تہذیب نے اب تک عورت کو کتنے ہی زاویوں سے دیکھنے کی سعی کی ہے اور سچ تو یہی ہے کہ انسان عورت کی حقیقت سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ مگر جب انسان عورت کی حقیقی ذات کو اس کی پاکیزہ سیرت اور فطرت کی روشنی میں کھوجتا ہے تو عورت صدیقہ نظر آتی ہے، وہ حواؑ اور مریم ؑکا روپ دھار لیتی ہے اور سارہ ؑ،خدیجہؓ اور فاطمہ ؓبن کر انسانیت کے لیے سینکڑوں اسباق سیکھنے کے لیے چھوڑ جاتی ہے۔ یہ دراصل عورت ذات کا مرتبۂ کمال ہے جہاں عورت عین اپنی فطرت اور قانونِ قدرت کے مطابق اعلیٰ کردار کا نمونہ پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کتابِ ماضی کو جب پلٹا جاتاہے تو دنیا کی مختلف تہذیبوں اور مذاہب میں عورت کے ساتھ روا رکھے جارہے غلط رویے اور ظالمانہ سلوک کو دیکھ کر دل ملول ہوتا ہے۔یہ باطل وناکارہ تہذیبیں عورت ذات کو مختلف زمانوں میں مشکلات و مصائب میں مبتلا کرنے کا باعث بنی ہیں۔
دورِ جاہلیت کے عربوں میں عورت کی حیثیت ایک پالتو جانور جیسی تھی۔ اول تو اُس دور میں لڑکی کو زندہ ہوتے ہی درگور کیا جاتا(جب اِن میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو………سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کے لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ النحل۵۸،۵۹) اور جو لڑکیاں بچ نکلتی انھیں مرد حضرات بعد ازاں اپنے حقیر مقاصد کے لیے استعمال کرتے۔ عورت مرد کی ذاتی ملکیت سمجھی جاتی۔ بر اعظم ایشیاء کے ممالک میں دیوتائوں کی قربان گاہوں پر عورت کو بھینٹ چڑھایا جاتا۔ رومی تہذیب میںباپ اپنی بیٹیوں کو بازار میں بیچتے بلکہ شوہرکو اپنی بیوی کی زندگی کا چراغ بجھا دینے کا حق بھی حاصل تھا۔یونانی خرافات وتوہمات(Mythology) میں ایک خیالی عورت پانڈورا(Pandora) کو تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا تھا۔ یہودی خرافیات میں جنت میں حضرت آدم علیہ السلام سے سرزد ہوئی غلطی کا محرک حضرت حواؑ کوہی قرار دیا گیا۔ حضرت حواؑ کے متعلق پھیلائے گئے اس غلط اور گناہ گارانہ تاثرنے یہودی اور مسیحی اقوام کا عورتوں کے تئیںروا رکھے جانے والے رویے پرزبردست منفی اثر ڈال کر عورتوں کے قانونی اور معاشرتی حقوق کو بری طرح پامال کیا۔ قریب قریب ایسا ہی اثر Pandora کے توہم کا یونانی ذہن پر ہوا تھا۔ غرض یونانی تہذیب میں ہر اعتبار سے عورت کی حیثیت بہت گری ہوئی تھی۔مسیحی یورپ کا ابتدائی اور بنیادی نظریہ یہ تھا کہ عورت گناہوں کی ماں اور بدی کی جڑ ہے۔ اس کا عورت ہونا ہی اس کے شرمناک وجود ہونے کی دلیل تھی۔ ترتولیان(Tertullian) جو ابتدائی دور کے آئمہ مسیحت میں سے تھا ،عورت کے متعلق مسیحی تصور کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’ وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے۔ وہ شجر ممنوعہ کی طرح جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی، خدا کی تصویر-مرد کو غارت کرنے والی۔ کرائی سوسٹم(Chrysostum) جو مسیحت کے اولیائے کبار میں شمار ہوتا ہے، عورت ذات کے متعلق کہتا ہے: ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرعوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دلربائی، ایک آراستہ مصیبت۔‘‘ ( پردہ، از سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، صفحہ نمبر۱۷)
ہندو تہذیب میں بھی عورت ذات کو طرح طرح کی ذلالتوں سے دو چار ہونا پڑتا تھا۔ جب کوئی مرد مرجاتا تو اس کی روح کی تنہائی دور کرنے کے لیے اس کی بیوی کو اس کے ساتھ زندہ جلایا جاتا ۔ لڑکے کی پیدائش پر جشن منائے جاتے لیکن لڑکی کی پیدائش پر گھر ماتم کدے میں تبدیل ہوجاتے ۔ ان تمام زمانوں اور حالات میں عورت ذات من جملہ نشانِ ظلم و جبر بنی ہوئی تھی۔ عورت کا وجود بے بسی کے گلیاروں میں کھو چکا تھا۔ سو درد جھیل کر مرد کو جنم دینے والی عورت مردوں کے قہر اور ظلم و جبر کاہی شکار بنتی ۔ اپنی چھاتی سے انسانیت کو امرت پلانے والی ذات خود زہر پینے پر مجبور کی جاتی۔
اس تمام ناگفتہ بہ صورت حال کے بیچ جب اسلام کے آئینے میں عورت کے وجود کا ذکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو ایک مقدس اور معتبر مقام عطا کیا ہواہے۔ ایک عورت کا وجود جہاں تاریک راتوں میں گم ہو گیا تھا وہاں جب آفتابِ عالمؐ طلوع ہوا تواس آفتاب نے اپنی نورانی کرنوں نے عورت کے بے بس اور سوئے ہوئے وجود کو بیدار کیا۔ سرورِ کائناتؐ نے جہالت پر مبنی مکروہ اور مذموم معاشرت کی عمارت کو آناً فاناً منہدم کر دیا اور یوں ظلم کے ہاتھ انصاف کی چکی میں پس کر رہ گئے اور انصاف پر مبنی اسلامی قانون کے زیرِ نگین صدیوں سے ستائی ہوئی عورت کو بھی آزادی اور سکون مل گیا۔اسلام نے انسانیت کی نصف عورت ذات کو بقائے انسانیت اور فلاح قوم و تمدن کے لیے ایک ناگزیر شئے قرار دیا ہے۔ اسے امتیازات و منفرادات سے نواز کر عزت و توقیر سے سرفراز کیا ہے اور اس کی جان کو معمولی شے سمجھنے والوں کو وعید سنائی گئی ہے۔
’’ اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی‘‘ (التکویر:۸،۹)
مغرب میں آج حقوقِ نسواں (Feminism)کے نام سے ایک مصنوعی اور فرضی تحریک بپا کی گئی ہے جس نے عورت کو معاشی و مادی تر قی کا ذریعہ بنا کر اس کی عفت و عصمت کو پامال کیا ہے۔ یہ تحریک دراصل ایک اسلام دشمن تحریک ہے جس کے علم بردار یہ دعوے کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات خاکم بدہن عورت دشمنی (Anti-Women)پر مبنی ہیں۔ اسلام نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کیا ہوا ہے اور اس پر پردہ اختیار کرنے اور گھریلوں ذمہ داریوں کی انجام دہی جیسے بار رکھ کر اُس کے ساتھ صریح ظلم کیا ہے۔ اس تحریک کے مطابق عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا بھرپور حق حاصل ہے اورمعاشرے میں اپنی مرضی کی زندگی جینے کے لیے وہ کلی طور پر آزاد ہے۔ا سی تحریک کی آڑ میں آج عورت کو فیکٹریوں اور کارخانوں کی زینت بنا دیا گیا ہے اور اختلاطِ مرد و زن کا ایک طوفانِ عظیم برپا ہو گیا ہے جو معاشرے میں کئی رزائل کے پیدا ہونے اور اُن کے فروغ پر منتج ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعہ اسلام عورت دشمنی پر مبنی دین ہے اور عورت کو اسلام پر من و عن عمل کرنے کی تاکید کرنا اُس پر ظلم و جبر کرنے کے مترادف ہے؟ اس ضمن میں حضورؐ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائی:
