اللہ رب العزت نے جہاں اشرف المخلوقات کو پیدا کر کے بے حد احسان فرمایا ہے وہاں مرد اور عورت کی زندگی کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بنا دیا ہے۔ انہیں ایک دوسرے کی خوشگوار زندگی کا ہمسفر بنایا ہے۔ عورت جیسی صنف نازک کو دنیا میں لاکر ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔ اس کے بغیر دنیا میں زندگی کے پہیہ کا آگے چلنا ناممکن ہے۔ اس سے بازار کے بجائے گھر کی ملکہ قرار دیا گیا ہے۔ قوت، ہمت، حوصلہ، بہادری سے دیکھا جائے تو یہ مردوں کے مقابلے میں کمزور مانی جاتی ہے۔ لیکن برداشت کے وصف سے دیکھا جائے تو صنف نازک قوت برداشت میں کئی گنا مردوں سے آگے ہے۔ اس کے اندر محبت و شفقت، نرمی، سخاوت، برداشت، رحم، عدل و انصاف جیسے اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ کسی نے کیا خوب تعریفیں کی ہے ؎
میں بیٹی ہوں تو اک رحمت ہوں
میں بہن ہوں تو اک دعا ہوں
میں بیوی ہوں تو اک سکون ہوں
میں ماں ہوں تو اک جنت ہوں
بنت حوا ہوں تو اک راز دار ہوں
کیوں کہ میں رحمت بے مثال ہوں
صنف نازک نے نہ صرف گھر کے اندر نجی کام کاج میں بلکہ گھر سے باہر بھی سرکاری کام کی انجام دہی کے دوران برداشت کی عظیم کہانی تراش کر لکھ دی ہے۔ زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف شکل و صورت میں یہ خدا کی تخلیق زدہ بنت حوا ہر جاہ ہر قدم پر برداشت کے اس مادہ کو کھونے نہیں دیتی۔ الغرض برداشت کے اس مرکب کی جتنی بھی تعریفیں کی جائے کم پڑ جائے گے۔
بحیثیت بیٹی:لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں اپنے والدین سے بے پناہ محبت رکھتی ہیں۔ ان کی ہر پکار پر فوراً جواب دیتی ہیں۔ انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم رکھنے میں کوئی قصر باقی رہنے نہیں دیتی ہیں۔ والدین کے ڈانٹے جانے پر بھی لڑکیاں لڑکوں سے سبقت لے کر جلدی مان جاتی ہیں۔ اپنی پڑھائی، ذاتی کام کاج کے باوجود والدین کی خدمت میں ہر دم مصروف العمل نظر آتی ہیں۔ گھر کی صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ والدین کے پسندیدہ چیزوں کے علاوہ ان کے لباس کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ اللہ رب العزت کی طرف سے یہ باپ کے لیے بحیثیت رحمت ہے جس پر اس کے والدین کو نہ صرف مبارک ملتی ہے بلکہ کشادہ رزق بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ بحیثیت بیٹی یہ والدین کے لئے جنت کو حاصل کرنے کا ایک انمول تحفہ ہے جو دو یا تین بیٹیاں ہونے پر ہی نہیں بلکہ ایک ہونے پر بھی حاصل ہو سکتا ہے بشرطیکہ والدین اس کی تربیت شریعت کے مطابق کر پائیں۔ بیٹیاں والدین کے لیے اپنی بے شمار خواہشات کو قربان کرتے ہوئے ان کی رضا کی طلب گار ہوتی ہے۔ والدین کی آنکھوں سے آنسو کا ایک بھی قطرہ بہانے نہیں دیتی لیکن اپنی آنکھوں سے بے پناہ آنسو بہے تو اس کا کوئی بھی غم نہیں۔ والدین کی کمائی کو ذرا بھی اسراف کرنے نہیں دیتی بلکہ اپنی کمائی کی ساری جمع پونجی انہیں کی زیر نگرانی میں محفوظ سمجھتی ہیں۔ صحیح انداز سے دیکھا جائے تو یہ ہیرے موتی سے بڑھ کر نایاب تحفہء خدا وندی ہے جو صرف خوش قسمت انسانوں کو رحمت خداوندی سے ملتا ہے۔
