لازوال محبت کی داستان محبت لیلیٰ مجنوں کا قصہ رومانوی ادب میں زبان زد عام ہے۔ نہ صرف مشرق وسطیٰ کا بچہ بچہ محبت کی اس امر کہانی سے واقف ہے بلکہ مغرب میں بھی اس پر فلمیں بن چکی ہیں مگر شاید کئی لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ عرب کی سرزمین پر صرف لیلیٰ مجنوں کی محبت کی کہانی نے ہی نہیں بلکہ لازوال محبت کی کئی داستانوں نے جنم لیا جن میں سے ایک عنتر اور عبلہ کی محبت کی ادھوری کہانی بھی ہے۔
عنتر کا اصل نام عنترہ بن شداد العبسی تھاجو بہادر اور جنگجو قبیلے ’’عبس‘‘ سے تعلق رکھتا تھا۔ 525ء میں پیدا ہوا اور 608ء میں انتقال کرگیا۔ عنتر عربوں کے مشہور اور قادر الکلام شاعر تھا۔اسلام سے پہلے شعراء نے جو لازوال قصیدے لکھے انہیں کعبۃ اللہ کی دیواروں پر لٹکایا جاتا ہے۔ ان قصائد کو ’’معلقات‘‘ کہا جاتا تھا۔ عنتر ان عرب شعراء میں سے ایک ہیں جس کا قصیدہ ’’معلقات‘‘میں شامل کیا گیا۔
عنتر بن شداد کی والدہ حبشی شہزادی تھی جسے ایک جنگ میں کنیز بنادیا گیاتھا۔ عنتر کا والد شداد نے ان سے نکاح کرلیالیکن اس کے باوجود اُسے ایک کنیز کی حیثیت سے ہی دیکھاجاتا تھا۔ اس لیے عنترکو معاشرے میں وہ مقام حاصل نہ ہوسکاجس کاوہ حق دار تھا۔ شکل وصورت میں بھی وہ حبشیوں سے شباہت رکھتا تھا۔ عنترکی چچا زادعبلہ اس کے قبیلے کی خوبصورت ترین خاتون تھی ،جب کہ عنترشکل وصورت میں اپنے قبیلے میں سب سے کم تر تھا۔عنتر عبلہ کے حسن کے گرویدہ ہوگیا اور اُسے اپنا دل دے بیٹھا۔ عنتر کی محبت یک طرفہ نہ تھی بلکہ عبلہ بھی ان سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔عنتر، عبلہ کا پیغام لے کر اپنے چچا کے پاس گیا مگراس نے رشتہ دینے سے صاف انکار کردیا۔اس کے بعد خاندانی دباؤ میں آکر چچا نے عبلہ کا رشتہ دینے کے لیے ایک سو نعمانی اونٹنیاں بطور حق مہر پیش کرنے کی شرط رکھ دی۔نعمانی اونٹنیاں انتہائی اعلیٰ قسم کی مہنگی ترین اونٹنیاں سمجھی جاتی تھیں،ان کی قیمت آج کے دور کی ایک سومرسیڈیز گاڑیوں کی قیمت کے برابر تھی ۔یہ شرط صرف عنتر کو نیچا دکھانے کے لیے رکھی گئی تھی کیونکہ سب ہی جانتے تھے کہ عنتر یہ شرط پوری نہیں کرسکتا تھا۔عربوں کے ہاں ایک روایت مشہور تھی کہ اگر کوئی شخص کسی خاتون پر اشعار کہتا ہے تو پھر کبھی اس سے شادی نہیں کرسکتا۔ ایک طرف سو اونٹنیوں کی شرط تھی اور دوسری طرف یہ اٹل روایت جسے کسی طور توڑا نہیں جاسکتا تھا۔ پھر کیا تھا، عنتر اور عبلہ کی اُدھوری محبت رہی، معاشرے کی زنجیروں نے انہیں جکڑ لیا۔عبلہ کی ایک خوبرو جوان سے شادی کرادی گئی اور عنتر90سال کی عمر تک عبلہ کی جدائی میں اشعار کہتا رہا۔عنتر کی لکھی ہوئی غزلیں عربی ادب کا قیمتی ورثہ ہیں جنہیں آج بھی نصابی کتابوں میں پڑھایا جاتاہے۔
عنتر کی چٹان: عنتر اور عبلہ زمانے کی نگاہوں سے چھپ کر ایک دوسرے سے ایک چٹان کے پاس ملا کرتے تھے۔ بعد میں اس چٹان کا نام ہی عنتر کی چٹان پڑ گیا۔ اب عنتر کے اشعار زندہ ہیں اور وہ چٹان باقی ہے جوآج بھی دونوں کی محبت کی گواہی دے رہی ہے۔عنتر کی چٹان قصیم ریجن میں غاف الجواء نامی علاقہ کے شمال میں واقع ہے۔اس چٹان کے بارے میں چند مقامی لوگوں کو ہی معلوم تھااور اکثر لوگ اسے برائی کی علامت سمجھتے تھے ،اس لیے اس چٹان کی دیکھ بھال نہ ہوسکی۔لیکن اب سعودی ولی عہد کی ہدایت پرسعودی محکمہ سیاحت نے حال ہی میں ماہرین کی ایک ٹیم یہاں روانہ کی جس نے چٹان کی صفائی اور مرمت کا کام مکمل کرکے اسے سیاحوں کے لیے کھول دیا۔چٹان پر کی جانے والی چاکنگ کو صاف کیا گیا اور اس گرد باڑ لگادی گئی ہے۔ یہاں سیاحتی گائیڈ مقرر کردیے گئے ہیں جو آنے والوں کو عنتر اور عبلہ کی محبت کی لازوال کہانی سناتے ہیں۔