مختار احمد قریشی
آج جب ہم عید الاضحٰی مناتے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم صرف جانور کی قربانی سے اپنا فریضہ ادا نہیں کر سکتے، جب تک کہ ہم اپنی زندگیوں میں نفس پرستی، خود غرضی، غرور، تکبر، حسد اور لالچ جیسے باطنی جانوروں کی قربانی نہ دیں۔ حقیقی قربانی یہ ہے کہ ہم اپنی انا کو ختم کریں، دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں، عاجزی اپنائیں اور ہر انسان کے ساتھ ہمدردی، محبت اور عدل کا رویہ اختیار کریں۔عید الاضحٰی ہمیں ایثار و قربانی کا سبق دیتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب مسلمان اپنے مال کا کچھ حصہ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ قربانی کا گوشت صرف اپنے لیے نہیں بلکہ رشتہ داروں، دوستوں اور خاص طور پر محتاجوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ بانٹا جاتا ہے۔ یہ عمل معاشرے میں مساوات اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔اس موقع پر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قربانی صرف جانور کی نہیں بلکہ وقت، جذبات، خواہشات اور وسائل کی بھی ہونی چاہیے۔ جو شخص اپنے آرام کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی مدد کرتا ہے، جو اپنی انا کو ختم کر کے کسی کو معاف کرتا ہے، جو اپنی ضرورت کو پیچھے رکھ کر کسی ضرورت مند کو ترجیح دیتا ہے، وہی درحقیقت قربانی کا اصل مفہوم سمجھ چکا ہے۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی خود غرضی، فخر و غرور، دکھاوا اور نمود و نمائش نے قربانی جیسے پاکیزہ عمل کو بھی ایک مقابلہ بنا دیا ہے۔ مہنگے جانوروں کی نمائش، سوشل میڈیا پر تصویریں اپلوڈ کرنا اور غرباء کو نظر انداز کرنا اس عبادت کی روح کے خلاف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سنتِ ابراہیمی کو محض رسم نہ سمجھیں بلکہ اس کے اصل مقصد کو سمجھ کر اپنائیں۔قربانی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کریں، ان کی مدد کریں، ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ عید ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمارے آس پاس ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو غربت، بھوک، بیماری یا تنہائی کے مسائل کا شکار ہیں۔ عید کے موقع پر اگر ہم ان لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لا سکیں تو یہی قربانی کا سب سے بڑا اجر ہو گا۔عید الاضحٰی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم اپنے دلوں میں اللہ کی محبت کو سب سے مقدم رکھیں۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی سب سے قیمتی شے یعنی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کیا، تو وہ اللہ کی محبت میں فنا ہو چکے تھے۔ یہ عمل ہمیں بتاتا ہے کہ ایمان کا معیار وہی ہے جو انسان کو ہر آزمائش میں صبر، رضا اور اطاعت پر قائم رکھے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم عید کے موقع پر نہ صرف جانوروں کی قربانی کریں بلکہ اپنے اندر جھانک کر یہ دیکھیں کہ ہماری ذات میں کون سی ایسی چیزیں ہیں جنہیں قربان کرنے کی ضرورت ہے۔ تکبر، غصہ، انا، خود پسندی، بے حسی یہ سب وہ رکاوٹیں ہیں جو ہمیں اللہ کے قریب ہونے سے روکتی ہیں۔ ان کی قربانی ہی دراصل روحانی پاکیزگی کی طرف پہلا قدم ہے۔ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اس عیدپر غریبوں کی مدد کریں، دلوں کو صاف کریں، محبتیں بانٹیں اور ہر انسان کی عزت کریں۔ یہی وہ پیغام ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے ہمیں اپنی سنت کے ذریعے دیا۔قربانی کا اصل پیغام یہی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ نیت خالص ہو اور دل میں تقویٰ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عید الاضحٰی پر حقیقی معنوں میں قربانی کرنے کی توفیق دے ۔عید کے ان مبارک لمحات میں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی روح کو جگائیں، اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور دلوں کی زمین پر تقویٰ، صدق، صبر اور شکر کے بیج بوئیں تاکہ ہم نہ صرف ایک بہتر مسلمان بلکہ ایک بہتر انسان بھی بن سکیں۔ عید الاضحٰی کا پیغام محض تین دنوں کے لیے نہیں بلکہ یہ سال بھر کے لیے ایک منشور ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا صرف عبادات نہیں بلکہ انسانیت، قربانی اور خلوص بھی ہے۔عید الاضحٰی ہر مسلمان کے لیے تجدید ایمان، تطہیرِ قلب، اور تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے۔ یہ محض ایک تہوار نہیں بلکہ ایک پیغام ہے، ایک درس ہے، ایک عمل ہے۔ قربانی کی یہ سنت ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کا مقصد صرف خود کے لیے جینا نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جینا ہے، اپنی خواہشات کو قربان کر کے دوسروں کی ضروریات کو اہمیت دینا ہی اصل عبادت ہے۔
رابطہ۔8082403001