ایک برس قبل جب پاکستان میں نواز شریف نااہل قرارا دے کر وزارت عظمیٰ کے منصبِ جلیلہ سے ہٹائے گئے تو ان کی ہر تقریر کا یہ لازمی جملہ زباں زدِ عام تھا ’’مجھے کیوں نکالا گیا‘‘ ۔اب یہ جملہ محبوبہ مفتی پرمنطبق دکھائی دے رہا ہے ۔ وہ کسی اورسے نہ سہی اپنے آپ سے ضرورپوچھ رہی ہوں گی کہ بی جے پی نے مجھے کیوں نکالا ؟ مفتی صاحب کے خوابوں کو کیوں دھوکہ دیا ؟ میرا دل بلکہ ضمیر کہتا ہے کہ محبوبہ مفتی سے ہر کشمیری کی زخمی روح کا یہ سوال ہو نا چاہیے کہ ہمیں مرہم کاری کے نام پرکیوں دھوکہ دیا ۔آج محبوبہ جی اپنے خوابوں میں مودی جی سے ضرور گلہ کر رہی ہوں گی: مودی صاحب میںآپ کے اس سیاسی سرجیکل اسٹرائیک کے بعد دنیا کو کیا منہ دکھاوں گی؟مجھے عمر عبداللہ کے سامنے کیوں اتنابے توقیر کیا ؟کیا یہی مطلب ہے بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا؟ میں خم ٹھونک کر لوگوں سے کہتی رہی مفتی صاحب کے خواب پورے ہو رہے ہیں ، کیا یہی وشواس گھات ان کے خوابوں کی تعبیر ہے ؟ میرے حریف مجھ پر چوٹ کرتے ہیں مفتی صاحب اتنے نا معقول خواب کیوں دیکھتے تھے ؟کیا کشمیریوں کا خون بہانا بھی مفتی صاحب کے خوابوں کا حصہ تھا؟ کیاہر گھر کو ماتم میں ڈبونا بھی ان کا پسندیدہ خواب تھا ؟ پی ڈی پی کی کرسی کھسکاکر اور اسے سرراہ لاوارث و بے دست و پا چھوڑ نا بھی کیا اسی خواب کی تعبیر ہے؟
کشمیر میں مسلسل خون خرابے کو ارنب گوسوامی کے بغیر کون جائز ٹھہراسکتاہے ؟ اس سرزمین کی مٹی اور ہوا سے بنا انسان سیاست نہیں چاہتا صرف اپنی محبتیں محبت بانٹنا چاہتا ہے مگر افسوس اس کے سر پر سات دہائیوں سے لاشوں کی تعداد بڑھانے والوں کو ہی اقتدار کالالچ دے کر مسلط کیا جاتا رہا ۔ محبوبہ مفتی سے پہلے بھی تما م وزرائے اعلیٰ سے یہی ایک کام لیا گیا اور ہمیشہ منصبِ حکومت کسی ایک سے چھین لینے کے بعد اسے صرف اُس چہیتے شخص کو سونپ دیا جاتا ہے جو اس منصب کے آگے مزید انسانی لاشوں کے انبار لگا دے ۔ یہاں سیاسی محل صرف لاشوں پر ہی تعمیر کیا جا تے ر ہے ہیں ۔ خیرمحبوبہ جی آج بی جے پی کے دورِ حکومت میں ’’ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے‘‘ گنگنا کر یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوسکتی ہیں کہ مجھے کیوں نکالا مگر جب یہی جملہ غلا م نبی آزاد صاحب کی زبان پر آیا تھا تب پی ڈی پی کی حکومت تھی ۔شاید مفتی صاحب نے تب یہ الٹا سیدھاخواب نہ دیکھا تھا کہ گردش ایام میں کوئی کنول کا پھول اس کی قلم کو دوات کو یوں کوڑ دان میں پھینک دے گا کہ اس پر کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔ ان دنوں آزاد صاحب کا وہی برا حال ہوا تھا جو آج محبوبہ جی کا ہورہا ہے ۔ محبوبہ مفتی کی سرکار کو پچھلے تین برس سے لگا تاربی جے پی نے بڑے بڑے سبز باغوں کی سیر کرائی ، مرکز سے کھربوں روبے پیکیج نما خواب دکھائے ، ڈیولپمنٹ کے جھوٹے وعدے دئے اور انہی خوابوں خیالوں میں مدہوش ہوکر محبوبہ جی کشمیر کو تسلسل کے ساتھ مرگ زار بناتی رہیں ، بستیاں اُجاڑتی رہیں ، نوجوانانِ کشمیر کو جیلوں میں بند کرو ا تی رہیں۔ مظلوم لوگ اس انتظار میں تھے کی شاید تاریکی کا اگلا قدم اُجالے کی اور ہوگا اور ہم ایجنڈا آف آلائنس کا سورج طلوع ہوتے دیکھیں گے مگر ایں خیال و محال وجنوں۔ اب ریاستی عوام کو اپنا اگلا قدم سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ اٹھانا ہوگا۔فی الحال تو ریاست سیدھے مرکز کے رحم و کرم پر ہے ، جب کہ ریاست کو چو طرفہ نقصان کی بھٹی میں جلانے والے لوگ سرگرم عمل ہیں ۔ نئی نسل اپنے آپ کو خسارے کی چوکھٹ پر کھڑی دیکھ رہی ہے ۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہیںمحبوبہ جی کا استعفیٰ بی جے پی کے کسی گرینڈ پلان کا حصہ تونہیں ۔در اصل بی جے پی ۲۰۱۹ء سے پہلے ان تمام لوگوں سے الگ ہونا چاہتی ہے جن کا تعلق ماضی میں کسی طرح سیکولرازم رہا ہو یا یہ اقلیتی طبقے سے ہوں۔بی جے پی کا ووٹ جس جذباتی طبقے میں مستحکم ہے وہاں تعمیر وترقی اور قومی مفاد کی پرواہ نہیں بلکہ ہوا بازی کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں جھوٹ کی مارکیٹ ہے،وہاں جذباتیت کی دوکانداری ہے ، وہاں نفرت کا مسالہ بکتا ہے، اس مخصوص مسالے کو خریدنے والے اندھ وشواس میں کوئی بیرونی ملاوٹ نہیں چاہتے، لہٰذا محبوبہ جی کو اپنے سے الگ کرنا گریٹ آلائینس کے منشور کی خفیہ شق ہونا بعید ازامکان نہیں۔ریاستی عوام ایسے گھمبیر حالات میں اگر بی جے پی کی دھوکہ باز سیاست کو ردکر کے اسے جمہوری انداز میںسبق سکھانا چاہتے ہوں تو انہیں بہت بہت چوکنا اور حساس ہونا پڑے گا۔ عوام کا بھروسہ جمہوریت سے اُٹھنے نہ پائے اس کے لئے جمہوریت پسند رہبرانِ سیاست کو عوام کے مجروح جذبات کی مرہم پٹی کا فوری انتظام کرنا ہوگا تاکہ ریاست جموں و کشمیر ترقیاتی کاموں میں مزید کئی صدیاں پیچھے دھکیلنے کی ذہنیت کا ستیا ناس ہو اور یہاں کے نمائندے عوام کے لیے کچھ اچھا ور بھلا کر نے والے مردان ِ کار ثابت ہوں ۔ اس بار ہمیں دھوکہ کھانے کے بجائے فریب کاروں کا ناطقہ بند کرتے ہوئے جمہوری حق کا استعمال عقل کا دروازہ کھول کر کر نا ہوگا ، تب جاکر ہمیں اُن خود غرض سیاست دانوں سے چھٹکارا ملے گا جو کشمیر میں مار کاٹ کے عوض مر کز سے کرسی عاریتاً لیتے ہیں اور پھر رفو چکر ہوجاتے ہیں۔
رابطہ :تحصیل سرنکوٹ ،پونچھ ریاست جموں و کشمیر
فون نمبر 7889368623