ایم آئی ظاہر
عالمی اردو ادب کی ایک معتبر آواز کا نام ہے عنبرین حسیب عنبر۔ان کی شاعری کا جائزہ لینے پر ایک بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ اُن کا ہر شعر شوخی اور نزاکت کے ساتھ بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور سامعین و قارئین پر ایک طرح کا سحر طاری ہو جاتا ہے۔ وہ لاکھوں لوگوں کی پسند ہیں اورانکی مقبولیت کسی فلمی ستارے سے کم نہیں ہے۔کاینات ادب کا یہ چمکتا ستارہ سخن کی کہکشاں میں جھلملا رہاہے۔
معروف شخصیت مفکر، ادیب زباں داں اور شاعر پیر زادہ قاسم نے کہا ہے کہ شاعر عقلی اور سنجیدہ انسان ہیں اور بلاشبہ اپنے روشن دماغ اور محبت بھرے دل سے دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔اس نظریہ سے دیکھیں تو وہ شاعری میں ایک نیا انقلاب لائی ہیں۔ برصغیر ہندو پاک اور خلیج کے ساتھ ہر اس جگہ ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے،جہاں جہاں اردو ہے۔ ان کی شاعری میں روز مرہ کی زندگی بڑے ہی نفیس لہجے میں مکالماتی چہل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سخن فہم شایقین ان کے شعر سننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔آج عنبرین حسیب عنبر کا نام کسی بھی مشاعرہ کی کامیابی کی ضمانت مانا جاتا ہے ۔ آخر،ان کی منہ بولتی شاعری کا انداز بالکل جداگانہ جو ٹھہرا۔عنبرین کی شاعری میں رومانیت کی مقناطیسی کشش نظر آتی ہے۔یوں تو ان کی سبھی غزلیں مقبول ہیں،لیکن مشاعرے میں بیشتر قدردان ایک غزل سننے کی فرمائش ضرور کرتے ہیں:
دھیان میں آ کر بیٹھ گیے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
ان کی شاعری کی اس نمائندہ غزل میں آپ دیکھیں کہ عنبرین حسیب عنبر ایسی شاعرہ ہیں، جنہوں نے اردو زبان کو اپنے نئے اور جدید لب و لہجے سے سرفراز کیا ہے تو نئے تجربات سے مالامال بھی کیا ہے۔وہ اپنا انداز دہراتی نہیں ہیں اور انفرادیت قایم رکھتے ہوئے شعر کہتی ہیں۔دیکھیں اس غزل میں آپ کو ایک جداگانہ عنبرین حسیب عنبر نظر آتی ہیں
ملا بھی زیست میں کیا رنج رہ گزار سے کم
سو اپنا شوق سفر بھی نہیں غبار سے کم
ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم
ہنسی خوشی کی رفاقت کسی سے کیا چاہیں
یہاں تو ملتا نہیں کوئی غم گسار سے کم
وہ منتظر ہے یقیناً ہوائے سرسر کا
جو حبس ہو نہ سکا باد نوبہار سے کم
بلندیوں کے سفر میں قدم زمیں پہ رہیں
یہ تخت و تاج بھی ہوتے نہیں ہیں دار سے کم
عجیب رنگوں سے مجھ کو سنوار دیتی ہے
کہ وہ نگاہ ستائش نہیں سنگھار سے کم
مری انا ہی سدا درمیاں رہی حائل
وگرنہ کچھ بھی نہیں میرے اختیار سے کم
وہ جنگ جس میں مقابل رہے ضمیر مرا
مجھے وہ جیت بھی عنبرؔ نہ ہوگی ہار سے کم
عنبرین حسیب عنبر نے شاعری کے ساتھ ساتھ متعدد تنقیدی جواہر پارے بھی لکھے ہیں۔ان کی بہترین نثر کا ایک نمونہ دیکھیں : ’’رشتہء مرد و زن اور منٹو‘‘ایک اقتباس
منٹو ایک مکمل معروضی اور غیر جانب دار افسانہ نگار ہے جو اپنے کرداروں کو کسی نظریے، عقیدے یا کلیہ کے تحت انگلی پکڑ کر نہیں چلاتا ہے۔ وہ انھیں بالکل آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لیے وہ مصنف کے sentimental ہونے کے سخت خلاف ہے۔منٹو اسے افسانہ نگاروں کا بچپنا اور سستی جذباتی کیفیت کہہ کر مسترد کرتا ہے کہ وہ اپنے کریکٹر کے برے کام کو یہ سمجھ کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بری حرکت خود ان سے سرزد ہوئی ہے اور اگر ان کا کوئی کریکٹر اچھا کام کرے تو وہ اسے بھی اپنا ذاتی خیال سمجھ کر خوش ہوتے ہیں اور یہ مسرت ان کے کریکٹر کے چہرے پر نظر آنے لگتی ہے۔ منٹو کے خیال میں اعلیٰ درجے کے ادب میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
