ملت اسلامیہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ دنیا میں انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی خالق کون و مکان نے حضرات انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو محض اس لئے مبعوث کیا کہ نوعِ انسانی اپنے اصل مقصد ِتخلیق سے آگاہ ہو اور خالق کے ساتھ اپنے رشتہ کی نزاکت و اہمیت سے باخبر ہوکر ہر زمین و زمن میں اللہ رب العزت کی کبریائی ویکتائی کا پرچم ِمعبودیت بلندکرتی رہے۔ ان ہی پاک نفوس ہادیان اقواقم وملل میں میں ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا علیہ ا لصلوٰ ۃ و السلام شامل ہیں ۔اس بطل جلیل کا نام نامی آسمانِ ہدایت پرمہر نیم روز کی طرح دمکتا چمکتا رہے گا جو پیدا تو ایک بت گر وبت فروش اور بت پرست کے گھر میں ہوا لیکن فطرتاً بت شکن تھے ۔تاریخی شہر اُرؔ میں جنم لینے والے ابوالانبیاء نے صفحۂ دہر پر راہ ِحق میں ایثار ،واخلاص ،ثات قدمی اور دعوت کے میدان میں توحید اور تسلیم ورضا کی ایسی زریں تاریخ رقم کی کہ ہر دور میں راہ روانِ راہِ حق زندگی کی تاریک راہوں میں اس سے فکر وعمل کی روشنی پاسکتے ہیں۔ نبوت ورسالت کی دنیا میں ابراہیم ؑ نقطۂ اتصال ہیں تما م نسبتیں آپ ؑ پر آکر رُک جاتی ہیں ۔یہی وجہ کہ یہود و نصاریٰ ، مشرکین اور نام لیوایان ِاسلام سبھی اس مردِ حق کے ساتھ اپنا انتساب موجب فخر سمجھتے ہیں لیکن اللہ رب العزت نے اپنے اس منتخب فرستادۂ حق وصداقت کی تعلیمات سے منحرف مغضوب یہودد اور گمراہ نصاریٰ اور نجس مشرکین کی بایں الفاظ تنبیہ کی ہے :ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ باطل نظریہ سے الگ رہنے والے خالص مسلمان تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے(آل عمران۔۶۷) ۔ اس بر ملا اعلان کے بعد بھی مشرکین مکہ اور اہل ِکتاب آپ ؑ سے اپنی نسبت بایں سبب قائم رکھنے پر بضد تھے کہ اس نام سے جہاں اُن کی سیادت و قیادت کا بھرم قائم تھا، وہاں ان کے چولہے بھی اسی پاک نام کی رَٹ لگاکر جلا کرتے تھے ،نتیجتاً قرآن کو واضح اعلان کرنا پڑا کہ میرے اس فرستادہ ٔ حق سے تعلق و ارتباط کی شرائط کو تم پورا نہیں کرتے تو تمہارا اس کے ساتھ کیا لینا دینا ؟؟؟خالی نسبتوں کے دعاوی آخرت میں کس کام کے جب تک تم اُس جادۂ حق پر پوری ثابت قدمی کے ساتھ نہیں چلتے جس کی نشاندہی سیدنا ابراہیم ؑ نے فرمائی ہے؟دوٹوک الفاظ میں کتاب الٰہی نے کہا :’’بے شک تمام لوگوں میں ابراہیمؑ سے (نسبت کے)سب سے زیادہ حق دار وہی لوگ ہیں جنہوں نے اُن کی اتباع کی اور یہ نبی (محمدؐ)اور جو اِن پر ایمان لائے۔(آل عمران۔۶۸)
یہ جو آج بساطِ ارض کے کوچہ و بازار ،شہر و دیہات اور دشت و بن میں مسلمانانِ عالم غم و اندوہ کے ہزارہازخم اپنے قلوب و جگر میں پالتے ہوئے بکمالِ مسرت قربانی کا فریضہ انجام دیتے جارہے ہیں ، وہ اس حقیقت سے باخبر ہوں کہ جب تک کوئی بھی عبادت اُس کی روح کو سمجھ کر نہیں کی جاتی اور اُس عبادت میں اخلاص و للٰہیت کا بے عیب جذبہ کارفرما نہ ہو ، قرآن و سنت کا خلاصہ ہے کہ وہ عبادت شرفِ قبولیت سے محروم ہوجاتی ہے۔ان قربانیوں میں نمود کا شائبہ ہو اور نہ نمائش کا کوئی عنصر ۔ خدا لگتی بات یہ ہے کہ ہماری اجتماعی خامیوں میں یہ بہت بڑا سقم بھی موجود ہے کہ قربانیوں کے موقع پر بھی ہم محض اپنی ’’ناک ‘‘کا بھرم قائم رکھنے کے لئے وہ سب کچھ کرتے ہیں جس کا اسلام اور قربانی سے دور دور تک کا بھی کوئی ربط و تعلق نہیں۔