ڈاکٹر عریف جامعی
انسانی شخصیت کے مختلف پہلو کئی طرح سے ظاہر ہوتے ہیں۔ عقلی یا فکری پہلو غوروفکر اور تعقل و تدبر کے ذریعے میدان حکم و دانش کو آباد کرتا ہے۔ اخلاقی پہلو چمنستان اخلاق کو نرم خوئی، خوش خلقی، ملنساری، ایثار، انکسار، فروتنی، ہمدردی اور قربانی کے پھولوں سے سجاتا ہے۔ جمالیاتی پہلو انسانی دنیا کے ثقافتی، تہذیبی اور تمدنی خاکوں میں رنگ بھرتا ہے۔ غرض ہر ایک پہلو اپنے اپنے دائرے میں متحرک ہوکر عالم کی نیرنگی کو برقرار رکھتا ہے۔ تاہم انسانی شخصیت کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو ان تمام پہلوؤں کے امتزاج سے معرض وجود میں آتا ہے۔ اس طرح ایک طرف انفرادی طور پر انسانی شخصیت کی نشوونما ہوتی ہے اور دوسری طرف انسانی شخصیت کا معاشرتی پہلو سامنے آکر انسان کا معاشرتی وجود (سوشل بیئنگ) نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ معاشرتی سطح پر انسانوں کے تعامل (انٹریکشن) سے ہی انسان کی انفرادی خامیاں چھپ جاتی ہیں اور انسان مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسانی شخصیت سکڑ کر جمود کا شکار ہوسکتی ہے۔
علائق دنیا کو ترک کرنا اور زندگی کی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہونا انسان کے معاشرتی پہلو کے لئے ہمیشہ ایک خطرہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رہبانیت اور ترک دنیا کے مختلف رویوں نے اکثر و بیشتر انسانیت کے دامن اخلاق کو تار تار کیا اور انسان کے پیراہن اکرام کو داغدار کیا۔ ان روایات کا رخ کرنے والوں کی نیت تو یہی ہوتی تھی کہ نفس کو ہوا و ہوس سے پاک صاف کیا جائے اور انانیت کے شتر بے مہار کو لگام دی جائے۔ تاہم تھوڑی ہی دیر اس رستے پر چل کر انہیں فطرت کے تقاضوں کی شدت پچھاڑ دیتی تھی اور وہ اپنے نفس کے ہتھے چڑھ جاتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ جسم کی جن ضروریات کو وہ فطری انداز میں پورا کرنے کے قائل نہیں ہوتے تھے، انہی کو وہ غیر فطری طور پر انجام دیتے تھے اور جس مال و زر کے حصول کو وہ اخلاقی پستی کی علامت سمجھتے تھے، اسی متاع دنیا کو وہ دنیا سے دور رہ کر بھی حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے رہتے تھے۔ تاہم مال و منال کی خاطر ان کی یہ کاوش نہ صرف یہ کہ ان کی اپنے نفس کے ساتھ خیانت ہوا کرتی تھی، بلکہ یہ اس غبن اور بددیانتی سے بھی زیادہ مہلک ہوا کرتی تھی جو وہ معاشرے میں رہ کر کرتے اور جس سے خوف کھاکر ہی انہوں نے معاشرتی زندگی کو خیرباد کہا تھا۔
غرض انسانی شخصیت کا معاشرتی پہلو اتنا مضبوط اور محکم ہے کہ معاشرتی زندگی گزار کر ہی انسان کی تمام صلاحیتیں نکھر جاتی ہیں اور انسان ایک بھرپور زندگی گزار کر مجموعی طور پر انسانی معاشرے کے لئے ایک متاع بیش بہا بن جاتا ہے۔ ایسی زندگی کے دوران ہی خدائی منصوبے کے مطابق اس کی ان صلاحیتوں کا امتحان ہوسکتا ہے جو اسے ودیعت کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے ایک طرف یہ اعلان فرمایا ہے کہ “لا یکلف اللہ نفساً الا ما آتھا” یعنی خدا انسان کو اس کو ملی ہوئی صلاحیتوں کے مطابق آزماتا ہے اور دوسری طرف یہ بات بھی واضح فرمائی کہ “لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا” یعنی انسان کو اس کی استطاعت کے مطابق ہی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔ یعنی انسان کو ایک بھر پور معاشرتی زندگی گزارنے کے صلاحیت بھی عطا کی گئی ہے اور اس زندگی کو برتنا ترک دنیا سے آسان تر ہے۔
