نئی دہلی//سابق مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے وادی کے موجودہ حالات کو انتہائی گھمبیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم کشمیر کو کھونے کے دہانے پر ہیں‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ کشمیر میں ہتھیار اٹھانے والوں اور اسے(کشمیر کو) پاکستان کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کرنے والوں کی تعداد محض سینکڑوں میں ہے ، جبکہ کشمیری عوام کی غالب اکثریت آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج نے اختلاف رائے اور گڑبڑی پر قابو پانے کے لئے طاقت کے استعمال کی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ روزنامہ انڈین ایکسپریس میں اپنے کالم میں انہوں نے کشمیر کے موجودہ حالات میں سدھار لانے کے لئے ریاست میں گورنر راج نافذ کرانے، تمام متعلقین بشمول علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کئے جانے، مذاکرات کے لئے مذاکرات کاروں کی تقرری عمل میں لانے ، فوج و دیگر سیکورٹی فورسز کی تعداد کم کرنے اور پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر چوکسی سخت کرنے کی 5 نکاتی تجاویز پیش کی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے نوشتہ دیوار بالکل واضح ہے۔ کشمیری عوام کی بیگانگی تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ ہم کشمیر کو کھونے کے دہانے پر ہیں۔ ہم طاقت کے استعمال کی پالیسی، وزراءکے سخت بیانات، فوجی سربراہ کی سنگین تنبیہات ، مزید فوجیوں کی تعیناتی یا احتجاجیوں کو ہلاک کرنے سے جاری صورتحال پر قابو نہیں پاسکتے ۔انہوں نے کہا ہے ’جموں وکشمیر نے اچھا دور اور برا دور بھی دیکھا ہے، لیکن موجودہ دور اب تک کا بدترین دور نظر آرہا ہے‘۔ پی چدمبرم نے کہا ہے کہ کشمیر میں پی ڈی پی کو ایک دھوکے باز جبکہ بی جے پی کو ایک غاصب کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔یہ ایک بہت بڑی اشتعال انگیزی بنی ہوئی ہے۔ پی چدمبرم نے حالیہ پارلیمانی ضمنی انتخابات میں کم ترین شرح رائے دہی کو کشمیری عوام کا ریاستی و مرکزی سرکاروں پر عدم اعتماد کا اظہار قرار دیا ہے۔سابق مرکزی وزیر نے کہا ہے کہ 1947 ءمیں جموں وکشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ایک بڑے سودے کے تحت ہوا اور دفعہ 370 کی 1950 ءمیں بھارتی آئین میں شمولیت نے اسے متجسم کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ریاست اور مرکز میں ہر ایک سرکار نے کشمیر سے ابھرنے والے چیلنج کا جواب مزید تنبیہات، مزید فوجیوں اور مزید قوانین سے دیا ہے۔ چدمبرم نے کہا ہے ’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کشمیر ایک ایسا موضوع ہے جس پر وزرائے اعظموں کی رٹ نہیں چلتی ہے‘۔انہوں نے کہا ہے ’میرا ماننا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی نے حقیقی طور پر مسئلے کے حل کے لئے پہل کی۔ انہوں نے انسانیت کی بات کی۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کو تاریخ کا شدید احساس تھا۔ انہوں نے نئے خیالات جیسے راونڈ ٹیبل کانفرنسوں، افسپا میں ترمیم اور مذاکرات کاروں کی تعیناتی کو جگہ دی، لیکن بالآخر اسٹیبلشمنٹ کے نظریے کے سامنے سرینڈر کیا‘۔ پی چدمبرم نے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی بات کرتے ہوئے کہا ہے’ نریندر مودی نے نواز شریف کو حکومت کی حلف برداری کی تقریب میں بلاکر سب کو حیران کردیا، لیکن انہوں نے بھی فوراً اسٹیبلشمنٹ کے نظریے کو گلے لگایا‘۔انہوں نے کہا ہے کہ ریاستی اور مرکزی سرکار کی جانب سے اختیار کی گئی پالیسیوں نے میری اس دلیل کو صحیح ثابت کردیا ہے کہ ’ہم کشمیر کو کھو رہے ہیں‘۔چدمبرم نے 5 نکاتی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے ’ملک مخالف قرار دیے جانے کے خطرے پر میں پانچ اقدامات اٹھائے جانے کا مطالبہ کررہا ہوں‘۔ اپنے سب سے پہلے نکتے میں چدمبرم نے ریاست میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے ’پی ڈی پی بی جے پی حکومت سے مستعفی ہوجانے کے لئے کہا جائے۔ ریاست کی باگ ڈور گورنر کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ این این ووہرا نے بحیثیت گورنر بہت اچھا کام کیا ہے، لیکن یہ وقت نئے گورنر کی تعیناتی کا ہے‘۔ انہوں نے اپنے دوسرے نکتے میں تمام متعلقین کے ساتھ مذکرات شروع کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا ہے ’اس کا اعلان کیا جائے کہ مرکزی سرکار تمام متعلقین کے ساتھ مذاکرات شروع کرے گی۔مذاکرات کا آغاز سیول سوسائٹی گروپوں اور طلباءلیڈروں سے کیا جائے۔ بالآخر علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت شروع کی جائے‘۔ چدمبرم نے اپنے تیسرے نکتے میں بات چیت کے لئے راہیں ہموار کرنے کے لئے مذاکرات کاروں کی تعیناتی کی تجویز پیش کی ۔ انہوں نے اپنے چوتھے نکتے میں فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کی تعداد میں کمی لانے کی بات کرتے ہوئے کہا ہے ’فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی موجودگی میں کمی لائی جائے اور وادی میں لاءاینڈ آڈر کی برقراری کی ذمہ داری ریاستی پولیس کو سونپ دی جائے‘۔چدمبرم نے اپنے پانچویں نکتے میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد پر چوکسی بڑھانے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد کو تمام ذرائع سے حفاظت فراہم کی جائے۔ سرحد پر دراندازوں کے خلاف باز رکھنے والی کاروائی کی جائے، لیکن وادی میں انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں کو ہولڈ پر رکھا جائے۔