کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ــ’ ’ زندگی کو رمضان جیسا بنالو توموت عید جیسی ہوگی‘‘۔’’عید‘‘ اصل میں عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی کے ہے اور اردو میں بھی اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔عربی میں اس کا اصل معنی بار بار آنے کا ہے جس کی خاص وجہ یہ ہے کہ یہ دن ہر سال بار بار آتا ہے اس لئے اس کو عید کہا جاتا ہے۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہینوں کا سردار، نیکیوں کا موسم ِـبہار ،خوشیوں اور شادمانیوں کا کہیون ہار ماہِ رمضان ہم سے رخصت ہوا۔ اس مہینے کی برکات اور رحمتیں جن لوگوںکو عطا ہوئیںوہ سب سے زیادہ خوش نصیب لوگ ہیں اور جن کو اس مہینے کا کوئی خیر وفیض نصیب نہ ہوا وہ سب سے زیادہ بد نصیب لوگ ہیں۔ماہِ رمضان کا ملنا اور پھر اس کی قدر کرکے مغفرت حاصل کرنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
دنیا میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں ،ہر ایک کا اپنا ایک مخصوص تہوار اور مخصوص دن ہے۔ان تہواروں میں لوگ نہ صرف اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان میں اپنے جداگانہ تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کی عید دیگر مذاہب و اقوام کے تہواروں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہے۔دیگر مذاہب کے تہوار نفسیات کی پابندی،عیش و عشرت کے اظہار اور فسق و فجور میں گزرتے ہیں لیکن اہل اسلام کی عید صرف خوشی ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی عبادت،ذکراور شکر میں گزرتی ہے،یعنی عید کا دن خوشی و شادمانی کے ساتھ ساتھ عبادت کا دن بھی ہے۔مسلمانوں کی عید اپنے اندر اطاعت ِخدا وندی،اظہارِ شادمانی،اجتماعیت،تعاون و رحم دلی کے انمول احساسات، لہو ولعب سے اجتناب جیسی پاکیزگیاں رکھتی ہے۔اس دن کے طے شدہ امور سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان غم و مصیبت میں تو خدا کو یاد کرتا ہی ہے لیکن مسلمان اپنی خوشی کے لمحات میں بھی یادِ الٰہی سے غافل نہیں رہتے۔
عید الفطر خوشی کا دن ہے ،یہ مبارک دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے بہت بڑا انعام ہے۔اس کی سعادتوں،برکتوں ،رحمتوں اور فضیلتوں کے بیان سے صفحات بھرے پڑے ہیں مگر اس کی حقیقی سعادتیں،برکتیں،رحمتیں اور فضیلتں اس شخص کو حاصل ہوتی ہیں جس نے رمضان المبارک کے تقاضے پورے کئے ہوںگے،رمضان المبارک کے تقاضوں پر لبیک کہا ہوگا اور جس نے اس مہینے کے نور سے اپنے دل کا چراغ روشن کیا ہوگا۔عید الفطر کا دن ویسے تو سبھی مسلمانوں کے لئے خوشی کا سورج لے کر طلوع ہوتا ہے، چاہے انہوں نے رمضان شریف کا احترام کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اس عید کے دن سے جو چاشنی،لذت ،خوشی اور فرحت روزے داروں کو نصیب ہوتی ہیں ،وہ روزہ خوروں کو نصیب نہیں ہوتی اور نہ ان کوحاصل ہوتی ہیں جنہوں نے روزوں کی قدردانی نہ کی ہو ۔ اس دن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان واحتساب کے ساتھ روزے رکھنے والوں ہی کے لئے مخصوص فرمایا ہے۔مفطروں کے لئے عید کا دن اور دیگر ایام ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ،اس لئے انہیں یہ خدائی سرور و تسکین کیسے میسر آسکتی ہے؟عید الفطر کا عظیم فلسفہ اسی ایک نقطے میں پوشیدہ ہے کہ یہ امیروں اور غریبوں سبھی کے لئے یکساں طورخوشی کا پیغام لے کر آتا ہے۔یہ دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کریں ، اس دن اپنے پڑوسیوں،رشتے داروں،خاندان والوں،غریبوں اور مفلسوں کا خاص خیال رکھیں،تبھی صحیح معنوں میں عیدالفطر کی حقیقی خوشی کے ہم حق دار ہوں گے اور عیدالفطر کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔عید کے دن لوگ اپنے گھر والوں اور بیوی بچوں کا توخوب خیال رکھتے ہیں،ان کے لئے مہنگے سے مہنگے کپڑے حسب ِضرورت خریدتے ہیں ،بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر افسوس ان کے ارد گرد ایسے بے شمار لوگ مل جائیں گے جو عید کی لذتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔نہ ان کے پاس کپڑے خریدنے کے لئے پیسے ہوتے ہیں اور نہ عید کی خوشی حاصل کرنے کے لئے مادی ذرائع۔