اب جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے تو یہ مختلف رشتوں کی کڑیوں سے مل کر بنتا ہے جنہیں نبھا کر ہی انسانی صلاحیتوں کی جانچ ہوتی ہے۔ ایک طرف انسانی رشتوں کو نبھاتے نبھاتے اس کے ترحم، حلم، ضبط، دیانت اور امانت جیسی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں تو دوسری ان پر ثبات اور دوام دکھاکر ہی وہ اس بار عظیم سے نبردآزما ہوکر رب تعالی کے انعام کا مستحق ہوتا ہے۔ تاہم رشتوں میں سب سے اعلی اور بدیہی رشتہ انسان کا اپنے خالق کے ساتھ ہے۔ یہ رشتہ اسی صورت میں استوار ہوتا ہے جب خالق کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کوشش کی جائے۔ اس کے بعد صبر، شکر، تواضع، فروتنی، انکسار اور اخلاص کے ذریعے یہ رشتہ پروان چڑھتا ہے۔
تاہم انسانی معاشرے میں خدا کے ساتھ عمودی اور خلق خدا کے ساتھ افقی رشتہ نبھاتے نبھاتے انسان ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ روز مرہ کے اس لگے بندھے نظام سے انسان کچھ دیر کے لئے ہی سہی لیکن باہر آنا چاہتا ہے تاکہ تھوڑا سا وقت ذرا ہٹ کر گزار سکے۔ انسانی معاشروں نے ہمیشہ اس کے لئے ایک ساتھ مل کر کچھ وقت گزارنے کی راہ نکال لی۔ ایک ساتھ مل کر اظہار خوشی کے ان مواقع کو تہوار کہا جاتا ہے۔ یہ تہوار ثقافتی، موسمی یا مذہبی نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔ ان کے منانے کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی خاص معاشرے نے مشترکہ ثقافت، موسم یا مذہب کے ساتھ منسلک ہوکر کیا کچھ حاصل کیا یا کیا کچھ حاصل کرسکتا ہے، اس پر مشترکہ خوشی کا اظہار کیا جائے۔ ہر معاشرہ اپنے ذوق کے مطابق ان موقعوں کے نام تجویز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی ان کو جشن کہتا ہے تو کوئی میلہ۔
تاہم اسلام نے اپنے آفاقی، عالمگیر اور ربانی مزاج کے مطابق ایسے دو مواقع کا نام عید رکھا ہے۔ تاہم ان میں سے پہلا تہوار اس وجہ سے عید الفطر کہلاتا ہے کہ اس روز اہل ایمان مکمل ایک مہینے کی پابندی کے بعد پھر سے دن میں کھانا شروع (یعنی افطار) کرتے ہیں۔ ۲۹ یا ۳۰ رمضان المبارک کی شام کو اس تہوار کا روئت ہلال کے ساتھ اعلان ہوتا ہے۔ یہاں پر یہی پیغام دیا جاتا ہے کہ جس طرح ایک ماہ کے لئے دن کے معمولات زندگی پر اوپر یعنی خدا کی طرف سے پابندی عائد کی گئی تھی اور بندے نے اس کے پر سر تسلیم خم کیا تھا، بالکل اسی طرح ان پابندیوں کے اٹھنے کا حکم بھی اوپر سے آتا ہے اور بندہ اس خوشی کو منانے کی تیاری کرنا شروع کرتا ہے۔تاہم جہاں تک مکمل اور حتمی خوشی کا تعلق ہے تو بندۂ مؤمن کو یہ خوشی صرف آخرت میں حاصل ہوگی۔ آخرت کی اس خوشی اور آرام کے بارے میں صحابۂ کرام مسجد نبوی کی تعمیر کے دوران اس قسم کے اشعار پڑھتے تھے: لا عیش الا عیش الآخرہ، اللھم! مغفر لانصار والمہاجرہ: یعنی ’’آرام فقط آخرت کا آرام ہے، اے اللہ! انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما! ‘‘اب مؤمن صادق کو آخرت میں حاصل ہونے والی خوشی کو عید کی خوشی کے ذریعے ممثل کیا گیا ہے۔ جس طرح روز جزا کو میدان حشر میں بندہ مؤمن کی نجات کا اعلان ہوتے ہی اس کے لئے ابدی خوشیاں شروع ہوں گی، کچھ اسی طرح روزے کی تکمیل کے ساتھ ہی بندہ مسرت اور انبساط کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر اپنے دل میں موجزن پاتا ہے۔ اسی خوشی کا اظہار کرنے کے لئے بندہ عید کے روز علی الصبح اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے عید گاہ کی راہ لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بندے کی زبان پر اللہ کی تکبیر کے ساتھ ساتھ اس کی تحمید اور تمجید کے کلمات رواں ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خوشی معاشرتی اور اجتماعی ہوتی ہے، جس میں ہر سطح کا بندۂ مؤمن شریک ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خوشی ریاضیاتی تناسب (ارتھمٹک پراپورشن) کے حساب سے بڑھتی ہے۔
