Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

عورتوں کا پردہ بھارتی کلچر کا حصہ رہا ہے!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 22, 2022 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
تاریخی طور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ حجاب سے بہت سارے مغر بی ممالک ذہنی اور جسمانی انتشار میں مبتلا کیوں ہے ؟اور ہمیں اس بات کا بھی اقرار ہے کہ کئی ممالک میں حجاب پر پابندیاں کی جاچکی ہیں اور جنہوں نے ابھی تک اس زینے کی طرف قدم بڑھایاہی نہیں، وہ بھی یہاں تک پہنچنے کے لئے پر تول رہے ہیں ۔ بھارت میں تو حالیہ دنوں ایک کالج میں سٹوڈنٹس کو حجاب نہ پہننے یا دوسرے الفاظ میں پردہ کرنے کی جو مما نعت کی جاچکی ہے ،یہ اپنے آپ میں ایک تحیر انگیز اور فکر انگیز واقع ہے ، اس لئے جذباتی اور ہیجانی صورت حال میں اس کا جائزہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا بلکہ ہمیں اس سلسلے میں بہت ہی ٹھنڈے دل و دماغ سے ان عوامل کو کھوجنا ہوگا، جو حجاب کے خلاف ہیںاور حجاب پر پابندی کی طرف منظم انداز میں آگے اپنا سفر جاری رکھے ہوئےہیں۔ اس ملک میںجہاں یہ بات سو فیصد درست ثابت ہورہی ہے کہ ایک مخصوص عوامی جتھے کو ہر غیر قانونی اور غیرآئینی طرز طریق اختیار کرنے پر کھلی چھوٹ ملی ہے ، یہاں تک کہ پچھلے برسوں کے دوران کئی معصوم جانوں کو تلف اور بے گناہوں کو قتل بھی کیا جاچکا ہے اور کہیں پر بھی قانون اور آئین کی بالادستی نظر نہیں آرہی  ہے، اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اصل عوامل کو انتہائی باریک بینی سے کھوجا جائے ۔اصل مسلہ ’’حجاب‘‘ نہیں۔ کیونکہ حجاب مسئلہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس پس منظر میں کہ یہاں بھارت میں ہزاروں برسوں سے ،یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ویدک زمانوں سے ہی کسی نہ کسی صورت میں پردے کا رواج رہا ہے بلکہ پردہ ، گھو نگھٹ ، چنری، ساڑھی ویدک زمانے سے بھی ڈریس کا حصہ رہا ہے۔ کیگان پال مورخ کے مطابق پردے ، گھونگھٹ یا چُنری سے چہرہ چھپانے کا رواج زمانہ وسطیٰ سے رہا ہے اور ماہر آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ چتور گڑھ قلعے کی پڑتال سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس میں زنانہ خانے الگ تھے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ بھارت میں عورتوں کے پردے کا رواج کلچر کا حصہ رہا ہے ، پردے اور گھونگھٹ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ والمیکی نے اپنی رامائن میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ بن باس روانہ ہونے سے پہلے رام نے سیتا ماتا کو گھونگھٹ اٹھاکر عوام کو درشن دینے کی اجازت دی تھی ،یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رام کے زمانے میں پردہ تھا۔ اپنے بچپن کی ایک محفل میں رام سیتا ماتا پر گفتگو کرتے ہو ئے میرے ایک ہندو دوست نے میری معلومات میں یہ اضافہ کیا تھا کہ بن واس کے چودہ برس اکھٹے گزارنے کے باوجود بھی لچھمن اپنی بھابی سیتا کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھابلکہ اس سے پاؤں سے ہی  پہچانتا تھا۔ اور یہ ہم اور آپ بھی اچھی طرح خود دیکھتے آئے ہیں کہ کچھ دہائیوں پہلے بھی ہندو عورتیں ہمیشہ گھونگھٹ سے اپنا چہرہ چھپایا کرتی تھیں اور یہ کوئی فیشن نہیں تھا بلکہ ان کی مذہبی رسومات میں شامل ایک عمل تھا۔بھلے ہی یہ رواج رہا ہو یا بھارتی سنسکاروں میں شامل رہا ہو اور آج بھی ابھی تک بھارت کے کئی علاقوں میں پردے کا رواج باضابطہ موجود ہے ، جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ لیکن اس سب کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی کہ ،سکھ برادری داڑھی رکھتی ہے ، پگڑی باندھتی ہے جو اُن کے مذہبی ڈریس کوڈ کی شناختیںہیں اور اس طرح بھارت ،جو رنگا رنگ تہذیبی اور تمدنی کثرتوں کا حامل ہے،میں کسی کو کسی پر اعتراض نہیں اور اعتراض کرنے کا سوال آئینی اور منطقی طور پر بھی پیدا نہیں ہوتا ، پھر ایک مسلم شناخت نشانے پر کیوں ؟