ریاست میں گورنر راج نافذ ہونےکے بعد انتظامی سطح پر جو تحرک دیکھنے کو مل رہا ہے، اُسے عوام کی جانب سے بھر پور پذیدائی حاصل ہو رہی ہے اور سبھی حلقوں کی طرف سے اسے سراہا جا رہا ہے۔ یہ عمل ہمارے اُن سیاستدانوں، جو وقت وقت پر ریاست میں سریرآرائے اقتدار رہے ہیں اور جو یقینی طور پر مستقبل میں کسی بھی وقت مسند حکومت پر براجمان ہو سکتے ہیں، کی آنکھیں کھولنے کی لئے کافی ہونا چاہئے۔ عوامی حکومتیں چونکہ عوام کےووٹ سے برسر اقتدار آتی ہیں لہٰذا عوام کو درپیش مشکلات اور مسائل کا ازالہ کرنا انکی ترجیحات میں ہونا چاہئے تھالیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ان ادوار میں اقرباء پروری اور سیاسی اثر و رسوخ کو اولیت دے کر اُن عام لوگوں کے حقوق پر شب خون مارا جاتا ہے جن کے ووٹوں کے طفیل وہ حکومت میں آ ئے ہوتے ہیں۔سابق پی ڈی پی اور بی جے پی سرکار کے دور میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ سماج کا غالباً ہی کوئی طبقہ رہا ہوگا، جسے مشکلات اور مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ وہ ایسے سرکار ملازمین ہوں جو برسہا برس سے مختلف سکیموں کے تحت معمولی مشاہرے پر عارضی ملازمتیں کر رہے ہوں یا پھر ایسے لوگ جنہوں نے سرکاری پروجیکٹوں کی تکمیل کےلئے ان وعدوں پر اپنی زرعی اراضی سرکار کو دے دی کہ انہیں متعلقہ محکموں میں ایڈجسٹ کرکے انہیں روزگارکے مستقل مواقع فراہم کئے جائینگے، لیکن اب تک ان کے حق میں کچھ نہیں ہوا۔ اسی طرح تاجر پیشہ اور مختلف مقامی صنعتوں سے وابستہ لوگوں کے مختلف مطالبات پر بھی کوئی توجہ نہ دی گئی۔ آج جب اقتدار نہ رہا تووہی لوگ ،جو کل تک مسند اقتدار پر براجمان تھے ،آج ایک دوسرے پر عوامی مسائل کا ازالہ نہ کرنے اور خطوں کے ساتھ نا انصافی کا ارتکاب کرنے کی الزام تراشیاں کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر انتظامیہ کی جانب سے عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کی مہم کو عوامی حلقوں کی جانب سے بھر پو ر طریقےپر سراہا جارہا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ تین ہفتوں کے دوران انتظامیہ کی طرف سے قائم کردہ شکایتی سیل میں5242شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں سے4271میں کچھ کا ازالہ تو کیا گیا ہے جبکہ باقی ماندہ مختلف دفاتر میں زیر کاروائی ہیں ۔گورنر انتظامیہ کی جانب سے شکایات کے ازالہ کی خاطر جو میکانزم ترتیب دیا گیا ہے، اُس میں سرینگر اور جموں کے دارالحکومتی شہروں میں گورنر کے صلاح کار عوامی شکایات سنیں گے۔ اس کے علاوہ صلاح کار وں کی جانب سے ایسی نشستوں کا اہتمام کرنے کا بھی فیصلہ ہوا ہے جس میں عام شہر انفرادی طور پر یا وفود کی صورت میں انتظامیہ تک مشکلات اور مسائل کے بارے میں اپنی شکایات پہنچا کر مختلف معاملات پر اپنا نکتہ نظر پیش کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد صلاح کار متعلقہ محکموں کے ساتھ رابطہ کرکے جائز شکایات کے ازالہ کی راہیں تلاش کرینگے۔ اس کے لیے دارالحکومتی شہروں میں صلاح کاروں کے ساتھ نشستوں کے لئےدنوں اوروقت کا تعین بھی کیا گیا ہے، اسکے علاوہ شکایتی سیل سے آ ن لائن رابطہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ بہر حال یہ وقت کی ایک انتہائی اہم ضرورت تھی، جس کی طرف گورنر انتظامیہ نے توجہ مبذول کرکے ایک مثال قائم کی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف محکموں کے اندر شکایات کے ازالہ کےلئے مؤثر نظام مرتب کیا جانا چاہے تاکہ ہمارے دفاتر کے اندر موجود غیر فعالی کارجحان اس میں روکاوٹ نہ بنے اور لوگوں کو سرکاری دفاتر میں ایسی ہی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جوماضی کا معمول رہا ہے۔