بحیثیت بہن:یہ بات صدیوں پرانی تجربہ سے آزمائی گئی ہے کہ بہن اپنے بھائی سے بلا کسی لالچ، حرص و تمنا کے محبت رکھتی ہے اور ہمیشہ اپنے بھائی کے لیے نیک خواہشات، بلند خیالات، صحت و عافیت اور برکت کی چاہت رکھتی ہے۔ اس کے باوجود بھائی کی طرف سے اسکے مترادف دیکھنے کو ملتا ہے الا ماشاء للہ اکا دکا کے بغیر سب کی تصویر کا منظر یہی پیش کرتی ہے۔ بہن اپنے بھائی کے کمرے کی صاف ستھرائی کا خیال رکھتی ہوئی اس کی کتابیں، وردی، آفس کے کاغذات اور کپڑوں کو بھی بہتر سے بہتر انداز میں رکھتی ہے۔ اور بھائی کی تیز رفتار زبان، ڈانٹ ڈپٹ، ناز و نخروں کو خوش دلی سے برداشت کرتی ہے۔ شادی کے بعد اس مخلص بہن کا کوئی پوچھنے والا بھائی نہیں ہوتا۔ خوشی، تہوار اور دیگر اہم مواقع پر بہن کی نظر تھکتی ہے لیکن بھائی کے انتظار میں تڑپتی بہن کو بھائی کے نہ آنے کی خبر غم فراق میں ڈال دیتی ہے۔ سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی اپنی امید لگائی بیٹھی دروازہ کھلا رکھتی ہے کہ کب میرا بھائی آجائے۔ آنکھوں سے آنسو جاری، دل میں اس کے لیے نیک دعائیں، زبان پر اس کی خیر و عافیت، دماغ میں اس کی معصوم حرکتیں، پھر بھی ایک امید کہ آج نہیں تو کل آہی جائے گا –
بحیثیت بیوی: اس وقت سماج میں سب سے زیادہ کام کاج ایک بیوی کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ صبح کی نیند سے جاگتے ہی چائے ناشتہ تیار کرنا، پورے گھر کی صفائی، بچوں کو اسکول کی تیاری شوہر اور گھر کے دیگر افراد کی ضروریات رکھنا، دوپہر کا کھانا بنانا، شام کی چائے و ناشتہ تیار رکھنا، کپڑے دھونا، رات کو سونے کا بستر فراہم کرنا غرض پورا دن مصروف رہنا کسی سزا سے کم نہیں۔ شوہر کے آفس اور بچوں سے اسکول کے واپس آنے پر شور و غل کا سہنا کسی خدا داد صلاحیت سے مالا مال انسان کے ہی بس کی بات ہے۔ یہ اس کے برداشت کی کتاب کا ایک کھلا ورق ہے کہ شوہر بعض دفعہ دو،تین یا چار شادیاں بھی کرتا ہے لیکن اس کے منہ سے زرا بھی کوئی برا لفظ نہیں نکلتا۔
لیکن اس سب کے باوجود بھی اس کا برداشت کا مادہ دیکھا جائے تو تعریفوں کے پل باندھنے پر بھی کم پڑ جائے گا۔ تصادم والے علاقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کا قوت برداشت اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ صوبہ کشمیر کے ضلع کپوارہ میں کنن پوش پورہ اور درد پورہ جیسے دومضافاتی گاؤں کا تجزیہ کیا جائے تو یہاں کی خواتین پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے گئے اس پر کوہ ہمالیہ سے بڑھ کر عدم برداشت، استحکام اور صبر و تحمل کا جو مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ دنیا کے لیے برداشت کی ایک عظیم کہانی خود اپنی زبانی بیان کر رہا ہے۔
