اب جبکہ جموں و کشمیر میں ایک بار پھر ایک منتخب حکومت قائم ہوچکی ہے ،جس کی سربراہی نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ کے ہاتھوں میں آئی ہےتو اس منتخبہ عوامی حکومت کی اولین ذ مہ داری ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے عوامی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کےسیاسی مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک ٹھوس حکمت ِ عملی کے تحت ایسا لائحہ عمل مرتب کرے،جس سے گزشتہ دس سال کے دوران عدم توجہی کے شکارعوامی مسائل کو دورکیا جاسکے۔ظاہر ہے کہ ان دس برسوں کے دوران جموں و کشمیر کی معاشی ترقی پر کوئی خاص توجہ مرکوز نہیں رکھی گئی اور نہ ہی بے روز گار نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے گئےجس کے نتیجے میں یہاں نوجوانوں کی ایک خاصی تعدادذہنی اُلجھنوں کا شکار ہوگئی اور عام لوگوں میںبھی مایوسی اور اضطرابی کیفیت چھائی رہی ۔ اب اس حکومت کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی کاموں کے ذریعے عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور اضطراب کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔بے شک یہ بات بھی برحق ہےکہ جس طرح مرکزی حکومت نےریاست ِ جموں و کشمیر میںجہاں دفعہ 370 اور دفعہ 35-Aکو منسوخ کر دیا ، وہیں جموں وکشمیر تنظیم نوایکٹ 2019میں 12جولائی 2024کو مختلف ترامیم کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر کو غیر معمولی اختیارات عطا کرکےجموں وکشمیر کی اس نئی حکومت کو بے دست و پا کرکے رکھ دیاہےجس سے یہ خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں کہ جموں و کشمیر کی یہ منتخبہ حکومت عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرپائے گی یا مرکزی حکومت اِسے اپنے ہی منشاءکے مطابق چلنے پر مجبور کرے گی۔اس لئےیہ کہنا بے جانہیں ہوگاکہ اس منتخبہ حکومت کے لئےعوام کے ساتھ کئے گئے تمام وعدوں کو پورا کرنا انتہائی دشوار ہوگاتاہم اس بات کا قوی امکان ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کو درپیش بنیادی مسائل حل کرانے میں اُسے زیادہ دِقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گاکیونکہ مرکزی حکومت بھی ہرگز یہ نہیں چاہے گی کہ ہر معاملے میں یکطرفہ اور جانبدارانہ فیصلوں سے اس منتخبہ حکوت کو اُلجھاکر ایسی صورت حال پیدا کی جائے کہ جموں و کشمیر کے عوام کا حالیہ اسمبلی انتخابی نتائج کی عظمت اور منتخبہ عوامی حکومت کےقیام کا مقصد ہی ضائع ہو جائےاور عوام اپنے جمہوری حقوق سے محروم ہوکرمرکزی حکومت سے بد دِل اور بد ظن ہوجائے،جس سے پھر یہاں غیر یقینی سیاسی ماحول یا نامساعد صورت حال پیدا ہوجائے۔اس معاملے میں جموں و کشمیر کی تمام سیکولرسیاسی پارٹیوںپر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ عوامی مسائل حل کرانے میں منتخبہ حکومت کے شانہ بشانہ رہیںتاکہ حکومت ،جموں و کشمیر کے عوام کے توقعات پر پورا اُترنے کی کوششوں میں کامیاب ہوجائے۔ظاہر ہے کہ کشمیری عوام ایک طویل عرصے سے ظلم،ناانصافی ،استحصال اور احساسِ بیگانگی کے دور سے گزررہے ہیں،ان میں اعتماد کی بحالی اور ان کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرناتمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہےتاکہ وہ چین و سکون کی زندگی گزار سکیں۔اب جبکہ ایک منتخبہ حکومت قائم ہوچکی ہے،جس کے ساتھ جموں و کشمیر کے عوام نے کافی امیدیں وابستہ رکھی ہیں، اگر اس جمہوری حکومت کے قیام کے بعد بھی عوام کی امیدیں پوری نہیں ہوجاتیں اور امن و امان کی صورت حال بحال نہیں ہوجاتی تو اس صورت حال میںعوام کو درپیش مسائل سُلجھنے کے بجائے مزید اُلجھتے جائیں گے اور حالات پھر دِگرگوں ہونے کا احتمال لاحق ہوگا۔اس لئے مرکزی حکومت کے لئے لازم ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں امن کی بحالی کے لئے جموں و کشمیر کی منتخبہ حکومت کا ہر طرح سے تعاون کرےاور کشمیریوں کی جائز مانگوں کو پورا کرنے میں زیادہ دیر نہ لگائیں تاکہ کشمیریوں کے ساتھ اُن کی اٹوٹ محبت کا کھلم کھلا مظاہرہ ہوجائے۔