جدید تحقیق کے مطابق انسانی دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اور سنی جانے والی کتاب قرآن مجید ہے۔ دنیا کے تمام مسلم گھرانوں میں چاہے نظری اور عملی اعتبار سے ان کی کیا صورتحال ہے۔ لیکن قرآن پاک کا ایک نسخہ ہر گھر میں لازماً موجود ہوگا۔اسکی تلاوت اسکی عزت اور اسکی عظمت کا احساس مسلمان کے ایمان وایقان کا ایک حصہ ہے۔دنیا کی کوئی مسجد کوئی دینی مدرسہ کوئی خانقاہ کوئی زیارت گاہ اور گھرانہ ایسا نہیں ہوگا، جہاں انفرادی یا اجتماعی سطح پر اسکی تلاوت نہ ہوتی ہو اور شاید کرہ ارض پر اس وقت جتنی کتابیں، مخطوطات اور مطبوعات موجود ہیں، ان میں اسی کتاب کو اولیت اور بے پناہ عظمت اس اعتبار سے حاصل ہے کہ ہر بستی میں اسی کے قاری اور حافظ موجود ہیں۔ اگر عالم اسلام میں اس کے حفظ کرنے والوں کی تعداد کا سروے کیا جائے گا،غالباً کروڑوں کی تعداد ہمارے سامنے آجائے گی اور خدائی فرمان کا عملی مظاہرہ ہوگا۔
نزولِ قرآن کا سلسلہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہوا ہے اور تئیس سال تک مکہّ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حالات و واقعات،گردوپیش کے حالات اور معاشرتی ضروریات کے مطابق اس کا نزول جاری رہا۔کتاب اللّٰہ کی عبارت اس قدر بھاری یا قرآن کے الفاظ میں "قولِ ثقیل" ہوا کرتی تھی کہ نزول وحی کے اوقات سے فراغت کے بعد رسولِ رحمتؐ کی جبینِ مقدس پر پسینے کے قطرے نمودار ہوجاتے تھے۔ نزول وحی کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت زیدؓ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ میری ران کے ساتھ ٹیگ لگائے تھے کہ "آقائے نامدار ؐاس قدر بھاری ہوگئے کہ میری ران ٹوٹنے کے قریب آگئی"۔ اور کبھی آپ اونٹنی پر ہوتے تو وحی کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔شاہدین کا کہنا ہے کہ اونٹنی کے پاؤں ریت میں دھنس جاتے تھے۔یہ اعجاز تھا اس کلامِ ربانی کا،جو انسانوں کے لیے آخری دستور حیات اور اخلاقی ضابطہ عمل ہے جو ہدایت کے ان ابدی اصولوں پر مشتمل ہے جن کے بغیر انسانی دنیا کا تصور ممکن نہیں۔سائینسی ایجادات اور آلات کے بغیر بھی انسان نے بہترین سماجی اصلاحات اور اجتماعی عدل کے فقیدالمثال نمونے فراہم کئے ہیں اور آنے والے زمانوں میں انسانی معاشرے اور نوع انسانی کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ بحیثیت انسان کے زندہ رہنے کی ہے۔
قرآن کا صحیح مطالعہ نہ ہونے کے سبب اور جدید سائینسی علوم سے مرعوب ہونے کے نتیجے میں چند اہلِ قلم حضرات نے قرآن اور جدید سائینس کا رشتہ جوڑنا شروع کیا ہے۔ اگر سائینس کے لفظی معنی ذہانت اور ذکاوت کے معنوں میں قرآن اور سائینس کو پیش کرنے کی مساعی ہو تب یہ ایک معقول اور مستحسن بات ہے لیکن جدید سائینسی افکار، تجربات، آلات اور تجزیات سے قرآن کا تعلق اور انسلاک قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک لاحاصل عمل ہے اور اس میں قرآن شناسی اور عمل با لقرآن کی صحت مندی نہیں بلکہ قرآن فہمی سے دوری کا روگ چھپا ہے۔کیونکہ ہم بدلتی دنیا کے بدل جانے والے اصولوں کو قرآن کے تابع نہیں بنا سکتے ہیں۔یہ کتاب بنیادی طور پر انسانی دنیا کو تین اساسی موضوعات کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ تصورِ وحدانیت،تصورِ رسالت، اور تصورِ آخرت۔ یہ بات یقیناً کہی جاسکتی ہے کہ جدید سائینس نے کائنات کی تخلیق،مخلوقات عالم،مظاہر فطرت اور اشیائے مرئی وغیرہ کے بارے میں جو انکشافات کئے ہیں،اس حوالے سے قرآن میں اشارات موجود ہیں اور تشبیہہ و استعارے کی زبان میں قرآن میں ایسے بےشمار امور کی نشاندہی کرچکا ہے۔
"بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے بدلنے میں،اور پانی جس کو اللّٰہ نے آسمانوں سے اُتارا، پھر اس سے زمین کو زندہ کیا،اور اس میں ہرنوع کے جانور پھیلائے،ہواؤں کے بدلنے اور بادل میں جو کہ تابعدار ہے اس کے حکم کے،بےشک اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے"۔