منٹو کے کردار کلی طور پر آزاد ہیں یہی سبب ہے کہ وہ کٹھ پتلیوں کی طرح بے جان نہیں بلکہ جیتے جاگتے اور جاندار ہیں۔یہ کردار اپنی اصل میں جیسے ہیں وہی منٹو کے لئے سب سے بڑی حقیقت ہے، چناں چہ وہ اس حقیقت کی تعظیم کرتا ہے، چاہے وہ مرد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
دوسری بات یہ کہ منٹو جب عورت اور مرد کے درمیان فاصلے اور لرزتی دیوار کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے تو یہ مادر پدر آزادی نہیں،یعنی یہ جسم سے جسم تک کی دوری نہیں ہے، بلکہ یہ جسم سے روح تک کی دوری ہے جو انہیں ایک اکائی میں ڈھلنے نہیں دیتی۔
تیسری بات یہ ہے کہ عورت صرف ایک مرد کی ہو کر رہنا چاہتی ہے۔ منٹو کے نسوانی کردار کہیں بھی بانو قدسیہ کے ایک کردار کی طرح صاف لفظوں میں یہ تو نہیں کہتے کہ ’’عورت چاہے تو طوائف ہو، چاہے سوسائٹی گرل، چاہے گھر والی، چاہے کنواری، ہمیشہ ایک مرد کا سوچتی ہے‘‘۔ (خلیج)
مگر ان کے ذہنی و نفسیاتی رویے اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں۔ اب اگر ایسا ہے تو پھر اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے کہ منٹو کے افسانے ’’جانکی‘‘ کے مرکزی کردار جانکی کی زندگی میں تواتر سے مردوں کی آمد اور جسمانی تعلقات کا سبب کیا ہے؟جانکی جو عزیز سے محبت کرتی ہے، وہ بمبئی آنے کے بعد سعید سے محبت کرنے لگتی ہے اور پھر اس کی زندگی میں نارائن آ جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں یہاں مسئلہ جانکی کی آوارہ مزاجی کا نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ اس کی مادرانہ فطرت کا ہے کہ وہ سب سے محبت اور خلوص کا رشتہ رکھتی ہے، بلکہ یہ عورت کی اس تلاش کا ہے جس میں صرف ایک مرد کی ہو کر رہنے کی خواہش پوشیدہ ہے۔ اس کی زندگی میں آنے والے عزیز اور سعید یک سر روایتی مرد ہیں، جو عورت کے خلوص، محبت اور خدمت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جانکی کے اس خلوص اور محبت کا صلہ دینا تو دور کی بات ہے، وہ اس کو محسوس تک نہیں کرتے اور اسی لیے ان دونوں کی گفتگو میں جانکی کا ذکر تک نہیں آتا اور نہ تعلق توڑتے وقت کوئی احساس دامن گیر ہوتا ہے، جب کہ نرائن ایک سچا، کھرا اور مخلص مرد ہے۔ جانکی کے مسئلے پر گفتگو کو ذرا یہاں روک کر ضمناً ایک اور بات کی نشان دہی کرنا مقصود ہے، اس کے بعد ہم پھر اپنے سوال کی طرف آ جائیں گے۔ نرائن کھرا اور سچا مرد ہے اور اسی لئے منٹو کو بہت پسند ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اب تک نقادوں نے منٹو کے اس کردار پر خاص توجہ نہیں دی ہے، یہاں تک کہ ممتاز شیریں نے جانکی اور زینت کے ساتھ شیام اور بابو گوپی ناتھ کا نام لیا ہے مگر نرائن کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا۔ وہ لکھتی ہیں:
’’جانکی اور زینت کی سی عورت کی حمایت میں منٹو نے سعید اور شفیق طوسی کی طرح کے مرد کی سخت مذمت کی ہے۔ اس مرد کو وہ ملامت بھری نظر سے دیکھتا ہے، جو عورت سے ناجائز فائدہ اٹھائے۔ عورت سے اس کا خلوص، محبت، اس کے وجود کی گرمی لے اور اس کے بدلے اسے کچھ نہ دے۔ منٹو کو شیام کا سا مرد پسند ہے جو عورت کو بدلے میں وہی خلوص،محبت اور گرمی دے سکتا ہے اور بابو گوپی ناتھ، جو عورت کے سچے خلوص کی سچی قدر کر سکتا ہے۔‘‘ (ترغیب _ گناہ، منٹو: نوری نہ ناری)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
[email protected]>