بازار میں لوڈ اسپیکروں پر یتیم خانوں کے نام پر لوگوں سے زکواۃ اور صدقات وصول کئے جارہے ہیں ،شایدیہ بھی کوئی اچھا رجحان نہیں ہے ۔کئی دفعہ ایسے معاملات بھی سامنے آئے جب یہ معلوم ہوا کہ یتیم خانوں کے نام پر چندہ جمع کرنا کئی لوگوں کیلئے روزگار اور تجارت کا ذریعہ بن چکا ہے ۔اگر اسلام کے تابع اپنی زندگی بنائی جائے تو شاید ہمیں بازاروں میں چندہ جمع کرنے اور لائوڈ سپیکروں کے ذریعے لوگوں سے منت سماجت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ۔یتیم خانوں کا قیام تو جدید دور کی سوچ ہے جبکہ رسول اللہ ؐ کے وقت میں یتیم خانے نہیں تھے بلکہ اُس وقت صحابہ کرام ؓ یتیموں کی کفالت کا ذمہ اٹھاتے ،یہاں تک خود رسول اللہ ؐ کئی یتیموں کی کفالت کرتے رہے ہیں۔یتیم خانے بچو ںکی پرورش تو کرتے ہیں لیکن گھر سے دور ضرور انہیں احساس محرومی کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔کتنا ہی اچھا ہوتا کہ ہم مقامی سطح پر محلہ ،گائوں اور قصبہ میں اپنے آس پاس کے یتیموں اور بیوائوں کا خیال رکھتے تو شاید آج نوبت یہاں تک نہ آپہنچتی ۔یتیموں کی کفالت کرکے ہم ان پر کوئی احسان نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ ہمارا ملی اور مذہبی فرض ہے جبکہ قیامت کے روز اس بارے میں پوچھ تاچھ ضرور ہوگی ۔یتیموں اور بیوائوں و محتاجوں کی پرورش و اعانت حقوق العباد میں آتی ہے ۔اللہ اپنے حقوق میں غفلت معاف کرسکتا ہے لیکن حقوق العباد میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔پر آشوب حالات کی وجہ سے وادی میں یتیموں ،ناداروں ،بیوائوں اور محتاجوں کی ایک فوج تیار ہوچکی ہے ،ایسے میں ہم پر زیادہ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں کہ ہم اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ ان کی خوشیوں کا بھی خیال رکھیں ۔اس وقت سینکڑوں لوگ جیلوں میں مقید ہیں ،ان کے اہل خانہ بھی کسمپرسی کی حالت میں ۔عید کے ان ایام میں ہمیں قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھی نہیں بھولنا چاہئے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں ۔ مقامی اور عالمی سطح پر مسلم امہ کو درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ کسی بھی طور جائز نہیں کہ ہم اصراف سے کام لیں ۔اخلاق کا تقاضا ہے کہ عید سادگی سے منائی جائے اور کوشش کی جائے کہ مفلسوں و محتاجوں کو عید منانے کے قابل بنایا جائے۔اُسی میں ہماری دنیا وی واُخروی بھلائی کا راز پنہاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کی خوشیاں…ایک نظر اِدھر بھی
