برکتوں اور سعادتوں کا مہینہ اختتام پذیر ہواچاہتا ہے اور مسلمانان عالم عید الفطر منانے کی تیاریوں میں جٹ گئے ہیں۔اُمت مسلمہ کیلئے عید محض کوئی روایتی یا محدودالمعنیٰ تہوار نہیں ہوتا بلکہ عیدسے دل کی شاد مانی اور روح کی طمانیت کا تقویٰ شعارانہ مظاہرہ ہوتا ہے ۔ بنابریں رمضان کو الوداع کہنا اور عید کا استقبال کر نا ایک ہی سکے کے دورُخ تصور کئے جاتے ہیں ۔ رمضان کی روزہ داری کا مطلب پورے ایک ماہ تک خلوصِ دل کے ساتھ بدنی اور مالی عبادات میں انہماک و مشغولیت ہے۔ تاہم روزوں سے صرف صبح تاشام نری فاقہ کشی مراد نہیں لینی چاہیے بلکہ ان سے مسلمانوں کی رَگ رَگ میں ضبط ِ نفس، تزکیۂ قلب ، بھائی چارے ، ہمدردی اور غم گساری کا تازہ دم لہو دوڑا نا مطلوب ہوتا ہے۔صوم وصلوٰۃ سے فرد اور سماج کے ایمانی جوش و خروش میں واقعی اُبال آنا چاہیے جب کہ روحانی سطح پر صیام کی حیات بخش کیفیات روزہ داروں کو بندگان ِ خدا کے تئیںمائل بہ کرم کر نی چاہیے ۔ یہ مقصد حاصل ہوا تو روزوں کا اجر وثواب جہاں عرش میں قلم بندہورہے نامہ ٔاعمال میں درج ہوتا ہے ، وہاں فرش ِزمین پر خدا خوفی ،انسا ن دوستی اور احساس جوابدہی کی بہاریں لازم وملزوم بنتی ہیں۔ وادی کشمیر میں روایتاًعید سے ہفتہ عشرہ پہلے ہی بازاروں میں چہل پہل اوررونقیں شروع ہوجاتی ہیں، جابجا عید خریداری کا رَش بڑھ جاتا ہے ، لوگ بے تحاشہ خرید وفروخت کر کے عید کی تیاریوں میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اس سے کاروباری سرگرمیوں کے چار چاند ضرور لگ جاتے ہیں مگر بسااوقات کام ودہن کی لذت یابیوں میں روزوں کا اصل پیغام بھی آنکھوں سے اوجھل ہوکر رہ جا تاہے ۔ بہرصورت اس بار یہاں چونکہ صیام کے دوران پے درپے خون آشام واقعات کے پس منظر میں عسکریت پسندوں سمیت شہری ہلاکتیں اور دوسری تباہ کاریاں پوری فضا کو سوگوار کر گئیں ،اس لئے متاثرہ علاقوں کے بازاروں میں مقابلتاًروایتی گہما گہمی مفقود رہی اور متاثرہ گھرانے بھی اشک بار ہیں ۔ بایں ہمہ ہر بار کی طرح اس مر تبہ بھی عید تیاریوں اور عید منانے کے طور طریقوں کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں مثبت اور منفی روئیے دیکھنے کو ضرور مل رہے ہیں۔سنجیدہ فکر اور باشعور لوگ خوشی کا یہ دن اخلاقی اقدار اور اعتدال کے اصولوں کو اپناتے ہوئے مناتے ہیں جب کہ عوام کا ایک مخصوص طبقہ عید کو عیاشیوں ، کثیر خوریوں ،فضول خرچیوں اور لہو ولعب کا موقع سمجھ کر نا روا طریق عمل اختیار کرتا رہتا ہے۔ حد یہ کہ اس قماش کے لوگ عید منانے میں اسلامی تعلیمات سے منحرف ہونے تک میں کوئی قباحت نہیں سمجھتا، انہیں پیسے کو پانی کی طرح بہانے سے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے ۔ لہٰذا بڑے دن کے نام پر یہ سماجی اخلا قیات سے ماوراء حرکات کا شوق سے مرتکب ہو تا رہتا ہے۔ دوسری جانب تاجروں کا ایک خود غرض طبقہ عید کوخریداروں کی کھال اڈھیڑ کر ناجائز منافع خوری کر نے اور اصل کی جگہ ناقص مال بیچنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا ۔یوں مقدس دن کی آڑ میں معاشرے میں وہ دھماچوکڑی مچ جاتی ہے کہ گمان یہ گزر نے لگتاہے کہ رمضان المبارک کی غایت ِاولیٰ فوت ہوکر ایک ماہ طویل عبادتیں ایک بے لنگر جہاز کی مانند اپنی سمت اور معنویت کھو گئی ہیں۔یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ عید کی خوشیاں معقولیت کے ساتھ منانے کی بجائے کسی بھی طرح کی بے ہودہ حرکات قطعاً ایک مسلم معاشرے کے شایانِ شان نہیں۔ مزیدبرآں عید منانے کے تعلق سے وادیٔ کشمیر کے مسلمانوں پراضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس زریں موقع کو نامساعد حالات میں اپنے عزیزوں کو کھونے والے کنبوں ، حالات کے ستائے ہوئے گھرانوں، اسیران ِ زندان ، یتیموں ، بیواؤں، دین دکھیوں کے تئیں اپنی اخلاقی ذمہ داریاں پوری کریں ۔