قرآن حکیم کی آیاتِ بیانات سے جدید سائینسی نظریات کی صحت وعدم صحت کو جوڑنا قرآن کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے،اس لیے کہ یہ کتاب ہدایت ہے جس میں یقیناً علوم و اسرار کے کلیات و قوانین اور مبادیات موجود ہیں۔ہدایت کے چاہنے والوں، اپنے اعمال اور اخلاق کو درست کرنے والوں،اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک صحت مند تبدیلی لانے والوں اور خوف خدا سے لرز اٹھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک نسخۂ ہدایت ہے۔کتابوں کے مطالعہ سے قاری کا ذہن روشن،براق اور آفاقی نظر کا حامل بن جاتا ہےلیکن عموماً دیکھا گیا ہے اور یہ مشاہدے کی بات بھی ہے کہ کثرتِ مطالعہ سے بہت سارے لوگ خدا بیزاری،تشکیک، الحاد،انکار اور ارتعاش میں گرفتار ہو گئے لیکن تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جن عام لوگوں،خواص، رہنماؤں،پیشواؤں اور حکمرانوں نے قرآن کی رہنمائی میں اپنے فرائض اور ذمّہ داریاں انجام دیں وہ انسانی دنیا کے لیے خیرعام،باعث ِآرام،اور موجبِ رحمت وآسائش ثابت ہو گئے۔اس کی حقیقی تلاوت کرنے والے اس قدر رویا کرتے تھے کہ آنسوؤں سے تر کتاب اللّٰہ کے اوراق کو سورج کی گرمی سے سکھایا جاتا تھا ۔ کلام اللہ کی نم ناک آنکھوں سے تلاوت پر زور دیتے ہوئے حضرت علی مرتضیٰؓ نے اپنے فرزند دلبند حضرتِ امام حسینؓ سے ایک بار تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اس کتاب کی تلاوت ایسے ہوکہ آنکھیں آنسوؤں کی مالا بن جائیں اور خشوع و خضوع کے تمام انداز سامنے آجائیں‘‘۔
یہ کتاب خالص انسانی،اخلاقی، معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے اصول و اقدار پر مشتمل ایک دستور حیات ہے۔یہ عظیم کتاب فرائض، عقائد اور حقوق اللّٰہ کے بعد حقوق العباد کے مسئلہ کو مقدم گردانتی ہے یہ بات نہایت ہی واضح ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے حقوق معاف کردے گا لیکن بندوں کا اپنے حقوق و مطالبات کو معاف کرنا بندوں کے حد ِ اختیار میں ہے۔حدیث میں آیا ہے "جس کے ذمہ اپنے کسی مسلمان بھائی کا مطالبہ ہو،عزت و ناموس کی بات ہو یا کسی اور قسم کی چیز مثلاً جائداد،وراثت،مال وغیرہ تو آج ہی اس دنیا میں صفائی کرلے، اس سے پہلے جب نہ دینار ہوگا نہ درہم۔اگر اس کا کؤئی نیک عمل ہوگا تو اس بقدر مدعی کے مطالبہ اور حق سے لیا جائے گا،اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو صاحبِ حق کے گناہ اس مدعی علیہ پر ڈال دئے جائیں گے"اس بےمثال دستورِ زندگی نے عدل،برابری اور میزان کو دنیا میں قائم کرنے پر شدت کے ساتھ زور دیا ہے اور ہر قسم کے توازن کو بنائے رکھنے کی تاکید کی۔ یہ کتاب تمام امتیازات سے بالا تر ہوکر اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ "آپ کو کسی قوم یا گروہ کی دشمنی اس بات کے لیے مجرم نہ بنائے کہ آپ عدل نہیں کرو گے ، عدل سے کام لو یہی تقویٰ (خدا پرستی) کے بہت ہی قریب ہے"
ظاہر ہے کہ اس وقت دنیا کو مادی بنیادوں پر استوار نظریات نے ہر قسم کی سہولیات فراہم کی ہیں،لیکن اخلاقی،روحانی اور انسانی نقطۂ نگاہ سے تمام نظریات کی عمارتیں اندر سے کھوکھلی ثابت ہورہی ہیں۔ انسان ایک بار سکونِ قلباور روحانی آسودگی کی تلاش میں ہے۔داخلی دنیا میں طمانیت،قرار اور ٹھہراؤ کا متمنی ہے۔ مشینی دنیا کی بےقراریوں اور اضطراب سے نجات پانا چاہتا ہے۔ ان گھمبیر حالات میں دنیا کے اخلاقی پیغامات اور اللّٰہ کے نیکوکار بندوں کے ارشادات اور تقویٰ کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر عصرِ حاضر کا انسان نجات کا حقدار بن سکتا ہے بشر طیکہ وہ پہلے ماخذِ ہدایت یعنی قرآن مجید کی طرف رجوع کر ے ۔ قرآن مجید جو لوگ صبح و شام تلاوت کرتے ہیں، وہ کافی حدتک پریشانیوں اور فکری پیچیدگیوں سے نجات حاصل کرتے ہیںاور زندگی بھر ان کے صبح و شام اور خلوت وجلوت میں ایک محسوس و غیر محسوس سکون وثبات کی حلاوت پیدا ہوتی ہے اور وہ عبادات کی شاہراہ پر گامزن ہوکر انسانیت، خدمت، عدالت، غیرت، حمیت، اور سب سے بڑھ کر امن وراحت کی منزلیں طے کر کے اپنی زندگی اور دنیا کے لوگوں کی سکھ شانتی کاسبب بنتا ہے ۔ جہاں کسی انسان یا جماعت سے یہ نہ ہورہاہو، سمجھ لیجئے وہ قرآن سے دور ہے ۔
رابطہ/9596571542