یہ بلند پایہ خوشی اگر گوشہ نشین ہوکر انفرادی طور پر منائی جائے تو یہ اتنی محدود رہے گی کہ اکیلا انسان بھی اس سے متمتع نہیں ہوسکے گا۔ رمضان کا روزہ ایک ساتھ رکھنے میں ایک حکمت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ رمضان کا ہر کام نہ صرف آسان ہوجاتا ہے بلکہ اس کے ہر کام میں افزونی یا برکت ہوجاتی ہے۔ رمضان کے روزوں کی تکمیل کی خوشی ایک ساتھ منانے سے بھی اس میں حد درجہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ خدا کے نیک بندوں کی جنت میں داخلے پر خوشی اس وقت اپنی انتہاؤں کو چھوئے گی جب انہیں اپنے والدیں، ازواج اور اولاد کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ قرآن کے الفاظ میں: “اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا، جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں۔” (،المؤمن، ۸) حالانکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ خدا کے سامنے انسان کی مسئولیت بالکل انفرادی نوعیت کی ہوگی، کیونکہ اس ضمن میں خدا کا ارشاد ہے کہ “لا تزر وازرۃ وزر أخریٰ؛ یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔”
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خوشی منانے اور اس سے محظوظ ہونے کا تعلق اجتماعیت یعنی معاشرت سے ہے۔ چونکہ انسان کو آخرت میں من و عن اسی شخصیت سے نوازا جائے گا جو اسے دنیا میں حاصل تھی اور جو اس نے یا تو تقوی و تزکیہ کے ذریعے پروان چڑھائی تھی یا پھر فسق و فجور میں رہ ضائع کی تھی، اس لئے رمضان المبارک اس شخصیت کو پروان چڑھانے اور نشوونما دینے کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرکے اسے جنت کی بستی یا جنت کے معاشرے کے لئے تیار کرتا ہے۔ جو لوگ روزے کو تمام تر لوازمات کے ساتھ رکھیں گے ان کا آخرت میں اس طرح بہترین استقبال ہوگا کہ انہیں خصوصی “باب ریان” سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔
اب جہاں تک ان لوازمات کا تعلق ہے تو اس کے لئے بندے کو قول زور (جھوٹی بات) اور اس پر عمل پیرا ہونے سے بچنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو منہیات سے مکمل طور پر اجتناب کرنا ہوگا، یعنی تقویٰ کی اصل روح (الورع محارم اللہ) کو پانا ہوگا۔ حدیث میں اسی بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ بندہ جب ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھے، ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں کو قیام کرے اور ایمان و احتساب کے ساتھ لیلتہ القدر میں قیام کرے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کیے جائیں گے۔ اور رمضان المبارک کی آخری رات آتے ہی اس کی نجات کا اس طرح اعلان ہوگا کہ اس کو اپنے تمام تر حسنات کا پورا اجر دیا جائے گا۔
اپنے اسی انعام کی سند بندۂ مؤمن عیدالفطر کے دن رب تعالی سے پاتا ہے جب اس کے سجدہ سے سر اٹھاتے ہی اس کی مکمل بخشش کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بندہ پورا دن انعام پانے کی اس خوشی میں اجتماعی طور پر خدا کی تکبیر اور تحمید کے ساتھ گزارتا ہے۔ یہی معنی ہیں اس حدیث کے کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی وہ افطار کے وقت محسوس کرتا ہے اور ایک خوشی اسے اپنے رب سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی۔ ظاہر ہے کہ رمضان کے ہر روز کی افطار کی خوشی جمع ہوکر عیدالفطر کے دن کی اجتماعی افطار میں اپنے عروج کو پہنچتی ہے۔ اور عیدالفطر اس دن کا ایک تعارف ہے جب بندہ خدا کے روبرو کھڑا ملاقات کا شرف حاصل کررہا ہوگا اور اس کی زبان خدا کی تسبیح سے نغمہ سنج ہوگی۔ یہی وہ دن ہوگا جب بہت سے چہرے اس وجہ سے چمک رہے ہوں گے کہ وہ اپنے رب کی تجلّی سے فیضیاب ہورہے ہوں گے، کیونکہ جس طرح دنیا میں چودھویں کا چاند (بدر منیر) دیکھتے وقت بندۂ خدا حظ اور سکون حاصل کرتا ہے، کچھ اسی طرح کا اطمینان وہ خدا کا دیدار کرتے ہوئے حاصل کرے گا۔ کتنا عظیم الشان ہے رب تعالی کا یہ اعلان کہ “روزہ میرے لئے ہے، میں ہی اس کی جزا دوں گا یا میں خود اس کی جزا ہوں (الصوم لی و انا اجزی بہ)!”
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ ۔ 9858471865
[email protected]