ہم یہ بھول نہیں سکتے کہ کشمیر وہ بدنصیب خطہ ہے جہاں گزشتہ ستائیس سال سے خوشیوں کے لہلاتے چمن نہیں بلکہ جگہ جگہ غموں کے خار زار اُگتے چلے آرہے ہیں ۔ اس عرصہ کے دوران وادی کی مسلم آبادی نے انفرادی اوراجتماعی سطحوں پر بے بیان مصیبتوں اور تکلیفوںکا سامنا کیا ،افسوس کہ یہ ناگفتہ بہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ جہاںایک لاکھ سے زائد انسانی زندگیاں فنا کے گھاٹ اُتری ہوں ، ہزاروں کنبے اور لاکھوں خاندان سوگوارہوں ، عزتیں لٹی ہوں ، قبرستان آبا دہوئے ہوں ، لوگ زیر حراست لاپتہ ہوئے ہوں ، نیم بیواؤں کی ایک فوج موجود ہو ، بستیاں اُجڑ گئی ہوں، زندان خانے بھر گئے ہوں، ایسے بد نصیب خطہ ٔ زمین میں عید اور یوم عاشورہ میں فرق کر نا کیا مشکل نہیںہو جاتا ؟ کشمیرایک ایسے ہی زخم زخم معاشرے کی تصویر پیش کر تاہے ۔ اس لئے جہاں ستم زدگان اتنی بڑی تعداد موجود ہو، وہاں عید جیسے مقدس دن کو مناتے ہوئے عوام بالخصوص صاحب ِثروت لوگوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا وہ معاشرے کے ان تباہ حال لوگوں کے تئیں اپنی دینی ،انسانی اورسماجی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ سچ پوچھئے توعید کی خوشیاں سمیٹتے ہوئے ہر سنجیدہ فکر شخص کو چند ثانیے ٹھہرکر اس بابت ضرورسوچنا چاہیے۔مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنی خوشیاں معطل کریںیارنج و غم کو اپنے گھر آنگن کا اوڑھنا بچھونا بنائیں ، قطعاً نہیں۔ مایوسی اور دوں ہمتی کوئی صحت مند سماجی روش نہیں بلکہ لوگوں کو حالات کے متاثرہ طبقے کاغم غلط کر تے ہوئے عید کی خوشیاں اُن لوگوں سے بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ان کے مغموم و متوحش دلوں کو چند گھڑیاں قرارآئے ۔ یہ روش اہل ایمان کے لئے عمل اور عقیدے کا تقاضا بھی ہے اور روزہ داری کے حوالے سے مواسات و مواخات کا اظہار بھی کہ کلمہ خوان ہرخوشی کے موقع پر دُکھی انسانیت کو خصوصی طور یاد رکھیں ، غم زدگان کی دل جوئی کر یں،ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، خاص کر حالات کے مارے مصیبت زدہ مستحق ِامداد کنبوں اور افراد کی مالی اعانت کریں۔ لوگ بے شک اپنے بچوں کی خوشی کیلئے رقومات خرچ کریں لیکن ان یتیم بچوں کا بھی خیال رکھیں جن کے کفیل پرتشددحالات کا شکار ہوکر جاں بحق ہوئے ، لاپتہ کئے گئے یا نظر بند ہیں۔ ان حوالوں سے اپنی دینی اور اخلاقی ذمہ داریاں نبھانا یقینا مقبولِ بار گاہ عمل ہے لیکن اگربالفرض ہمارے یہاں اس کے برعکس صورت حال پائی جائے تو روزوں کی اصل مقصدیت فوت ہونے میں دورائے نہیں۔ مختصراً یہ کہ عید کے پاک ومتبرک دن پر یتیموں ، بیوائوں اور ستم زدہ کنبوں کی خبر گیری کرکے ہم اپنی معاشرتی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے روزوں کا بھی حق ادا کریں ۔ علاوہ بریں برس ہا برس سے جاری ناگفتہ بہ حالات کے تھپیڑے اس قوم کو اس حد تک متحد کر نے چاہیے کہ لوگ بخوشی ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں شریک وسہیم ر ہیں۔ موقع کی مناسبت سے ہمیں وادی میں سرگرم عمل اُن مستند ، فعال اوربااعتماد فلاحی اداروں، رضاکار تنظیموں اور خیراتی انجمنوں کو جو حالات کے متاثرہ لوگوں کے لئے تھوڑا بہت سامان ِزیست اکٹھا کر رہے ہیں ، کی عملی کارکردگی کی جانچ پرکھ سے اطمینان حاصل کر کے انہیںفی سبیل ا للہ تعاون دینا چاہیے تاکہ ان کے نیک اہداف اور فلاحی اغراض کی آبیاری ہوسکے ۔ یہ سب ہم نے کیا تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ روزوں کا مقصد پورا ہواور عید کی شادمانیوں کو ہم اپنے گھر آنگن میں خوش آمدید کہنے میں حق بجانب ہیں۔