جموں وکشمیر یونین ٹریٹری کے نئے لیفٹنٹ گورنرمنوج سنہا نے جس طرح گزشتہ کچھ دنوں سے راج بھون سے نکل کر اضلاع کے دورے کرنے شروع کئے ہیں،اُس سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اب شاید حکومت اور عوام کے درمیان موجود وسیع خلیج پاٹنے میں مدد ملے گی ۔تاحال منوج سنہا تین اضلاع کا دورہ کرچکے ہیں جن میں ایک جنوبی ،ایک وسطی اور ایک شمالی کشمیر کا ضلع شامل ہے ۔ان دوروں کے نتائج تاحال حوصلہ افزارہے ہیں کیونکہ لیفٹنٹ گورنر نے نہ صرف برسر موقعہ عوامی مسائل کا جائز ہ لیا بلکہ زمینی سطح پر انتظامی مشینری سے بالمشافہ ملاقات کرکے اُنہیں اپنی ترجیحات سے آگاہ کرنے کے علاوہ اُن پر باور کرایا کہ عوامی مسائل کے تئیں غیر سنجیدگی برداشت نہیں کی جائے گی ۔سرکاری ذرائع کہتے ہیں کہ ان دوروں کا سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا اور منوج سنہا جموںوکشمیر کے سبھی اضلاع کا دورہ کرکے خود عوامی مسائل کی جانکاری حاصل کرکے ان کے ازالہ کی سبیل کریںگے ۔بدھ کو جس طرح بارہمولہ دورے کے دوران انہوںنے ہنگامی نوعیت کے مسائل نپٹانے کیلئے تمام ضلعی ترقیاتی کمشنروں کو پہلی قسط کے طور پچاس لاکھ روپے واگزار کرنے کا حکم نامہ صادر کیا ،وہ بھی لیفٹنٹ گورنر موصوف کی ترجیحات کو غیر مبہم انداز میں واضح کردیتا ہے اور یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ وہ بنا کسی مزید تاخیر کے فوری اور ہنگامی نوعیت کے عوامی مسائل حل کرنے کے خواہاں ہیں۔
پبلک آئوٹ ریچ پروگرام کے لیفٹنٹ گورنر کے منصوبہ سے بادی النظر میں یہی لگ رہا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ عوام اور حکومت کے درمیان فی الوقت ایک خلیج موجود ہے اورزمینی سطح پر سرکاری مشینری اور لوگوں کے درمیان تعلق کی کوئی کڑی موجود نہیں ہے ۔اضلاع کا دورہ کرکے وہ دراصل جہاں انتظامی مشینری پر باور کرانا چاہتے ہیںکہ ان کی خرمستیاں مزید برداشت نہیں کی جائیںگی وہیں ان دوروں میں عوام کیلئے یہ پیغام پنہاں ہے کہ حکومت اعلیٰ ترین سطح پر ان کے مسائل سے غافل نہیںہے اور وہ ان کی دہلیز پر آکر ہی ان کے مسائل کے حل کی خواہاں ہی نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں عملی اقدامات کرنے کو بھی تیار ہے۔اس پہل اور سوچ کا خیر مقدم کیاجاناچاہئے کیونکہ حقیقی معنوں میں جموںوکشمیر کے عوام کو گزشتہ چند برسوں میں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیاگیا ہے اور کہیں کوئی شنوائی نہیںہوئی ۔عوام سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری عہدیدار اب خود کو جوابدہی سے مبرا سمجھنے لگے ہیں اور اُن کے نزدیک عوام کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے ۔دراصل عوامی حکومت کی عدم موجودگی میں چونکہ بیروکریسی اور افسر شاہی مالک ِ کل بن جاتی ہے ،تو ان میں یہ سوچ پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اب جس طرح چاہیں ،حکومت کو چلاسکتے ہیں اور اُن سے کوئی جواب لینے والا نہیں ہے ۔یہی سوچ انتظامی مشینری کی فعالیت کو دھیمک کی طرح چاٹ گئی اور حالات یہاں تک پہنچے کہ گائوں دیہات کے چھوٹے سرکاری دفاتر سے لیکر سیول سیکریٹریٹ تک ہر جگہ من مانیوں کا چلن عام ہوتا گیا ۔
اب جبکہ ایسا لگ رہا ہے کہ ہوابدلنے والی ہے اور نئے لیفٹنٹ گورنر اس سوچ کو ختم کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ دیر سے ہی سہی لیکن انتظامی سرکشی کا سدباب کیاجائے گا تاکہ لوگوں کی کہیں کوئی شنوائی ہو۔کاغذی گھوڑے دوڑانے سے زمینی حالات نہیں بدلتے ہیں۔بھلے ہی سرکار اورمحکمہ خزانہ گزشتہ ایک برس کے دوران ایک ہزار سے زیادہ پروجیکٹوں کی تکمیل کا دعویٰ کرے لیکن زمینی حالات یہ ہیں کہ لوگ مسائل کے گرداب میں پھنس چکے ہیں اور اُنہیں کوئی ان مسائل سے خلاصی دلانے والا نہیں ہے ۔پنچایتی راج اداروں سے وابستہ پنچ اور سرپنچ سے لیکر بلاک ڈیولپمنٹ کونسل چیئرمین اور شہری بلدیاتی اداروں میں کونسلروں سے لیکر میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور جموںوسرینگر میونسپل کارپوریشنوںکے کارپوریٹروںسے لیکر ڈپٹی میئر و میئر تک سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور عوامی حکومت کی عدم موجودگی میں بنیادی سطح کے نمائندے عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی بجائے ایک طرح کا مافیا بن چکے ہیں جن کے ہاتھوں عام اور بے سہارا لوگوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے ۔
ظاہر ہے کہ ایک جمہوری نظام میں لوگوں کو ایسے مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جاسکتا ہے جو انتظامی و سرکاری مشینری سے جڑے اہلکاروں سے ملی بھگت کرکے غریب لوگوں کا خون چوسنے میں لگے ہوئے ہیں۔ایسے اداروں کو بااختیار کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن انہیں جوابدہ بنا نا بھی حدسے زیادہ ضروری ہے ۔اب جبکہ لیفٹنٹ گورنر خود حالات کا جائزہ لینے نکل چکے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ تاناشاہی کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گااور سرکاری مشینری و ان عوامی نمائندوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنے کا کام ہوگا کیونکہ جب تک یہ ملی بھگت رہے گی،عوام کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہے ۔اولین فرصت میں ان پنچایتی اور بلدیاتی نمائندوں کو جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے متوازی سرکاری مشینری کے کل پرزے ٹھیک کرنا بھی ناگزیر ہے کیونکہ وہ زنگ آلود ہوچکے ہیں۔جب زمینی سطح سے لیکر اعلیٰ سطح تک جوابدہی کا نظام قائم ہوگا تو عوامی مسائل حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی اور جتنا جوابدہی کا نظام قائم کرنے میں دیر کی جائے گی ،اُتنا ہی عوامی مسائل بڑھتے رہیں گے اور یوں پھر عوام اور حکومت کے درمیان خلیج اُس حد تک بڑھ جائے گی کہ اُس کو پاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن جائے گا۔اس سے قبل کہ نوبت وہاں تک آجائے ،ابھی بھی وقت ہے کہ ارباب بست و کشاد اپنے گریباں میں جھانک کراصلاح احوال کا عمل شروع کریں تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکیں۔