محمد امین میر
عیدالاضحیٰ ہر سال 10 ذوالحجہ کو منائی جاتی ہے، جو حج جیسے عظیم فریضے کی تکمیل کا دن بھی ہے — جو کہ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سچی بندگی صرف ظاہری عبادات میں نہیں، بلکہ اخلاقی جرأت اور اپنے سب سے عزیز کو اللہ کی رضا کے لیے چھوڑنے کے جذبے میں مضمر ہے۔قربانی کا عمل — یعنی جانور کا ذبح — محض ایک رسم نہیں بلکہ روح کی پاکیزگی کا مظہر ہے۔ اس کا مقصد انسان کے اندر سے غرور، لالچ اور دنیاداری کی خواہشات کو ختم کرنا ہے۔ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک اپنے لیے، دوسرا رشتہ داروں و احباب کے لیے، اور تیسرا غریبوں و ضرورت مندوں کے لیے — جو اسلام کی سماجی عدل اور ہمدردی پر مبنی تعلیمات کی عملی تفسیر ہے۔
روایتی طور پر عیدالاضحیٰ کا دن خوشی، خاندانی میل جول، کشادہ دلی اور اجتماعی عبادت کا موقع ہوتا ہے۔ گھروں کو سجایا جاتا ہے، بچے نئے کپڑے پہنتے ہیں، اور دسترخوان انواع و اقسام کے پکوانوں سے سجے ہوتے ہیں۔
اس سال جب کشمیری عید کی نماز کے لیے صف بستہ ہوں گے، تو کئی دل بوجھل ہوں گے۔ پہلگام میں سیاحوں کی گاڑی پر ہونے والا حملہ اور کئی بے گناہ جانوں کا ضیاع، ہمیں ایک بار پھر یاد دلا گیا ہے کہ اس سرزمین کا امن کس قدر نازک ہے — ایک ایسی سرزمین جو پہلے ہی بہت سا خون دیکھ چکی ہے۔یہ مقتولین صرف اعداد و شمار نہیں تھے۔ ان کے بھی نام تھے، خاندان تھے، خواب تھے۔ ان کا جانا صرف ان کے گھرانوں کا دکھ نہیں، بلکہ کشمیر کی روح پر ایک زخم ہے۔ عیدالاضحیٰ ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کے جواب میں رحم، ناانصافی کے مقابلے میں وحدت، اور انتقام کے بدلے امن کو ترجیح دی جائے۔ اس مقدس دن ہمیں اخلاقی فرض ادا کرنا ہوگا کہ ہم شہداء کی یاد میں ہر قسم کے تشدد کو مسترد کریں۔ہمیں دہشت گردی کے سائے کو اپنی روایات کے نور پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے۔ سب سے بڑا خراجِ عقیدت جو ہم شہداء کو پیش کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم امن، مکالمے اور باہمی احترام کے لیے اپنی وابستگی کو مضبوط کریں۔ ان کی یاد ہمیں اس عزم کی طرف راغب کرے کہ ہم کشمیر کو ایک بار پھر محبت، مہمان نوازی اور ہم آہنگی کی سرزمین بنائیں گے — خوف کی نہیں۔اسلام ایک ایسا دین ہے جو طاقت امن سے لیتا ہے، نہ کہ انتشار سے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔‘‘آج کے حالات میں یہ پیغام پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ جب ہم قربانی کے گوشت کو بانٹتے ہیں، تو آئیں وحدت کا پیغام بھی بانٹیں۔ ہمارے دروازے صرف رشتہ داروں کے لیے نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ہمسایوں کے لیے بھی کھلے ہوں۔ ہماری دعاؤں میں صرف اپنے پیاروں کے نہیں بلکہ اُن معصوموں کے نام بھی ہوں جنہیں ہم سے جلد چھین لیا گیا۔عیدالاضحیٰ صرف ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ یہ ہمیں سادہ طرزِ زندگی، نرمی، خلوص اور مقصد کے ساتھ جینے کا پیغام دیتی ہے۔ جب ہم خوشیاں منائیں تو یاد رکھیں کہ اصل قربانی جانور کے ذبح میں نہیں بلکہ نفرت کی قربانی میں ہے، غرور کے ذبح میں ہے اور محبت کے نذرانے میں ہے۔آئیے، اس برس کی عیدالاضحیٰ کو ایک نیا موڑ بنائیں — ایک ایسا دن جہاں ہماری خوشی کے ساتھ یاد اور ہماری دعوت کے ساتھ تدبر شامل ہو۔
[email protected]>