ریحانہ شجر
میں انٹرنشپ مکمل کر چکی تھی اور دوسرے دن سے ہاوس جاب کیلئے مجھے نسوانی امراض کی ماہر معالج ڈاکٹر زرتاج کی ساتھ میٹرنٹی وارڈ میں تربیت حاصل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، جو کہ میرا پسندیدہ مضمون تھا۔ ڈاکٹر زرتاج جیسی استاد سے سیکھنے اور اُن کے ساتھ کام کرنے میں میر ے دل کو اطمینان محسوس ہو رہا تا۔میں متعلقہ وارڈ میں پہلے ہی پہنچ گئی تھی اور اپنی استاد ڈاکٹر زرتاج کا انتظار کر رہی تھی ۔
ڈاکٹر زرتاج وقت پر آگئی۔ سلام دعا کے بعد مجھے ہدایات دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ڈاکٹر ماہی آج تم خاموشی سے مشاہدہ کرو۔آوٹ ڈور ختم ہونے کے بعد جو بھی سوالات ہوں گے ان پر بحث ہوگی۔اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا کہ اس وارڈ میں کام کرنے کیلئے صبر و تحمل کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔یہاں اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہوتا ہے۔ مریضوں کی کونسلنگ بھی کرنی پڑتی ہے ۔
کچھ وقفے کے بعد پہلی مریضہ ایک حاملہ عورت جس کی عمر ۲۵سال کے آس پاس تھی چیک اَپ کےلئے آئی ۔ اس نے اپنی تکلیف کے بارے میں ڈاکٹر زرتاج کو بتایا۔ڈاکٹر زرتاج نے دوائی لکھ کر مریضہ کو مقوی غذا کھانے اور کچھ مدت تک آرام کرنے کی ہدایت دی اور کچھ احتیاط برتنے پر زور دیا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس جوان عورت نے ڈاکٹر زرتاج سے کہا ، ڈاکٹر صاحبہ میری ایک گزارش ہے، کیا آپ یہ سب یعنی احتیاط اور پرہیز کی ہدایات میری ساسو ا َمی کے سامنے بتائیں گی ۔ ڈاکٹر زرتاج نے کہا ہاں کیوں نہیں ، اس کو ادھر لے کے آؤ میں ان کے سامنے بتادوں گی۔وہ جوان عورت اپنی ساسو اَمی کو لے آگئی اور ڈاکٹر زرتاج نے مریضہ کی ساس کے سامنے مریضہ کو دی ہوئی ساری ہدایات اور احتیاط دہرائیں، اسکے بعد وہ دونوں نکل گئیں ۔میں نے ڈاکٹر زرتاج سے پوچھا میڈم یہ کیا ماجرا ہے ؟ اس مریضہ نے ساس کے سامنے ساری باتیں دہرانے کو کیوں کہا؟ ڈاکٹر زرتاج نے مسکرا کر کہا میں نے تمہیں پہلے ہی مشاہدہ کرنے اور خاموش رہنے کی تلقین کی تھی تاکہ وقت ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔خیر اب پوچھ لیا تو بتاتی ہوں۔ گھر جاکر اس کی ساس کہاں اس بات کا یقین کرنے والی تھی کہ ڈاکٹر نے مقوی غذا اور آرام کرنے کی ہدایات دیں ہوں گی۔ اسلئے یہ لڑکی ساس کو میرے پاس لے کر آگئی۔
میں نے سوری کہا۔
It’s alright، میڈم نے جواب دیا اور اگلے مریض کو اندر بلایا۔
مریضہ آگئی جو دوسری بار ماں بننے والی تھی جیسا کہ ڈاکٹر زرتاج کے ساتھ اس کی گفتگو سے اندازہ ہوا۔ ڈاکٹر نے مریضہ سے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے۔ مریضہ نے کہا میں شوہر کے ساتھ آئی ہوں ۔ دوائی وغیرہ لکھوا کر وہ چلنے لگی اور جاتے جاتے اُس نے ڈاکٹر زرتاج سے التماسِ دعا کی، ‘ڈاکٹر صاحبہ اس بار لڑکا ہی ہونا چاہئے نہیں تو…….. یہ…….لوگ……’ .مریضہ بات ادھوری چھوڑ کر وہاں سے نکل گئی۔
میں نے ڈاکٹر زرتاج سے کہا میڈم اس کے شوہر کو بلا کر ہم سمجھاسکتے ہیں کہ چاہیے لڑکا ہو لڑکی اس میں عورت کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زرتاج نے زور دے کر کہا، ڈاکٹر ماہی، ٹھنڈ رکھ، بات سن، اگر میں اس کے شوہر کو بلاکر یہ خطبہ دیتی تو وہ آرام سے شاید سن بھی لیتا ۔لیکن اس بات کا اندازہ ہے تمہیں کہ گھر جاکر یہ اپنی بیوی کا جینا حرام کردیتا اس بات پر کہ ڈاکٹر کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ اس بار ہمیں بیٹا ہی چاہیے۔ڈاکٹرزرتاج نے مزید کہا یہ ہمارے سماج کا وہ طبقہ ہے جو ٹھاٹھ سے کہتے ہیں کہ ہم بہو بیٹیوں کی قدر کرتے ہیں، ان کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔لیکن گھروں کے اندر ان کا حال ایسا ہوتا ہے کہ جیسے دیکھ کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اتنے میں ایک اور مریضہ ڈاکٹر زرتاج کے پاس بھیج دی گئی۔ جو کافی پڑی لکھی معلوم پڑتی تھی۔ڈاکٹر زرتاج کی پہچان والی تھی۔ ڈاکٹر نے مریضہ سے پوچھا بتائیں ماحُور صاحبہ اب کیسا محسوس ہو رہا ہے آپ کو ؟ مریضہ نے کہا ڈاکٹر کافی کثرت کرنے کے باوجود میرے وزن میں کوئی کمی نہیں آئی،سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ ڈاکٹر زرتاج نے مریضہ کو سمجھا کر کہا تم وزن کو لے کر پریشان کیوں ہو۔ ابھی حال ہی میں تم نے بچے کو جنم دیا ہے ۔ ان نو مہینوں کے دوران وزن بڑھنا عام بات ہے۔ بچے کو جنم دینے کے بعد عورت کے جسم کو اصلی حالت میں آنے میں وقت لگتا ہے اور ان دنوں تم بچے کو دودھ بھی پلا رہی ہو۔تمہیں اس دوران مقوی غذا کھانے کی ضرورت ہے۔ اس نازک مرحلے پر تم ڈائٹنگ کے بارے میں سوچنا مت۔ تمہاری اور بچے کی صحت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ مریضہ کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔ڈاکٹر نے کہا کیا ہوا؟ مریضہ نے کہا ڈاکٹر صاحبہ ’اب میں کیسے بتادوں۔ آپ تو جانتے ہو کہ میرا شوہر سُفیان ریاست کے باہر آی ٹی سیکٹر میں کام کر رہا ہے بچے کو جنم دینے کے بعد میں ان کے پاس چلی گئی تھی۔انہوں نے کہا’ تم پہلے جیسی نہیں رہی ہو۔تمہارا وزن بڑھ چکا ہے۔میرے پاس آنے سے پہلے خود کو آئینے میں دیکھ لینا تھا بھینس کے جیسی لگ رہی ہو۔مجھے دوستوں کو باپ بننے کی خوشی میں پارٹی دینی ہے تم اتنی بلکی (Bulky)ہوگئی ہو میں تمہیں ان کے سامنے لانے میں شرم محسوس کروں گا،اسلئے مہربانی کرکےوزن کم کرنے کے بعد ہی میرے پاس چلی آنا‘ سُفیان نے دوسرے ہفتے مجھے واپس بھیج دیا۔ تب ہی تو میں آپ کے پاس آئی ہوں۔
ڈاکٹر زرتاج نے کہا بڑی عجیب بات ہے جہاں تک میں جانتی ہوں سُفیان خود بھی تو موٹا ہے، پھر بھی تمہیں وزن کم کرنے پر زور دے رہا ہے۔
ماحور نے کہا کچھ لوگ خود کتنے ہی بے ڈول کیوں نہ ہوں لیکن بیوی انہیں سڈول ہی چاہیے، سُفیان ان ہی میں سے ایک ہے ۔
عورتوں کی ڈاکٹر زرتاج کے ساتھ گفتگو سن کر میرا سر چکرا گیا ۔میرے لئے یہ پریشانی اور حیرانی کا مقام تھا پر اپنے معاشرے کا یہ چہرہ دیکھ کر اب مجھ میں حیران ہونے کی بھی ہمت نہیں رہی۔ آخر یہ معاشرہ عورت کے لئے زندگی کے راستے ناہموار اور مشکل کیوں کردیتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر زرتاج سے کہا ’میڈم یہ عورت بھی کیا عجیب شئے ہے۔ پیدا ہونے کے بعد کئی مراحل سے گزر کر اس کو زندگی کے ہر موڈ پر چاہے گھر ہو یا باہرزیادتیاں ہی جھیلنی پڑتیں ہیں۔ میرے خیال میں عورت کا کوئی گھر ہی نہیں ہوتا اس کا یا تو میکا ہوتا ہے یا سسرال۔ میکے والے کہتے ’ کور ِچھہ لُک ہند مال‘ ( لڑکی پرایا دھن) سسرالی اسے ’لُک ہنز کور‘ (پرائی بیٹی )کہتے ہیں۔ ہر عورت کی یہی کہانی ہے۔
���
وزیر ،باغ سرینگر،[email protected]