رئیس یاسین
عید محض ایک تہوار نہیں بلکہ اللہ کی نعمتوں پر شکر کا اظہار، عبادت و بندگی کا تسلسل اور خوشیوں کی تقسیم کا موقع ہے۔ لیکن افسوس! یہ خوشی سب کے لیے یکساں نہیں ہوتی۔ جہاں ایک طبقہ قیمتی ملبوسات،پُرتکلف ضیافتوں اور تحائف میں مشغول ہوتا ہے، وہیں دوسرا طبقہ دو وقت کی روٹی، بچوں کے لیے نئے کپڑوں اور عید کی بنیادی خوشیوں سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔یہ صورتحال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے ،کیا واقعی ہم عید منانے کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کیا عید صرف اپنی ذات اور خاندان کے لیے خوشیاں اکٹھی کرنے کا نام ہے؟ یا یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں؟اسلام ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل پر زور دیتا ہے، جہاں دولت چند ہاتھوں میں محدود نہ ہو بلکہ مستحقین تک بھی پہنچے۔ اسی لیے اسلام نے زکوٰۃ، صدقہ اور فطرانے جیسے احکامات دئیے تاکہ معاشرتی ناہمواری ختم ہو اور ہر شخص خوشیوں میں شریک ہو سکے۔ لیکن آج ہمارا رویہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ہوتا جا رہا ہے۔
زکوٰۃ، اسلامی معیشت کی بنیاد ہے، مگر اکثر لوگ یا تو اسے ادا ہی نہیں کرتے یا پھر غیر مؤثر انداز میں خرچ کرتے ہیں، جس سے غربت برقرار رہتی ہے۔اگر تمام صاحبِ نصاب افراد باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کریں اور اسے منظم طریقے سے مستحقین تک پہنچایا جائے تو کوئی بھی شخص بھوکا نہ رہے۔زکوٰۃ کو اجتماعی سطح پر جمع کر کے مستحق لوگوں تک پہنچانے کا منظم نظام ہونا چاہیے تاکہ اس کے حقیقی ثمرات سب کو مل سکیں۔بہت سے لوگ زکوٰۃ اور صدقات دیتے تو ہیں، مگر پیشہ ور بھکاریوں کو، جبکہ اصل مستحقین ہماری اپنی بستیوں، محلّوں اور رشتہ داروں میں موجود ہوتے ہیںجو اپنی خودداری کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ایسے لوگوں کو تلاش کرنا اور ان کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
عید کے موقع پر ہم اکثر غیر ضروری اخراجات میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہی اردگرد ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسمپرسی کے باعث عید کی خوشیوں سے محروم ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنی فضول خرچی کو کم کرکے اس رقم کو مستحقین کی مدد کے لیے وقف کریں، تو کئی گھروں میں عید کی خوشیاں بحال ہو سکتی ہیں۔اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے دیا جائے تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔گویا کسی کی مدد ایسے کی جائے کہ اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔مدد کا عمل اس طرح ہو کہ لینے والے کو محسوس نہ ہو کہ وہ کسی کے احسان تلے دب گیا ہے۔صدقہ فطر یا فطرانہ ہر صاحبِ استطاعت پر فرض ہے تاکہ مستحق افراد بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔فطرانہ عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے تاکہ ضرورت مند اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔بہت سے لوگ آخری وقت میں فطرانہ دیتے ہیں، جس کا فائدہ مستحق افراد کو صحیح وقت پر نہیں پہنچتا۔ اس لیے فطرانے کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانا چاہیے۔اگر ممکن ہو تو فطرانے کی رقم مقررہ مقدار سے زیادہ دی جائے۔بچوں کوبھی سکھائیں کہ جو عیدی انہیں ملتی ہے، اس میں سے کچھ حصہ ضرورتمندوں کے لیے نکالیں۔انہیں یہ سمجھائیں کہ حقیقی خوشی صرف خود مزے لینے میں نہیں بلکہ دوسروں کے چہروں پر خوشی لانے میں ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم عید کی حقیقی روح کو سمجھیں اور اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کے بارے میں بھی سوچیں۔اگر ہم کسی ضرورت مند کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکیں،کسی یتیم بچے کو عید کے نئے کپڑے دلا سکیں،کسی بیوہ کے گھر میں عید کی خوشیاں پہنچا سکیں،تو یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔عید میںبھیسادگی اپنائیں، ہمدردی بانٹیں اور حقیقی خوشیوں کا دن بنائیں
[email protected]