یہ دُرست ہے کہ قربانی کا یہ عمل اول روز بھی جتنا جلد کیا جائے ،مسنون بھی ہے اور فرمودہ بھی،اس کے لئے کئی روز پہلے قصائیوں اور ذبح کرنے والوں کو پہلی عید کے روز سویرے گھر آنے کا مکلف بنانے کا عمل بھی مستحسن ، اگر سنت سے محبت کا اظہار ہے لیکن دل کے تہ خانے میں مچلتی خواہش اگر یہ ہے کہ نعوذ باللہ اس پریشانی سے فوراً چھٹکارا ملے تو پھر ایام عید میں کھلے ڈھلے اقارب سے ملیں ،گپ شپ ہو،عیش و نشاط میں قربانی کا یہ عمل مخل نہ بنے،رقص و سرور کی محفلوں میں یہ سدراہ نہ بنے ،تو پھر کسی اور سے نہیں خود اپنے ضمیر سے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم روح قربانی سے آشنا بھی ہیں ؟یہ بات بر سبیل تذکرہ آگئی ، مقصد گفتگو تو بس یہی کہ جس مردِ حق اور بطل جلیل کی قربانیوں اور صبر و ثبات کو آج ہم ڈیڑھ ارب لوگ دنیا بھر میں یاد کررہے ہیں، اُس نے تو اپنی ساری مبارک زندگی راہِ حق میں تُج دی۔والد کو دعوت حق دینے کے بدلے قہر و غضب کا شکار ہونا،قوم کے سامنے اعلائے کلمتہ الحق کی پاداش میںقہر و ستم کو دعوت د ینا ، بھرے دربار میں جابر و قاہر اور متکبر و مغرور بادشاہ کی انانیت اور خدائیت کو للکارنا ،کیا یہ سب کوئی بچوں کا کھیل تھا، یہ تو لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا ۔ کیاعراق سے فلسطین ،وہاں سے مصر ،پھر وادیٔ غیر زرع مکہ کی آبلہ پائی کوئی تفریح تھی؟ہجرتوں کی مشکلات اور فاقہ مستیوں کا کرب، کیا یوں ہی کوئی مشغلہ تھا ؟ چٹانوں کا جگر پانی کرنے والا وہ عمل کہ شاداں و فرحاں نارِ نمرود میں ایسے کود نا کہ جبین پہ کوئی بَل اور نہ قدموں میں کوئی لغزش اور پھرآخری سخت اور کڑا امتحان مانگے ہوئے لاڈلے اور نوجوان ِر عنابیٹے ( اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام )کے مبارک حلق پر چھری چلانے کا ا متحانی عمل کہ زمین ششدر ،آسمان حیران اور جن و انس د م بخود لیکن آپ ؑ کے پائے ثبات میں کوئی ڈگمگاہٹ نہیں۔دراصل حصول حق مراد تھی اور اس نعمت کو حاصل کرنے کے مقابلہ میں ماں باپ ،بادشاہ ،اقتدار ،وطن اور بیوی بچوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور بندۂ مولا اس راہ سے گذرتے ہوئے حسب ِ ارشاد الہیٰ جا ن کی بازی لگاکر بھی بزبان حال کہتا ہے ؎
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
دراصل ابراہیمؑ تسلسل کے ساتھ قربانیوں کی جو تاریخ مرتب کررہے تھے ، وہ اُسی عہد و اقرار پر عمل کا اظہار کرنا تھا جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ’’جب اس کے رب نے اُس سے کہا کہ جُھک جا،تو اُس نے کہا کہ میں جُھک گیا ،’’ہاں‘‘ یہی جھکنے کا عمل جو ہے، اُس کی شکل محض ظاہری نہ ہو بلکہ ہر شعبہ ٔ حیات پر مولا کی حکمرانی عملاً نافذ ہو ۔اقتدار بر افروختہ ہو یا صاحبان ِ اختیار ناراض ہوں ،والدین اور رشتہ و پیوند، حق گوئی بے باکی میں رکاوٹ بنیں یا بیوی بچوں کی محبت آڑے آئے،ہر حال میں قلب و روح پر بس ایک اللہ کی محبت غالب ہو اور اس کا اظہار اُس کی عملی زندگی سے شب و روز ہوتا ہو ——— آپ جانتے ہیں کہ سیدنا ابراہیمؑ کے پاک نام کا عالم میںجو غلغلہ ہے اور تا قیام قیامت رہے گا ،اسے رہنا ہی تھا ،اُس نے عہد ِ وفا نبھایا تھا اور سرکار رب العالمین سے سند فضیلت یہ ملی کہ جا اے میرے پیارے !میں نے تمہیں ساری انسانیت کا پیشوا بنا دیا ۔ ‘‘ اپنی ذریت و نسل سے محبت ایک فطری بات ،جب ان کے بارے میں سوال ہوا کہ اُنہیں کیا ملنے والا ہے تو جواب ذرا گوش ہائے دل سے سنئے کہ رونگٹھے کھڑے ہوں،کہا گیا کہ یہ عہد ظالموں کے ساتھ نہیں ‘‘۔بھلا بتایئے یہ ظالم کون ہیں جو ابراہیمی نسل سے بھی ہوں ،مسلمان بھی ہوں،حق کی حمایت کے دعویدار بھی ہوں۔وہی نا جنہوں نے حق سے اعراض کیا ،بندگی کا اقرار تو کیا لیکن جبین کہیں اور جھکادی ،ماتھا کہیں اور رگڑا ،امید کی نظریں کسی اور جانب اُٹھیں ،قربانی کے لئے پیسہ اور وقت نہیںلیکن سوا اللہ کے آگے نذر و نیاز کے لئے ہر چیز میسر ہے ،حق و باطل کے رزم آرائیوں کے موقع پر صادقین کے ساتھ کھڑا رہنا اس لئے قبول نہیں کہ حقیر ذاتی مفادات پر ضرب پڑسکتی ہیں ۔ اعلائے کلمتہ الحق سے اس لئے اعراض کہ کیا’’ میں نے ہی کیا ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑہ اُٹھایا ہوا ہے‘‘ ۔اللہ ،اُس کے رسول ؐ سے محبتوں کا بلند بانگ اظہار اور حبِ رسول کے حوالے سے واقعاتِ اسلاف سن کر سر دُھننا اور رونا دھونا لیکن عملی دنیا میں جہاں اوامر و نواہی کا معاملہ آئے ،وہاں پھر وہ راستہ اختیار کرنے میں کوئی باک محسوس نہ ہو کہ جسم و جان پر کوئی خراش لگنا تو بڑی بات ،حقیر مفاد کو بھی کوئی زک نہ پہنچے ۔نعت گوئی اور نعت خوانی کے دوران اپنے اولاد و اموال قربان کرنے کا زبانی عہد لیکن نہ اموال راہ حق میں لٹانے کا جذبہ اور نہ اولاد کی ایسی تربیت کا کوئی بندوبست کہ اسماعیلی ؑصفات اور صا لحیت کا عکس دور سے نظر آئے۔بس ہم ہر میدانِ گفتار میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے عمل میں مصروف ہیں مگراپنی پسندو ناپسند کے دائروں سے باہر آکر صرف کامل طور قرآن و سنت کی رہبرورہنما بنانے پر آمادہ نہیں اور افسوس صد افسوس کہ اس انتشار و افتراق کو کچھ صاحبانِ جبہ و دستار بھی ہو ا دے رہے ہیں ۔ہائے وہ اُمت! جس نے ایک لڑی میں اپنے کو پروکر قیصر و کسریٰ سے دھول چٹوادی تھی ،اُس وقت جب اُسے دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی بھی میسر نہیں تھی ۔آج مادی نعمتوں کی ھن برس رہی ہے اور ہم شکم سیرہوکر بھی تسلی نہیں پاتے ۔تعداد ایک ارب سے زیادہ مگر اہمیت و حیثیت سمندر کے جھاگ سے زیادہ نہیں ۔کس ملک یا خطے میں ہم فیصلہ کن قوت بن کر کھڑے ہیں؟کہاں ہماری آواز یا آراء کو وزن دیا جارہا ہے ؟کہاں ہماری ناراضگی سے کسی کو کوئی پریشان ہورہی ہے؟کون سا معاملہ ہم سے مشورہ لئے بغیر رُک جاتا ہے؟دنیا کے فورموں میں معزز اراکین کی فہرست میں ہمارا نام ضرو ر شامل ہے لیکن کام کیا ہے؟مقام کیا ہے؟کچھ بھی تو نہیں۔شام ، فلسطین،لبنان ،مصر ،یمن ،بوسنیا ،چیچنیا ،افغانستان ،ترکی،پاکستان اور ارض وطن تصاویر غم و اندوہ پیش کر رہے ہیں،انسانی لہو سے اللہ کی زمین تر بہ تر ہے۔ اپنی اس وادی مینو سواد میں بھی مدت ِ مدید سے ہلاکتوں وتخریبوں کا رقص بسمل جاری ہے۔ جائزحق مانگ رہے ہیں ہمارے لوگ،ہمارے عزیز پیروجوان ، بدلے میںجبر ملتا ہے ،قہر برستا ہے ،اس پر ستم در ستم یہ کہ ہم اغیار کے خاکوں میں رنگ بھرتے ہوئے دین و مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے بھی بر سر جنگ ہیں، باوجود یکہ ہمارا دین ایک ،اللہ ایک ، رسولؐ ایک، قرآن ایک ، کعبہ وقبلہ ایک ہے ۔اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ ہم میںبھانت بھانت کی بولیاں اور اَن گنت ٹولیاں ہیں۔عداوتیں، نفرتیںاور کدورتیں اپنے عروج کو چھو رہی ہیں۔بھلا بتائیے جب ہم ایک دوسرے کو بہ نگاہ نفرت ترچھی آنکھ سے دیکھ رہے ہوں ،ایک دوسرے کے دین و ایمان پر شک کررہے ہوں تو مددِالٰہی کہاں سے آئے گی ؟ قرآن نے تو یہی کہتا ہے نا : ’’جب تم بکھر جائو گے تو تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی ‘‘۔اس لئے لازم ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو نصرت ِمولائے کریم ضرور آ کے رہے گی۔انشاء اللہ