’’ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق سلب مت کرو، ان پر یہ ظلم مت کرو، ان کو زندہ درگور مت کرو، جتنے حقوق تمہارے ہیں اتنے ہی ان کے حقوق بھی ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
اسلام کی نظر میں مرد اور عورت دونوں کو یکساں مقام حاصل ہے۔ اسلام بیٹوں اور بیٹیوں میں فرق روا رکھنے کے صریح خلاف ہے۔ ایک دفعہ نبی ٔ کریمؐ کے سامنے ایک شخص نے اپنے بیٹے کو پیار کیا اور گود میں بٹھا لیا، لیکن اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ نبی ٔکریمؐ نے فوراً فرمایا کہ’’ تو ظالم ہے تجھے چاہیے تھا کہ اپنی بیٹی کو بھی پیار کرتااور اُسے بھی اپنی گود میں بٹھاتا۔‘‘ ( متفق علیہ)
اسلام نے عورت کومعاشی، قانونی، سیاسی اور تعلیمی حقوق دے رکھے ہیں۔ عورت کو دینی اور دنیاوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو فرض قرار دیا ہے:
’’ علم حاصل کرنا ہر ایک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ)
اسلام میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے دورِ صحابہؓ میں ہمیں متعدد عالمہ خواتین کی مثالیں نظر آتی ہیں جن میں سب سے اہم مثال حضرت عائشہؓ کی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین ؓتک ہدایت اور رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کے علاوہ بھی متعدد صحابیاتؓ کے علم و فضل کی شہادت ملتی ہے جن میں ام المومنین حضرت صفیہؓ ، حضرت فاطمہ بنت قیسؓ وغیرہ کانام قابل ِذکر ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ذکر اس دور کا ہو رہا ہے جب عورت کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ انسانیت کی تاریخ کے اس درخشاں دور کے بعد ہم دیکھتے ہیںکہ مسلمانوں میں نہ صرف علم ِدین بلکہ طب اور ریاضی جیسے علوم کی ماہر خواتین پیدا ہوئیں جنھوں نے انسانیت کی خوب خدمت کی۔
مدعا کلام یہ کہ عورتوں کے حقوق کے جھنڈ ے گاڑ کر مغرب کی سرمایہ دارانہ ذہنیت نے آج اپنے لیے معاشی فوائد اور مادی ترقی کی ر اہیں توہموار کر لی ہیں۔ لیکن مغرب کی شریر اور اسلام دشمنی پر مبنی ذہنیت نے طبقۂ نسواں کو احساسِ تحفظ، امن و سکون، احترام و وقار اور پائیدار مسرتوں سے خالی کر دیا ہے ، وہیں احساس تحفظ ، امن و سکون اور احترام و وقار کی زندگی جو حضورؐ کی تعلیمات کا نتیجہ عمل ہے۔ اسلام نے ہی خواتین کو حقیقی عزت و توقیر بخشی ہے۔ ماں، بیوی اور بہن کی صورت میں اللہ کی اس مخلوق کو انسانیت کے لیے باعث سکون وآرام ا ور وجہ ٔ راحت قرار دیا۔اسے اس قدر عظمت بخشی کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے ڈھونڈنے کا حکم دیا گیا ہے مگر افسوس کہ سماج کے حقوقِ نسواں کے علمبردار اور آزادیٔ خواتین کے چمٔپین آ ج اپنے جنسی اغراض و مقاصد کے لیے خواتین کو حیات نہیں بلکہ موت کے دلدل میں دھکیل دینے کے در پے ہیں۔سچ اورصد فیصدسچ یہی ہے کہ خواتین کے حقوق کی پاسبانی کا را ز عورتوں کی فلاح و بہبود کے ٹھیکیداروں اور ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے شرمناک نعرے دینے والوں کے ہاں موجود نہیں ہے۔ یہ راز بس ایک ہی ہستی کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے،وہی جو انسانوں کا حقیقی محسن اور غمخوار ہے، صلی اللہ علیہ وسلم!
٭٭٭ ٭٭٭ ٭٭٭