حافظ میر ابراہیم سلفی
فرمان باری تعالی ہے کہ(ترجمہ)’’ایمان والو جوہم نےتمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہواس سے پہلے کہ وہ دن آجائےجس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ شفاعت۔‘‘(سورہ بقرہ 254)
عید سعید کی مبارک گھڑیاں ہم پر طلوع ہوچکی ہیں ،عید الفطر کے دن مسرت کا اظہار کرنا شعائر اسلام کی حیثیت رکھتا ہے۔عصر حاضر کے لیل و روز پر جب گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی ایک بڑی آبادی ظلم و ستم کی شکار ہے ،جن کا پورا رمضان بہتا ہوا خون دیکھ کر ہی گزرا۔ملت اسلامیہ کا ایک بڑا حصہ معاشی بحران کا شکار ہے کہ جن کے پاس سحری و افطاری کی ضرورت کردہ اشیاء بھی موجود نہ تھی۔اگرچہ نظام بیت المال پہلے سے زیادہ مستحکم بن چکا ہے لیکن تب بھی ابھی زمینی حالات ابتر ہیں۔زمینی سطح پر مزید فلاحی کام کرنے کی ضرورت ہے۔بندگان خدا جہاں اپنے لئے ،اپنے اہل خانہ کے لئے عید سعید کی ضرورت کردہ اشیاء خریدیں ،وہیں فریضہ اسلام ہے کہ محتاج و غربت کے مارے لوگوں پر نظر کرم کی جائے جو آس لگائے بیٹھے ہیں۔بیواؤں ،یتیموں ،مقروض افراد ،مفلسی و بے روزگاری کے شکار افراد پر نظر عنایت کی جائے تاکہ ملت کا یہ کمزور طبقہ عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہے۔
عید سعید کے موقع پر بازاروں کی رونق بعض طبقات کے دلوں پر زخم لگانے کا کام کرتی ہے ،ان زخموں پر مرہم لگانے کا کام اہل ثروت کا ہے جنہیں رب العزت نے اپنے فضل و خیر سے نوازا ہے۔ملت اسلامیہ جسم واحد کی مانند ہے ،اگر ایک عضو میں تکلیف ہو ،پورا بدن بے قرار ہوجاتا ہے۔معصوم بچوں کی چہل پہل بعض گلابوں کے لئے آہ و بکا کا سبب بنتی ہے۔ان فرشتہ صفت بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں پیار و محبت کے گیت سنائے۔بعض بیٹیاں اپنے سر کی چادر کے لئے ترس رہی ہیں ،والدین کا سایہ سر سے اٹھ چکا ہے ،ایسی رقیق القلب شہزادیوں کے لئے پردے کا انتظام کرنا ذی شعور و با غیرت افراد کا فریضہ ہے۔جو خود نہیں کما سکتے ،انکی کمائی کا ذریعہ بنیئے۔ملت کی حالت زار ہمارے سامنے ہے،جہاں ایک طرف بعض اقوام عیش پرستی میں کھوئے ہوئے ہیں ،وہیں دوسری جانب حالت کچھ اس طرح ہے ۔’’ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے۔‘‘اللہ کی رضا کا سب سے بہترین ذریعہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ ہم عید الفطر منانے والے ہیں، یہ خوشی کا دن ہے، لیکن ہمیں اپنی خوشی میں اس طرح مست نہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے غریب رشتہ داروں اور غریب پڑوسیوں کو بھول جائیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریںاور ان کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ان کی مالی مدد کی جائے تاکہ وہ بھی اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے اچھے لباس اور اچھے کھانے کا نظم کرسکیں۔
اللہ تعالی نے جو فضل و خیر عطا کیا ہو ،اس سے نفع حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ شریعت تو اس بات پر ابھارتی ہے کہ نعمتوں کا اثر ظاہر ہونا چاہئے۔لیکن اپنی دولت کی نمائش اس طرح بھی نہ کریں کہ غریبوں کی دل آزاری ہو۔جو لوگ سفید پوش ہیں ،وہ لوگ جو غربت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں،انہیں اس خوشی میں شریک کریں۔ملت کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کے اپنے جدا ہوچکے ہیں ،جن کے گھروں میں ماتم کی فضا چھائی ہوئی ہے۔جن کے گھروں کو ،جن کے اموال کو تباہ کیا گیا ،جن کی پرنم آنکھیں ملت کی بے حسی کی ترجمانی کررہی ہیں۔عید کے روز ایسے لاچار افراد کو نہ بھولیں۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ’’مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘(متفق علیہ)
جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا
پیغمبر اسلام کے شب و روز اسی فکر وعمل میں بسر ہوتے کہ کس طرح خلق خدا کی خدمت کی جائے اور ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔ اس میں امیرو غریب، بچے بوڑھے اور مردو عورت کی کوئی تخصیص نہ تھی، نہ ہی ان کے درمیان کوئی تفریق برتی جاتی تھی۔ پیغمبر اسلام نے خدمت کے معاملہ میں مکمل عالم انسانیت کو ایک خاندان کا درجہ دیا ۔اب یہ ذمہ داری اُمت کے کندھوں پر ہے ،اللہ تعالیٰ نبھانے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین
(رابطہ۔ 6005465614)