اس کا مختصر سا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ پچھلی دہائی سے بھارتی سیاست کی سوچ میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوچکی ہے اور ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نئی سوچ جہاں پسماندہ ،اَن پڑھ اور نچلے طبقوں کے لہو میں دوڑنے لگی ہے ،وہاں اِس ’’نئی فکر ‘‘ نے اب اچھے اور متوسط طبقوں کے ساتھ ساتھ دانشور طبقوں میں بھی سرایت شروع کی ہے اور اس سے یوگی آدتیہ ناتھ نے بہت مختصر اور جامع طریقے پر اپنی حالیہ انتخابی مہم میں بغیر کسی لاگ لپٹ کے پیش کیا تھا ،جس سے بھارت کی اس بڑی ریاست یعنی اتر پردیش کے عوام نے قبول کیا ہے ، اور وہ جملہ تھا’’ اَسی بمقابل بیس‘‘۔ اس لئے آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ صرف پردے کے خلاف ہی منظم مہم نہیں بلکہ ایک پوری ملت کے خلاف چھیڑی ہوئی مہم کا ایک حصہ ہے۔ جس کا ایک چھوٹا ساجُز حجاب یا پردہ ہے۔ پچھلی دہائی سے ہم نے اور آپ نے وقفے وقفے کے دوران ، نئی نئی اصطلاحوں کے پردوں میں اس مہم کی سپرٹ کو دیکھا اور سمجھا ہے۔ وہ گھر واپسی کی بات ہو ، لو جہاد ، ایک ہی سول کوڈ کی بات ہو ، تین طلاق کا معاملہ ہو ، مسلم مدرسوں کے معاملات ہوں ،مسلم لباس کی پہچان ہو ، یہ سب ایک ہی نیو کلیس کے کمپونٹس ہیں ، جنہیں وقت کے تقاضوں کے مطابق آگے کردیا جاتا ہے اور کر دیا جائے گا۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ اس ’’نئی فکر‘‘ کو صرف مسلم پردے پر اعتراض ہے ، نا سمجھی او را حمقانہ خیال ہوسکتا ہے ، بلکہ واضح اور عیان ہے کہ جس راشٹرواد پر موجودہ سرکا رچل پڑی ہے، اُس کے خدو خال کسی اور رنگ اور پہچان کو قبول کرنے سے عاری ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس فریم ورک میں زعفرانی رنگ کے سوا کوئی اور رنگ ہو ،یہ کسی صورت میں قابلِ بر داشت نہیں۔ پردے کا بوال ابھی ابھی حال ہی میں پانچ ریاستی انتخابات کے دوران اُس وقت پیدا ہوا، جب ایک طالبہ کو ایک بھیڑ نے گھیرنے کی کوشش کی اور طالبہ نے جیسا کہ خود بیان دیا کہ’’ ڈر اور خوف کی وجہ سےنعرہ تکبیر بلند کیا کیونکہ یہ میرا معمول ہی ہے کہ ایسے خوف کے لمحات میں میری زباں پر اللہ ہی کی بڑھائی آجاتی ہے ‘‘۔ چونکہ مسلم قوم ہی جذباتی اور جذبات کی رو میں فوراً ہی دور تک نکل جاتی ہے، اس لئے اس بات پر توجہ مر تکز نہیں ہوئی کہ آگے مستقبل  میں کیا ہونے والا ہے اور کیا ہوسکتا ہے؟ اس کے بر عکس اُ س کو ایک دوسرے ہی انداز میں پیش کرکے ، اس کی بہادری کو ایک نظریے اور فلسفے کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف قرار دے کر اکثریتی کیمو نٹی کورد عمل کا موقع دیا اور اس مخصوص ذہن کے تعلیمی اداروں نے بھی با ضابطہ پردے کو کالج ، سکولوں کے ڈریس کوڈ کے خلاف قرار دے کر، دختران ملت کو تعلیمی اداروں سے خارج کرنے اور انہیں تعلیم کے زیور سے محروم کرنے کا جواز بنادیا۔میڈیا نے اپنی روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے اس سے مسلم جہاد سے موسوم کیا کیونکہ انہیں ہر چھوٹی سی بات میں بھی مسلم بیان یا حق کی گفتگو راشٹر واد کے خلاف ہی نظر آتا ہے۔ اس پس ِ منظر میں بنیادی آئینی حاصل حقوق کی بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کیونکہ انصاف کے ادارےسے یاتو فیصلے نہیں آتے یا اکثریتی عوام کے شعور کی تسلی و تشفی کو مد نظر رکھ کر ہی فیصلے دئے جاتے ہیں ۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ایک دہائی پہلے تک سیاسی میدان بھی کچھ اور تھے ، جہاں کانگریس اور دوسری مقامی پارٹیوں کو بھی مسلم ووٹران کی فکر ستایا کرتی تھی اور کچھ نہیں تو بھی مسلم کو کسی حد تک جو سجدے کی اجازت تھی ،اُس سے وہ اپنی آزادی سے ہی تصور کرتا تھا لیکن اب ، مسجدوں ، اذانوں اور سڑکوں پر بھی سجدوں پر پابندیاں لگ رہی ہیں، اس لئے اس کا احساس اب گہرا ہورہا ہے کہ مسلمان کسی فریم میں فٹ نہیں۔ آگے کے حالات کچھ زیادہ ہی مخدوش ہوں گے کیونکہ پچھلے انتخابات اور ان پانچ ریاستی انتخابات میں بھی کانگریس اور دوسری سیکولر سیاسی پارٹیوں کو ’’نرم ہندوتا ‘‘ کا لباس مجبوراً پہننا پڑا۔جبکہ یوپی کے انتخابات میں اب کی باربھی ’’ہندوتا ‘‘ کی کشتی ہی ساحل سے آلگی اور کوئی بھی تعلیمی ، نوکری ، تعمیر و ترقی وغیرہ مدعا عوام کے دلوں کو مسخر نہیں کر سکا ، روٹی روزی سے بے پروا اپنے ہندوتا کے خواب کو ساکار کرنے کی جدوجہد میں یہ سٹیٹ بہت آگے ہے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ آخر بابری مسجد ، ایودھیا، رام جنم بھومی اور دوسری سینکڑوں مساجد کو مندروں میں تبدیل کرنے اور مسلمان کو پشت بہ دیوار کرنے کے لئے یہاں کی فضا بہت ہی زیادہ ہموار اور مناسب ہورہی ثابت ہے۔ اس لئے سب سیکو لر پارٹیاں شاید اب آنے والے انتخابات میں اُن ہی لائنوں پر گامزن ہوکر ووٹ بٹورنے کی کوشش کریں، جس کا واضح مطلب یہی ہوگا کہ وہ بھی مسلم ووٹ کو نہ تو کوئی اہمیت دیں گے اور نہ ان سے کسی قسم کا تعاون لینے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ عددی طور پر دیکھا جائے توبی جے پی نے واضح کر دیا ہے کہ اس کیمونٹی کو حاشئے پر رکھ کر اور مکمل نظر انداز کر کے بھی مستحکم حکومتیں تشکیل دی جا سکتی ہیں اور یہ کہ اس راشٹر واد میں کسی اقلیت کی، وہ چاہئے، ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہی کیوں نہ ہو ،کوئی ضرورت اور اہمیت نہیں۔ اس بات کو ایک حقیقت ہی کی طرح تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اوپشن موجود نہیں۔ پھر سب سے بڑا سوال کیا بنتا ہے اس کے سوا کہ آگے اس اقلیت کی اسٹریٹجی اور لائحہ عمل کیا ہو ؟بی جے پی عرصہ دراز سے ہندو کارڈ کھیل کر اس پوزیشن تک پہنچی ہے اور اس ہندو کارڈ میں نمایاں طور پر مسلم اقلیت کے خلاف اپنے اقدامات کی بڑائی کو انلارج بھی کرتی ہے اور نئے نئے اقدامات اور مسجدوں کی مسماری یا مسلم کلچر اور شناخت کو حتمی طور پر سمیٹنے کے بیانات میں بھی بڑھوتری کردیتی ہے جیسا کہ حالیہ یوپی انتخابات میں سادھوؤں ،سنتوں مہنتوں ،مہاراجوں نے کھلے طوربیانات دےدئے ۔ جن پر کوئی قدغن نہیں لگی کیونکہ اس معاملے میں اب سارے ’’اَسی‘‘ایک ہی پیج پر ہیں اور اگر کچھ اس میں ابھی انیس بیس کا فرق ہے بھی تو آئندہ انتخابات تک ، سب سیکولر پارٹیاں بھی اپنی بقا کے لئے اِسی راہ پر لازمی طور پر آجائیں گی۔ ایسا ایک خیال دانشوروں کی دانشمندی سے پھوٹ رہا ہے کہ کچھ عرصے کے لئے مسلم کیمونٹی کو ووٹ اور الیکشن کی سیاست سے ہی الگ رہنا چاہئے اور اس تمام عرصے میں مل کر تعلیم اور مسلم کیمونٹی کی ذہنی تعمیر و ترقی پر ہی مرتکز ہوکر بی جے پی کو انتخابات میں مسلم مخالف ترنگ پیدا کرنے سے باز رکھا جائے کیونکہ جب وہ نہ تو ووٹ کریں گے اور نہ کسی پارٹی ہی کی حمایت کریں گے، پھر۸۰ اور ۲۰  کے سنگین معاملے کی ہوا ہی نکل جائے گی۔ شاید اس سے ہندوستانی عوام اپنے ووٹ کو دوسرے مدعوں پر مرکوز کرسکیں اور دھرم سنکٹ کی سیاست کو بھارتی عوام الوداع کہہ سکیں ۔ یہ خیال ابھی بھی اپنے جنم کے مر حلے میں ہے لیکن یقینی طور پر ڈبیٹیبل بھی ہے اور اس پر غور و فکر کی بھی ضرورت ہے ، نہیں تو کوئی نیا آپشن ڈھونڈنا پڑے گا جو مخلص مسلم رہنماؤں اور علماء کی ذمہ داری ہے۔
[email protected]>
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