یہ بھی واضح رہے کہ آج جس سیدنا ابراہیمؐکی یاد پورے ذوق و شوق سے ہمارے دِلوں میں موجزن ہے ۔آپ ؑ قطعاً باطل کا انکاری تھے اور ہم کہاں کہاں باطل سے سمجھوتہ نہیں کرتے دانستہ بھی اور غیر دانستہ بھی۔سیدنا ابراہیمؑ کو جس جابر و قاہر بادشاہ سے پالا پڑا تھا اُس نے علامتی خدائی کا نہیں بلکہ الوہی اقتدار و اختیار کا دعویٰ کیا تھا مگر اللہ کا یہ عظیم فرستادہ یکہ و تنہا اُس کے خلاف ایسے ڈٹ گئے کہ آج بھی نمرود ی مزاج کے لوگوں کا جگر پانی ہوجاتاہے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کی ذات کے سوا کسی اور کی الوہیت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہ تھے اور عملی دنیا میں یہ بات ثابت کرکے دی کہ حق و باطل میں مفاہمت،یارانہ پانی اور آگ کی طرح بعیدازعقل وفہم ہے اور باطل کی دوئی پسندی سے ہاتھ ملانا تودور،اس پر مصلحت آمیز خاموشی کا لبادہ ا وڑھنا بھی ایمان شکن عمل ہے ۔آج ہم مفاہمت (Compromises)کرنے والے دور سے ہی گذر رہے ہیں مگر مفاہمت اُدھر بجا جہاں توحید کی Red line کراس نہ ہوتی ہو۔توحید !ہاں توحید خالص ایمانی اور روحانی قوت جس روح وبدن کو عطا کرتا ہے ،جس وجہ سے انسان کی شخصیت میں مضبوطی ، ارادوں میں ثبات، کردار میں یک روئی اور عقاید میں استحکام آجاتا ہے ۔آج ہم اس توحید کی اصل روح سے محروم ہیں۔ہماری تعداد کروڑوں اربوں لیکن وائے ! چلتی پھرتی زندہ لاشیں بنی ہیں ہم ع
تیرا تن روح سے ناآشنا ہے
کہہ کراقبال ؔتب بھی رویا تھا اور بخت و اقبال کے خواہش مند آج بھی روتے ہیں۔قرآن نے یہ جو سیدنا ابراہیمؐ کو ’’اُمت قانت‘‘کہا ہے ،اس کے معانی میں ڈوب ڈوب جایئے تو گرہ کشائی ہو گی کہ وہ توحید کے بے مثال علمبردار بنے ،جان و مال ،احفا و واولاد اس پر قربان کرنے کا عملی اقدام کیا تو قرآن کی زبان میں ’’آخرین کے لبوں پر یہ ذکر جاری رہے گا‘‘کتنی معجز نما ہے،یہ قرآنی پیش گوئی،یہ امت کتنی بھی لٹے پٹے ،ہم کتنے بھی گئے گذرے ہوں لیکن ابراہیمؑ سے ہماری نسبت باقی ہے اورباقی رہے گی،ان شاء اللہ۔بس یہی ہماری متاع بھی اور پہچان بھی۔اس نسبت کو سر سبزوشاداب رکھنے کے لئے بُت پندار کو توڑیئے،دنیائے دِل میں صرف مولا کو بسایئے اور اُمت کی سربلندی کے لئے اپنے تمام بتانِ رنگ وبو مٹاکر ملت میں گم ہوجایئے ۔اقبالؔ کے ان سد ابہار اشعار کو صدائے دل اورا پنا پیامِ ضمیر بناکر اپنی گفتگو کا خاتمہ کرتا ہوں ؎
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ ؑکے دریا میں پھر ہوں گے گہر پیدا
کتابِ ملت بیضا ء کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ِہاشمی ؐکرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
پرے ہے چرخِ نیلی نام سے منزل مسلمان کی
سیارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ آسمان تم ہو
بتانِ رنگ و خوں کی توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
براہیمیؑ نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں