ندیم خان ۔بارہ مولہ
یومِ عید ماہِ صیام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا دن ہے، تو اس سے زیادہ خوشی و مسرّت کا موقع کیا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ عید کا لفظ’’عود‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی’’لوٹنا‘‘ کے ہیں، یعنی عید ہر سال لوٹتی ہے، اس کے لوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے اور’’فطر‘‘ کے معنی’’ روزہ توڑنے یا ختم کرنے‘‘ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، تو اسی مناسبت سے اسے’’عید الفطر‘‘ قرار دیا گیا۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بہ طورِ تہوار مناتے اور اُن میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے دریافت فرمایا’’ یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ ہم عہدِ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سُن کر نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دئیے ہیں،یوم عیدالاضحٰی اور یوم عیدالفطر۔‘‘( ابو داؤد) نبی کریمؐ نے عیدین کے موقعے پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ، دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی۔ نیز ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندۂ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔احادیثِ مبارکہ میں شبِ عید اور یومِ عید کی بہت فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا’’ جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے، تو اُسے آسمانوں پر’’ لیلۃ الجائزہ‘‘یعنی’’ انعام کی رات‘‘ کے عنوان سے پکارا جاتا ہے اور جب صبحِ عید طلوع ہوتی ہے، تو حق تعالیٰ جل شانہ فرشتوں کو تمام بستیوں میں بھیجتا ہے اور وہ راستوں کے کونوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے، جسے جنّات اور انسانوں کے سِوا ہر مخلوق سُنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ’’ اے اُمّتِ محمدیہ،ؐ اس کریم ربّ کی بارگاہِ کرم میں چلو، جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔‘‘ جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ ربّ العزّت فرشتوں سے فرماتا ہے،’’ اُس مزدور کا کیا بدلہ ہے، جو اپنا کام پورا کر چُکا ہو؟‘‘ وہ عرض کرتے ہیں،’’ اے ہمارے معبود! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری اور اُجرت پوری پوری عطا کردی جائے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اے فرشتو! تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے اُنہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا فرمادی۔‘‘ اور پھر بندوں سے ارشاد ہوتا ہے کہ’’ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزّت و جلال اور بلندی کی قسم! آج کے دن آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میرے عزّو جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رُسوا نہ کروں گا،میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘(الترغیب والترہیب)
بلاشبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنھوں نے ماہِ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا،پورے ماہ تقویٰ کی روش اختیار کئے رکھی اور بارگاہِ ربّ العزّت میں
مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب اُنھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے۔تاہم، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین اپنی عبادات پر اِترانے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دُعائیں کیا کرتے تھے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا قول ہے کہ’’ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیابلکہ عید تو اُن کی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے اور اُس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بہت زیادہ خوشیاں منائیں بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اُس پر قائم رہے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کئے بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید اُن کی نہیں، جو دنیاوی زیب و زینت اور آرایش و زیبایش کے ساتھ گھر سے نکلےبلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اور خوفِ خدا اختیار کیا۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے اپنے گھروں میں چراغاں کیا بلکہ عید تو اُن کی ہےجو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔‘‘حضرت علیؓ نے عید کی مبارک باد دینے کے لیے آنے والوں سے فرمایا،’’ عید تو اُن کی ہے جو عذابِ آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پاچُکے ہیں۔‘‘
عید کے اس پُر مسرّت موقعے پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔حضرت علیؓ کو زمانۂ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں۔ کسی نے کہا’’ آج تو عید کا دن ہے؟‘‘ یہ سُن کر آپؓ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا’’ جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنھیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟‘‘ روایت ہے کہ آقائے دو جہاںؐ نمازِ عید سے فارغ ہوکر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں آپؐ کی نظر ایک بچّے پر پڑی، جو میدان کے ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا۔ نبی کریمؐ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اُس کے سَر پر دستِ شفقت رکھا، پھر پوچھا’’ کیوں رو رہے ہو؟ ‘‘بچّے نے کہا’’ میرا باپ مرچُکا ہے، ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے، میرے پاس کھانے کو کوئی چیز نہیں ہے، نہ پہننے کو کپڑا۔‘‘یتیموں کے ملجاؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،فرمایا کہ’’ اگر میں تمہارا باپ، عائشہؓ تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن ہو، تو خوش ہو جائو گے؟‘‘ کہنے لگا’’ یارسول اللہؐ! اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔‘‘حضورِ اکرمؐ بچّے کو گھر لے گئے۔ ہمیں اپنے آس پاس پر بھی نظر دوڑانی چاہیے کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو حقیقی معنوں میں عید کی خوشیوں سے بہت دور ہیں کیونکہ غربت کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کیلئے وہ سب کچھ نہیں کر پاتے ہیں جس کی توقع ان کے بچے ان سے لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔ عام اور غریب افراد کے پاس وہ وسائل نہیں ہوتے ہیں جن سے وہ اپنے معصوموں کو عید کی خوشیاں دے سکیں، اگر ہم اس بات پر تھوڑا سا بھی دھیان دیں ،ہم جو خوشیاں یا سہولیات اپنے گھر والوں کو فراہم کر رہے ہیں کیا ہمارے پڑوس میں رہنے والا شخص بھی ایسا کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اگر نہیں تو سرا سر ہماری لاپرواہی اور بے حسی کا نتیجہ ہے ،جس پر ہم ﷲ کے ہاں جواب دے ہوں گے، اس وقت عید کی خوشیوں میں ہمیں نادار اور محروم افراد کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے، جس طرح ہم اپنے بچوں کو ہر طرح کی خوشیاں دینے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔اسی طرح اپنے آس پاس کے بچوں کا بھی خیال رکھیں جو ہماری توجہ کے اصل حقدار ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے۔ عید کے دن مسلمانوں کی مسرت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں اور اس خوش و تسکین کے لمحات کو رنجشوں اور آلائشوں سے پاک کرکے منایا جانا چاہیے۔ آپ بھی خوب خوشیاں منائیں، مسرتوں کا اظہار نت نئے طریقوں سے کریں۔ نئے کپڑے، نئے جوتے خریدیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری اجتماعی ذمہ داری بھی ہے کہ اس پر مسرت خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمانوں بھائیوں کو بھی نہ بھولیں۔ یہ غریب لوگ آپ کے دائیں بائیں، آپ کے پڑوس میں، آپ کے محلے میں، آپ کے علاقے میں آپ کے ملک میں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوسکتے ہیں۔ جس کی جتنی ہمت ہو ، اس کو عید کی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کرلینا چاہیے۔ ایک عام مڈل کلاس کا انسان اپنے قریبی رشتہ دار اور ہمسایوں کا خیال رکھے تو ایک صاحب ثروت انسان ملک بھر اور دنیا بھر کے غریب مسلمان بھائیوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔
(رابطہ۔ 6005293688)
[email protected]