۔9500بنکر دستیاب، شہری علاقوں میں بھی تعمیرکئے جائینگے:ڈلو متاثرہ خاندانوں کی واپسی فورسز کی کلیئرنس کے بعد ممکن،ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے کے اقدامات جاری
پیر پنچال
بوتلوں اور ڈبوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت پر پابندی
صنعت، تجارت و مالیات
جنگ بندی اعلان کے بعد تاریخی مغل روڈ پر بھی رونق واپس لوٹ آئی پیرپنچال میں لوگوں نے راحت کی سانس لیکر اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردیں
پیر پنچال
ریکی باں ملہت پل تکمیل کے باوجود عوام کیلئے تاحال بند عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا ، عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر
پیر پنچال

Related

کالممضامین

! پہلگام قتل عام | جو سرحد کے آرپار تباہ کاریوں کی وجہ بنا قلم قرطاس

May 13, 2025
کالممضامین

جنگ حل نہیں! امن ہی اصل فتح ہے فکر و فہم

May 13, 2025
کالممضامین

آتشی گولہ باری اور شہر پونچھ کی تباہی | قاری محمد اقبال کی شہادت کا آنکھوں دیکھا احوال آنکھوں دیکھی

May 13, 2025
کالممضامین

! ہندوپاک جنگ ٹل تو گئی لیکن خاصی تباہی کے بعد حق نوائی

May 13, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?