بحیثیت ماں:اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کے لیے ماں کو جنت اور جہنم حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ محبت، شفقت، عنایت، سخاوت، رحمت جیسے اوصاف سے بھری اس پری کی فرمانبرداری میں جنت اور نافرمانی میں جہنم کا مستحق ہونا واضح ہیں۔ ماں کا دوسرا نام محبت ہے جو چٹان سے مضبوط اور پھول سے زیادہ نازک ہے۔ پھول کی پنکھڑی سے اس کی نزاکت، آبشاروں سے اس کا ترنم، ندیوں سے اس کا سکون، چاند سے اس کا حسن، باغوں سے اس کی بہار، موسموں سے اس کا تغیر، سمندر سے اس کی وسعت اور بارش سے اس کی نغمگی جیسے تمام چیزوں کو شفقت کے کھرل میں ڈال کر پیار و محبت کے دستے سے گڑا ماں کا مرکب بنایا گیا ہے۔ ماں کو باپ کی نسبت کمزور اور سچائی کا پیکر بنایا گیا ہے۔ ماں سایہ رحمت، انمول تحفہ قدرت، دعائے جنت، سراپا شفقت، درس صداقت، قدر عظمت، صبر و برداشت کی عظیم کہانی، معاشرے کی بینائی اور زندگی کی توانائی ہے۔
سورۃ یوسف اگر اک نالہ یعقوب ہے
چاہ زمزم، والدہ کے عشق سے منسوب ہے
بعض اوقات درد زہ کی حالت کے دوران جب ماں اور بچہ میں سے صرف ایک ہی کے بچنے کا سوال پیدا ہوتا ہے تو باپ بلا جھجک، بلا تاخیر، بلا کسی سوچ وچار یا مشورے کے بچے کی زندگی کے اوپر عورت کی زندگی کو بچانے کوترجیع دیتا ہے۔ لیکن اگر یہی سوال ایک ماں سے پوچھا جائے تو ماں بلا تاخیر بلا کسی لالچ کے اپنی جان کی قربانی کو اپنے ننھے منھے بچہ کیلئے نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔
پرورش کے دوران طرح طرح کے تکلیف سہہ کر ماں نہ صرف اکتاتی نہیں بلکہ ان مشقتوں سے دل میں سکون، آنکھوں میں ٹھنڈک اور چہرے پر مسکراہٹ محسوس کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ماں کو اپنے بچے کے زمانہ طفل سے ہی بے شمار نوبتیں، پریشانیاں و شرارتیں برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی اس کا پیشاب پاخانہ سے بھرے کپڑے صاف کرنے پڑتے ہے تو کبھی کھیل کود کے دوران جسم کو زخمی کرنا یا دوسروں کو تکلیف پہنچا کر یہ سب ماں کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہر پل ہر لمحہ بچوں کی ضد کے سامنے ان کے ہاں میں ہاں ملاتی، ان کی ہر خواہش کو پورا کرتی، ان کی بھوک و پیاس، صحت و عافیت، پڑھائی و کامیابی کی طرف خاص خیال رکھتی ہے۔ اپنی جیب کھالی ہونے کے باوجود بھی کئی بار بچے سے پوچھنے والی صرف ماں کی ذات ہی ہے۔ بچے کے لیے آرام دہ بستر مہیا رکھ کر خود بغیر فرش کے زمین پر سونے والی ذات ماں ہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن بچوں کو باپ کا سایہ سر سے اٹھا لیکن ماں کی سرپرستی میں بلوغیت کی آنکھیں کھولی تو ان کا سحرا گلستان میں بدلنے والی ماں کے اہم کردار کی عکاسی ہی نظر آتی ہے۔
الغرض ماں ہزاروں تکالیف جھیل کر مختلف اوقات میں دکھ و درد اٹھا کر جب اپنے معصوم بچے پر محبت کی نگاہ ڈال دیتی ہے تو فخر و مسرت سے جھوم اٹھتی ہے اور روحانی سرور و اطمینان حاصل کر کے تمام صعوبتوں کو بھول جاتی ہے۔ اس طرح ان کے اندر جینے کی امنگ اور ان بچوں کے خاطر جینے کی آرزو و تمنا کرتی ہے۔
آج کے دور میں بھی حضرت سارہ علیہ السلام کے طریقہ کار پر کئی خواتین گامزن ہیں جو اپنے بچوں اور شوہر کے خاطر خوشی و فراوانی میں دکھ ودرد کو جھیل رہی ہیں اور جسمانی و ذہنی اذیت برداشت کرتے ہوئے زندگی گزار رہی ہیں۔ آج کے جدید دور میں بنت حوا پر یہ جسمانی برتری کا استعمال آزادانہ طور پر ہرگز نہ کریں۔
رابطہ ۔ہاری پاری گام ترال
فون نمبر۔ 9858109109