ذرا معاشرے کے گردونواح میں دیکھئے عید کے دن ایک نہیں بہت سارے گھروں میں چولہا جوں توںجلتا ہوگا مگر اس میں اتنی جاذبیت وکشش نہ ہوگی جتنی اہل ثروت کے یہاں دیکھنے کو ملے۔اپنے بچوں کو عیدی دینے کے لئے ان کے پاس پیسے تک نہیں ہوتے، اس لئے ان کے بچوں کے چہروں پر خوشی کی وہ رمق نہیں ملتی جو مالداروں گھرانوں کے بچوں کے چہروں پر نظر آتی ہے۔اس لئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں کشادہ دلی کے ساتھ شریک کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عید کے معنی خوشی کے ہیں اور یہ خوشی کا پیغام لے کر پورے عالم اسلام پر چھا جاتا ہے لیکن چونکہ کشمیر کے نامساعدحالات کے بارے میں ہم سبھی جانتے ہیں کہ آئے دن جھڑپیں ، مظاہرے، کرفیو ،ظلم و جبر،تشدد،گولہ باری،شیلنگ وغیرہ سے اب تک بے شمار جانیں منوں مٹی نیچے دفن ہوچکی ہیں اور لا تعداد نوجوان آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں، لہٰذا صورت حال کی مناسبت سے ہم پر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔سب سے پہلے ہمیں عیدکے دن اپنے اپنے محلے یا گاؤں میںان لوگوں کے پاس جانا چاہیے جن پر مسلسل نامساعد حالات کی وجہ سے مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔اُن کی ہر طرح کی ضروریات کو پورا کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔ہمیں اپنی دعاؤں میں شہید ہونے والوں کے لئے مغفرت ،زخمیوں کے لئے شفاء اور خاص طور پر کشمیر کاز کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑاکر فریاد یںکرنی چاہیے۔ نامساعد حالات کی وجہ سے آج تک جتنے بھی بچے یتیم ہوچکے ہیں، جتنی بھی بہنوں کے سہاگ اُجڑ چکا ہیں اور جتنے بھی جوان پیلٹ سے زخمی اور آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں ،ان کی ہر ممکن مدد کرنا اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے اقدامات کرنا بھی لازمی ہے۔کشمیر کی تحریک کو جس جوش،ولولے،سپورٹ اور حمایت کی ضرورت ہے، اس کے لئے خندہ پیشانی پیش سے کارواں کو آگے بڑھانا ہماری نہایت اہم قومی ضروری ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے عیدکے معنی اور اس کے تقاضوں کو اچھی طرح سے نہیں سمجھا ہے۔ سات آٹھ اقسام کے گوشت کے مرغن سالن تیار کرنا اور نو دس اقسام کی روٹیاں لانا ، لڑکے لڑکیوں کا مختلف پارکوں،کلبوں،ہوٹلوں اور سیاحتی مقامات میں وقت گزارنا،فحش اور نا شائستہ باتیں کرکے دل بہلانا اور ہنسی مذاق کرنا یہ عید کی پاکیزگی کی توہین ہے۔عید کے دن ماں باپ اپنی بچوں بچیوں سے یہ پوچھنا بھی گوارہ نہیں کرتے کہ وہ صبح سے شام تک کہاں اور کس کے ساتھ تھے۔عید کے روز جوا،شراب ،چرس اور منشیات کا استعمال کرنا خود کو قہر خداوندی کے سپردکرنے کے مترادف ہے۔ افسوس کہ عید کے دن سب سے زیادہ فضول خرچیاں اور نمودونمائش اور فضولیات کی جاتی ہیں اور بے شما ر مال وزر مختلف قسم کے فضول کاموں میں ضائع کیاجاتا ہے ۔ عید کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ مومن کا ہر عمل اللہ رب العزت کے احکامات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہونا چاہیے۔ جس طرح ہم نے ضبط ِنفس کے ساتھ ماہِ رمضان میں زندگی گزاری، اسی طرح کی زندگی ہم بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی گزارنے کی کوشش کریں۔کسی نے اچھی بات کہی ہے کہ’’ عید اس کی نہیں جو فاخرہ یعنی عمدہ لباس پہنے بلکہ عید تو اُسی کی ہے جو آخرت کے عذاب سے بچ جائے‘‘۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس عید کو ہماری بخشش اور ہدایت کا ذریعہ بنائے اوراس عیدالفطر کے طفیل اللہ تعالیٰ ہماری دنیا اور آخرت کی زندگی خوش اور خوش حال بنائے۔آمین
رابطہ: وہی پورہ پلوامہ کشمیر
7006566968