مقصوداحمدضیائی
انسانی تہذیب و روایات کے تسلسل کا اہم جز مسرت و خوشی کی گھڑیا ں ہیں۔ مثلاً ولادت، عقیقہ ،نکاح اور دیگر تقریبات کے موقعوں پر ہم ان خوابیدہ جذبات کی آبیاری کرتے ہیں جو ہمارے دلوں میں پنہاں ہوتی ہیں، مسرت کے یہ لمحات ہمارے سماج کو پیار ومحبت کے رشتے میں پرونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ،معاشرتی زندگی میں تہواروں کی بھی ایک مسلمہ حیثیت رہتی ہے ان تہواروں سے جسم میں نشاط و تازگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ایک کمزور انسان بھی اپنے اندر ایک خاص قسم کی طاقت اور خوشی محسوس کرتا ہے۔ ان تہواروں میں ہم یوم عید کو کیسے بُھلا سکتے ہیں جو اپنے دامن میں بے شمار مسرتوں کی سوغات لاتا ہے یوم عید خوشی کا دن ہے اور اس خوشی کے موقع پر یہ سمجھنے کی کو شش کریں کہ یہ خوشی کس چیز کی ہے؟ اسے ہمارے اسلاف کس طرح مناتے تھے؟ اور آج ہماری عید کس طرح سے ہوتی ہے؟
روایات میں یہ واقعہ مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ محسن انسانیت جناب رسول اللہؐ نے عید کے روز ایک بچے کو اس حالت میں دیکھا کہ خوشیاں اس کے چہرے سے کافور ہیں اور مایوس بیٹھا ہوا ہے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یتیم ہے اور ماں نے دوسرا نکاح کر لیا ہے۔اس صورت میں اس یتیم اور بے سہارا بچے کے لیے کیا خوشی ہوسکتی ہے ۔ پیغمبراسلام ؐ اس یتیم بچے کو سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس لے آئے اور عائشہؓ سے فرمایا۔ اس بچے کو نہلاؤ اور اچھے کپڑے پہناؤ ،خوشبو لگاؤ ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ یتیم بچہ فرطِ جذبات میں اپنے ہمعصر بچوں سے کہنے لگا کہ عید تو میری ہی ہے تم میں ہے کوئی جو میرے جیسا ہو! کہ جس کو رسول اللہؐ جیسا مشفق باپ اور امہات المومنین کی صورت میں ماں مل گئیں ہوں۔لاکھوں درودو سلام ہو اس آقائے نامدارؐ پر ، جو رہتی دنیا تک کے لئے ایسا کردار چھوڑ گئے کہ جو تاریخ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ سیدنا عمر فاروقؓ کو بعض لوگوں نے مبارکباد پیش کی کہ آج عید ہے تو آپؓ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ،فرمایا کہ آج عید کا دن ہے، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر آج کے دن کوئی شخص بھوکا پیاسا اور ننگا رہا تو آنے والے کل خالق کائنات کے سامنے مجھ سے سوال کر لیا گیا تو میں کیا جواب دوں گا ؟علامہ شبلی ؒ کو کسی نے عید کے روز نالہ کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آج تو عید ہے خوشی کا دن ہے اور آپ نالہ کر رہے ہیں، فرمایا کہ میں ان لوگوں پر نالہ کر رہا ہوں کہ جنہوں نے عید کی خوشی میں وعید کو فراموش کر دیا ہے۔
مذہب اسلام اس بات کی قطعًا اجازت نہیں دیتا کہ ہم خوشی میں مست ہو کر برائیوں میں ڈوب جائیں اور رنگ رلیاں منائیں ،ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے رسم و رواج اس کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتے پس عید کا حاصل ذکرِ الٰہی، خشیت الٰہی ، خدمت خلق، رُوح اجتماعیت دنیا میں رہ کر آخرت کو نہ بھو لنا اور زندوں کے ساتھ ہی اموات سے بھی رشتہ جوڑے رکھنا اور اُن میں سے ہر چیز کی رُوح اور معیارِ ایمان کو قرار دینا نہ کہ ظاہر داری اور دنیا سازی تاکہ خلق خدا کے ساتھ خالق کائنات سے وابستگی اصلِ اصول ثابت ہو تی رہے۔ چناں چہ عیدالفطر ، ماہِ صیام کی تکمیل پر اللّٰہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا دن ہے، تو اس سے زیادہ خوشی و مسرّت کا موقع کیا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اِس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ’’ عید کا لفظ’’عود‘‘سے مشتق ہے، جس کے معنی’’لَوٹنا‘‘ کے ہیں، یعنی عید ہر سال لَوٹتی ہے اور’’فطر‘‘ کے معنی’’روزہ توڑنے یا ختم کرنے‘‘ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللّٰہ تعالیٰ بندوں کو عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، تو اِسی مناسبت سے اسے’’عید الفطر‘‘ قرار دیا گیا۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بہ طورِ تہوار مناتے اور اُن میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسولِ کریمؐ نے اُن سے دریافت فرمایا’’ یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ ہم عہدِ جاہلیت میں ،یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سُن کر نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دیے ہیں،یوم عیدالاضحٰی اور یوم عیدالفطر۔‘‘( ابو داؤد)۔نبی کریمؐ نے عیدین کے موقعے پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ، دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی، نیز ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندۂ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔
عید کے اس پُرمسرّت موقعے پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ قرب و جوار اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔حضرت علی المرتضیٰؓ کو زمانۂ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں۔ کسی نے کہا’’ آج تو عید کا دن ہے؟‘‘ یہ سُن کر آپؓ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا’’ جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنھیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟‘‘ حضرت معروف کرخیؒ ایک عید پر نخلستان میں گری کھجوریں چُن رہے تھے۔ایک شخص نے پوچھا ’’ایسا کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ تو فرمایا’’مَیں نے ایک لڑکے کو روتے دیکھا، تو اُس سے پوچھا’’ تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘لڑکا بولا’’ مَیں یتیم ہوں۔ یہ لڑکے اخروٹوں سے کھیل رہے ہیں اور میر ے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اخروٹ خرید کراُن کے ساتھ کھیل سکوں۔‘‘ اس لیے میں کھجوریں چُن رہا ہوں تاکہ اُنہیں فروخت کرکے اُس یتیم بچّے کو اخروٹ لے دوں۔‘‘(اِحیاء العلوم )۔ صدقۂ فطر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب ہے، اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ’’رسول اللہؐ نے صدقۂ فطر واجب کیا تاکہ روزہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہوجائے اور مساکین کے لیے کھانے کا بندوبست بھی ہو جائے۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر صدقۂ فطر کا فلسفہ یہی ہے کہ عید الفطر کی خوشیوں میں غریب مسلمان بھی بھرپور طریقے سے شریک ہو سکیں۔اسی طرح ایک اور حدیث شریف ہے کہ’’ عید الفطر کے دن محتاجوں کو خوش حال بنا دو۔‘‘گو کہ صدقۂ فطر کبھی بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم عام طور پر ماہِ رمضان کے آخری دنوں میں ادا کیا جاتا ہے، جب کہ بہت سے لوگ نمازِ عید کے لیے جاتے ہوئے راہ میں بیٹھے بھکاریوں کو فطرانہ دیتے جاتے ہیں جو کہ مناسب طریقہ نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ عید سے قبل ہی فطرانہ ادا کردیا جائے تاکہ ضرورت مند افراد بھی عید کی تیاری کرسکیں۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ذہن نشین رہے کہ عام طور پر گندم کی قیمت کے لحاظ سے فطرانہ ادا کیا جاتا ہے جو جائز ہے، تاہم امیروں کے لیے مستحب یہی ہے کہ وہ کھجور یا پھر کشمش وغیرہ کے حساب سے فطرانہ دیں تاکہ غریبوں کی اچھے طریقے سے مدد ہو سکے، اسی طرح صاحبِ حیثیت افراد کو فطرانے کے علاوہ بھی عید کے موقعے پر صدقہ خیرات کرنا چاہیے کہ اس سے غریبوں کو عید کی خوشیاں نصیب ہوں گی اور ہوسکتا ہے کہ کسی کی دُعا آپ کی زندگی میں بھی مزید خوشیاں بھر دے۔
����������������