عید کا موقع دنیا بھر میں مسلمانوں کےلیے خوشی اور مسرت کا پیغام لاتا ہی ہےمگر بچوں میں اس اسلامی تہوار کیا کہنا،اور کیوں نہ ہو ایسا کہ عید تو پہلے بچوں کی ہے، بڑے بھی بچوں کی خوشی میں خوش ہوجاتے ہیں۔
عید میں جہاں بچے نئے جوڑے، نئے جوتے اورموج مستی کرتے ہیں وہاں انہیں عیدی بھی تو دی جاتی ہے۔ مسلم معاشرہ مشرق میں ہو یا مغرب میں، شمال میں ہو کہ جنوب میں، ہر معاشرے میں عید کا تہوار منانے کا طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہےمگر پوری دنیا کے مسلم معاشروں میں یہ قدر مشترک پائی جاتی ہے کہ وہ بچوں کو عیدی ضرور دیتے ہیں۔سعودی عرب یا خلیجی ممالک ہوں، پاکستان اور انڈیا ہو یا پھر مصر وشام یا پھر مشرق بعید کے ممالک، ہر ایک میں عید کا تہوار منانے کا طریقہ کار نہ صرف مختلف ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی آتی رہی ہیں مگر جوچیز زمانے کے ساتھ نہیں بدلی وہ عیدی ہے، ہاں البتہ جدید دور کے ساتھ اس میں بھی اب جدت آگئی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں عیدی آئی کہاں سے؟
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدی دینے کی روایت کا آغاز مصر میں فاطمی ریاست کے دور سے ہوا جہاں خلیفہ وقت عید کے موقع پرسپاہیوں اور فوج کے جرنیلوں کو عطیات اور تحفے تحائف دیتے تھے۔ بعد ازاں اعیان سلطنت نے بھی خلیفہ کی دیکھا دیکھی اپنے ماتحتوں کو تحفے دینا شروع ہوگئے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جہاں فاطمی ریاست کے وسائل، مسائل سے زیادہ ہوگئے تو خلیفہ کی طرف عوام الناس کو رقوم کے علاوہ عید کے جوڑے تقسیم ہونے لگے۔ بس پھر کیا تھا، لوگوں کو تو کوئی بہانہ چاہیے، جلد ہی عوام میں یہ رجحان عام ہونے لگا اور وہ عید کے موقع پر بچوں میں چھوٹی موٹی رقوم اور جوڑے تقسیم کرنے لگے۔مصر میں فاطمی ریاست عروج پر پہنچنے کے بعد زوال کا شکار ہوگئی مگر اپنے پیچھے عیدی کی روایت چھوڑ گئی۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس روایت کو برقرار رکھا۔عثمانی ریاست کے دور میں بھی عیدی دینے کی روایت کے ثبوت ملتے ہیں مگر اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی یہ ہوئی کہ جسے عیدی دی جا رہی ہوتی ہے اسے اس کی حیثیت کے مطابق عیدی دی جانے لگی۔ وزرا اور اعیان سلطنت کو سونے کے سکے دیے جاتے تھے۔ ان سے کم رتبے والوں کو چاندی کے سکے ملتے تھے ۔ اسی طرح رتبہ کم ہوتے ہوتے جب معاملہ بچوں تک پہنچتا تو چند سکے انہیں بھی دیے جانے لگے۔
اس وقت سے لے کر آج تک عید کے تہوار میں بچوں میں عیدی دینے کی روایت مستحکم ہو گئی۔
