منزہ خان
عورت ایک ایسا وجود ہے جو زندگی کی حقیقتوں کا گہرائی سے عکس ہے۔ اس کا ہر عمل، اس کی ہر قربانی اور اس کا ہر احساس اس کائنات کے حسن کو مکمل کرتا ہے۔ مگر یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں ایک عورت کو اپنی فطرت کے مطابق جینے کا حق نہیں دیا جاتا؟ وہ عورت جو اپنی زندگی کو سنوارنے اور مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت کرے، اُسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ عورت جو خودمختار ہو کر اپنے فیصلے خود لے، اس پر معاشرہ یہ طعنہ کستا ہے کہ اس نے اپنے دائرہ کار کو چھوڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ انصاف ہے جو
دین ِ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے؟
جب مرد اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیں تو عورت اپنے گھر اور خاندان کو سنبھالنے کے لیے کیا کرے؟ جب مرد اپنی قیادت کے منصب سے ہٹ جائے تو عورت کو اس خلا کو پُر کرنا پڑتا ہے۔ عورت جو فطرتاً جذباتی ہے، جب اُسے سہارا نہیں ملتا تو وہ اپنی جذباتیت کو مضبوطی میں بدل لیتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس حد تک طاقتور بنا لیتی ہے کہ کسی کے سہارے کی ضرورت نہ رہے۔ مگر کیا معاشرہ اس مضبوط عورت کو قبول کرتا ہے؟ یا پھر اسے مردانگی کا طعنہ دے کر مزید دبانے کی کوشش کرتا ہے؟
عورت کے حقوق قرآن اور حدیث کے آئینے میں : ۔
قرآن مجید اوراحادیث ِ مبارکہ میں عورت کے حقوق اور اُس کے مقام کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمان ہے:’’اور ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔‘‘(سورۃ الاحقاف: 15)۔یہ آیت عورت کے اس کردار کو بیان کرتی ہے جو ماں اور پرورش کرنے والی کے طور پر نہایت اہم ہے۔ اسی طرح، سورۃ النساء میں ارشاد ہوتا ہے:’’اور عورتوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ۔‘‘(سورۃ النساء: 19)۔یہ آیت نہ صرف عورتوں کے حقوق کی وضاحت کرتی ہے بلکہ مردوں پر ذمہ داری ڈالتی ہے کہ وہ عورت کے وجود کی عزت کریں اور اسے تحفظ فراہم کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہتر ہو، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘(ترمذی)
یہ حدیث مردوں کو اس بات کا درس دیتی ہے کہ عورت کے ساتھ عزت اور محبت کا رویہ اپنانا ہی بہترین اخلاق کی نشانی ہے۔
معاشرتی رویوں کا تضاد : ۔
یہ معاشرہ عورت سے توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی فطرت کے مطابق نرم، رحمدل اور متوازن رہے۔ لیکن جب یہی عورت نرمی اور سکون کے ساتھ جینے کی کوشش کرتی ہے، تو معاشرہ اسے کمزور کہہ کر تنقید کرتا ہے اور جب حالات اسے اپنی اندرونی طاقت کو بروئے کار لانے پر مجبور کرتے ہیں تو وہی لوگ اسے ’’مردانہ صفات‘‘ رکھنے والی قرار دے دیتے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ دوغلے رویے عورت کو کہاں لے جاتے ہیں؟ ایک طرف، اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر کی دہلیز کے اندر رہے، اپنے خاندان کی خدمت کرے اور کسی شکایت کے بغیر زندگی گزارے۔ لیکن جب معاشی مسائل یا مردوں کی بے اعتنائی اُسے گھر کی دہلیز لانگھنے پر مجبور کرتی ہے تو یہی معاشرہ اس پر انگلی اُٹھاتا ہے۔
جب مردوں نے عورت کے لباس اور سنگھار کو اپنا لیا تو عورت کو گھر سے باہر نکل کر روزی کمانا پڑی۔ کیا عورت کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جب مردوں نے اپنی قیادت کی ذمہ داری سے ہی منہ موڑ لیا؟ عورت کو اپنا پیٹ پالنے اور اپنے گھر کو سنبھالنے کے لیے کیا کرنا چاہیے تھا؟ اگر وہ خود کو مضبوط نہ بناتی تو پھر کیسے زندہ رہتی؟
عورت کی خودمختاری مجبوری یا انتخاب؟
یہ سوچنا اہم ہے کہ کیا عورت نے اپنی خودمختاری کو بطور انتخاب اپنایا ہے یا یہ اس کی مجبوری بن گئی ہے؟ عورت کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے کیونکہ معاشرہ، مرد اور حتیٰ کہ اس کا خاندان اس کے ساتھ نہ کھڑے ہو سکے۔کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ اگر عورت کو اس کے حقوق اور عزت فراہم کی گئی ہوتی تو کیا وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو کو تنہا سنبھالنے پر مجبور ہوتی؟ اگر مرد نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا ہوتا تو کیا عورت کو گھر کے باہر کام کرنے کی ضرورت پیش آتی؟کئی سوالات ہیں، جو جواب مانگتے ہیںکہ یہ معاشرہ عورت سے کیا چاہتا ہے؟
۱۔ کیا آپ نے کبھی عورت کو ماہواری کے دوران آرام کا موقع دیا؟۲۔ کیا آپ نے اسے گھر کے اندر وہ سکون فراہم کیا جس کی وہ مستحق ہے؟۳۔ جب مرد اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیں، تو کیا عورت کے پاس کوئی دوسرا راستہ بچتا ہے؟۴۔ آپ کہتے ہیں عورت گھر کے لیے بنی ہے، تو پھر آپ نے اسے باہر نکلنے پر مجبور کیوں کیا؟۵۔ جب عورت اپنی فطری جذباتیت کے ساتھ جینا چاہے تو اسے کمزور کیوں کہا جاتا ہے، اور جب وہ مضبوط بنے تو اسے مردوں کے برابر کیوں قرار دیا جاتا ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہر انسان کے دل میں اٹھنے چاہئیں۔ عورت کی حقیقت اور اس کے وجود کی اہمیت کو تسلیم کئے بغیر ہم ایک متوازن اور منصف معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے۔
حل کی طرف قدم : ۔
عورت کے وجود کو اس کی فطرت کے مطابق قبول کرنا ضروری ہے۔ قرآن اور حدیث کے اصولوں کے تحت عورت کو وہ مقام اور عزت دی جائے جس کی وہ مستحق ہے۔ مردوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اور عورت کو صرف ایک تابع یا خدمت گزار سمجھنے کے بجائے اسے اپنی زندگی کے ساتھی اور ہمراہی کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔یہی وہ سوچ ہے جو نہ صرف عورت کو انصاف دلائے گی بلکہ معاشرے کو حقیقی معنوں میں اسلامی اصولوں کے تحت چلائے گی ۔
[email protected]