سعودی عرب میں دیگر ممالک کی طرح عیدی کی روایت برقرار ہے۔ مقامی بینک کی ملازمہ فاطمہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عید کی تعطیلات سے پہلے بزرگ شہری نئے چھوٹے نوٹ لینے بینکوں کا رخ کرتے ہیں۔ کڑک نوٹ اس لیے حاصل کیے جاتے ہیں تاکہ خاندان کے بچوں میں عیدی تقسیم کی جائے۔یہی حال کم و بیش تمام مسلم ممالک کا ہے جہاں عیدی دینے والے بینکوں سے نئے کڑک نوٹ حاصل کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں تو یہ جدت آگئی ہے کہ انسٹا گرام اور فیس بک پر بعض لوگوں نے یہ کاروبار شروع کر رکھا ہے کہ چھوٹے کڑک نوٹوں سے گل بوٹے اور گفٹ پیک تیار کرکے فروخت کرنے لگے ہیں۔ انسٹاگرام پر ایسے نوٹوں بھرے گفٹ پیک کی تصویریں عام ہیں۔سعودی خانوادے بچوں میں عیدی ایسے ہی تقسیم کرتے ہیں اور اسے خوش نما شکل میں پیش کرنے سے بچوں کی خوشی دوگنی ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے گفٹ پیک بنانے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ 5،5 ریال کے گفٹ پیک تیار کریں ، پیکٹ میں چاکلیٹ اور ٹافی وغیرہ بھی ڈالی جاتی ہے۔اس طرح میں بہت سارے مسائل سے بچا جاتا ہے کہ چھوٹے نوٹوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ مصر میں گو کہ معاشی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ مقامی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس کے ساتھ مہنگائی اور افراطِ زر کا عالم ہے مگر اس کے باوجود عیدی دینے کی روایت وہاں بھی برقرار ہے۔مصرمیںمعاشی حالت انتہائی خراب ہونے کے باوجود کچھ نہیں تو 10،10 مصری پاؤنڈ کے نوٹوں کی عیدی تو ہر کوئی دیتا ہے ۔ اس سے بچے خوش ہو جاتے ہیں۔ مصرمیںمہنگائی اور مقامی کرنسی گرنے کی وجہ سے حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ اب لوگ عیدی کے لئے صرف خاندان کے قریب ترین افراد کے یہاںعید کے موقع پر ملتے جلتے ہیں اور موقع کی مناسبت سے بچوں بچیوں میں عیدی دینی ضروری ہوتا ہے۔ باقی خاندان والے اور دوست احباب سے ملنے ملانے سے مڈل کلاس لوگ کتراتے ہیں تاکہ عیدی نہ دینے کی خفت سے بچ جائے۔ مصر کے مقابلے میں امارات میں عیدی کا تصور مختلف ہے۔ اماراتی بچوں بچیوںکو انہیں انتہائی خوشی ہوتی ہے جب کوئی وقت کے حساب سے انہیں ڈھنگ سے عیدی دیتا ہے۔ چھوٹی موٹی عیدی سے ان کاکیا بنتا ہے۔ اگر کسی کو عیدی دینی ہے تو معقول رقم دے کر کچھ رنگ جم جاتا ہے۔
سعودیہ میں عیدی کے حوالے سے ایک عجیب بات یہ بتائی جاتی ہے کہ بعض خواتین اپنے بچوں سے ملنے والی عیدی کی تفصیل اپنے پاس نوٹ کر لیتی ہیں۔ مہمانوں کے جانے کے بعد ہر ایک بچے سے پوچھا جاتا ہے کہ کس مہمان نے کتنا دیا۔ وجہ یہ ہے کہ جب وہ مہمان بن کر ان خواتین کے گھر جاتی ہیں تو ان کے بچوں کواتنی ہی رقم دیتی ہیں جتنی ان کے بچوں کو دی گئی ہے۔ سعودیہ کے ایک معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر عطیہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ عیدی بچوں میں بچت کی تربیت کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔ بچوں کو سکھایا جائے کہ وہ عیدی کو محفوظ رکھیں اور اپنی ضرورت کی چیزوں پر خرچ کرنے کے بعد اس میں سے کچھ رقم بعد میں خرچ کرنے کے لیے محفوظ کر لیں۔ وہ اس پہلو سے بھی توجہ دلائی کہ ایک خاندان کے بچوں میں جب عیدی دی جائے تو سب کو برابر کی رقم دی جائے۔ کسی کوکم کسی کو زیادہ دینے سے بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک سماجی لائحہ عمل ہے ۔