ریحانہ شجر
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی اور غیر اکتسابی خصوصیات کا مجموعہ ہے ۔ظاہری حسن و جمال وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتا ہے اور فانی جسم خاک میں مل جاتا ہے،لیکن کردار کا دائمی حسن ہی انسان کو امر کردیتا ہے ،کردار کے تعمیر میں فکر و نظریات کا کلیدی رول ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک شخصیت کا نام محترم عمر مجید ہے۔جن کی پیدائش ۱۸ ستمبر ۱۹۴۰ ءکو ہوئی تھی، وہ اپنے پیچھے ادبی ورثہ چھوڑ گئے ہیں ،جس کی وجہ سے انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ان کی ذات علمی اور فکری لحاظ سے بہت ساری خوبیاں رکھتی تھی ،زبان و ادب کے شیدائی ان کے ادبی مرتبے سے بخوبی واقف ہیں۔عمر مجید کی شخصیت کے تین پہلو ہیں، وہ اپنے وقت کے ایک رہبر اور قابل استاد، ایک کامیاب کالم نویس اور تخلیق کار تھے ۔
جہاں تک ان کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کا تعلق ہے، بلا شک ان کی شخصیت اور تحریر دونوں میں وطن عزیز کی مٹی کے رنگوں کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے ۔علمی روایات اور تہذیبی اقدار سے آگاہی انہیں ورثے میں ملی تھی ،اس کے علاوہ اپنے ذاتی مطالعہ اور مشاہدے سے انہوں نے بہت کچھ حاصل کیا تھا ۔انہوں نے اپنے اردگرد کے حالات کو پورے ادراک کے ساتھ محسوس کیا تھا اور اپنی تحریروں میں اس ادراک و احساس کو سمویا بھی ہے۔ان کا دل اپنے طرز احساس کے اعتبار سے نازک اور حساس تھا،جو ان کا خاصا تھا،جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں ایک منفرد رنگ و بو کی جھلک نظر آتی ہےاور جو عمر مجید کو باشعور ، بالغ نظر اور متوازن فہم رکھنے والا ادیب بناتی ہے۔
عمر مجید پیشے سے ایک قابل استاد تھے ۔جس کا عکس ان کی تحریروں میں عیاں ہے۔
اس بات کا تذکرہ محترم سلیم سالک صاحب نے منفرد انداز میں مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔( مقدمہ،’’عمر مجید کے بہترین افسانے‘‘ )
’’عمر مجید کے افسانے پڑھ کر صاف جھلکتا ہے کہ افسانہ نگار پیشہ سے ڈاکٹر یا انجینئر نہیں،بلکہ ایک استاد ہے کیونکہ اکثر و بیشتر افسانوں کے بیانیہ میں ناصحانہ انداز ملتا ہے اور مکالموں میں تجربہ اور فلسفہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ، جس سے عمر مجید کا نظریہ سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔‘‘انہوں نے اپنے اردگرد ہنستے مسکراتے لوگوں کو چلتی پھرتی لاشوں میں بدلتے دیکھا تھا۔انسان اور انسانیت کا قتل ہوتے دیکھا تھا،یہ شاید ان ہی واقعات کا گہرا اثر تھا ، جو ان کے قلم سے ’’میری گلی کا غم‘‘ اور ’’ شہر کا اغوا‘‘ جیسے افسانوں کا جنم ہوا۔
گرد و نواح کی پریشانیوں اور غم کو عمر مجید نے شدت سے محسوس کیا تھا۔تب ہی وہ غم کے بارے لکھتے ہیں : ’’جانتے ہو مامہ دنیا کی سب سے سخت چیز کیا ہے ؟ نہیں جانتے! میں بتاتا ہوں، لوہا ! اور لوہے سے سخت ؟…..نہیں معلوم…..میں بتاتا ہوں ۔لوہے سے بھی سخت چیز آگ ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی ہےاور آگ سے بھی سخت چیز پانی ہے جو آگ کو بجھاتی ہے اور پانی سے بھی زیادہ سخت چیز ہوا ہےجو پانی کو دھکیلتی ہے،پانی سے بھی سخت چیز سمندر ہے جس سے بھاپ اٹھتی ہے۔سوئے آسمان جاتی ہے اور بارش برساتی ہے،سمندر سے بھی سخت سورج ہے جس کی تمازت سے سمندر کا پانی بھاپ بن کر اُڑتا ہے لیکن ان سب چیزوں سے سخت غم ہے، جو انسان کے دل کو کاٹتا ہے۔‘‘
(میری گلی کا غم _ عمر مجید کے بہترین افسانے۔ترتیب سلیم سالک)
ان کے کردار کی سچائی، سادگی اور انسان دوستی کے تعین خراج عقیدت محترم بشیر دادا صاحب اپنی نظم میں یوں بیان کرتے ہیں:
جڑا زمین سے کردار آسمانی تھا
اسی کی اپنی کسی ان کہی کہانی کا
وہ دوست فطرتاً اک صبر کا سمندر تھا
کہ جس سے موج رفاقت امڈتی رہتی تھی
وہ کیا کمال تھا اس کے سنہرے ہاتھوں کا
(نگینہ انٹرنیشنل _دسمبر ۲۰۰۸)
’’عمر مجید _ ایک حساس افسانہ نگار ۔
عمر مجید کے افسانوں میں بیانیہ غالب ہے تاہم وہ مکالمے کا بھی حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں۔بہرحال وہ ہر صورت میں زمینی حقیقت سے جڑے رہتے ہیں ،ان کے افسانے کشمیر کے ماحول، کلچر اور تہذیب کا آئینہ ہیں اور وہ اکثر و بیشتر کردار اپنے پاس پڑوس سے چن لیتے ہیں،ان کا مشاہدہ بھی عمیق ہے اور مطالعہ بھی کافی وسیع ہے۔‘‘
(جناب دیپک بدکی ،نگینہ انٹرنیشنل _دسمبر ۲۰۰۸ ء)
عمر مجید کی زندگی کا ایک اور باب صحافت سے جڑا ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔وہ تا دم حیات روزنامہ آفتاب کےلئے بحیثیت کالم نویس کام کرتے رہے۔’’خیال اپنا اپنا ‘‘ ان کا مقبول ترین کالم رہ چکا ہے۔اس کے علاوہ ‘روزنامہ آفتاب کےلئے ’’ادب نامہ‘‘ ترتیب دیتے تھے۔اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ عمر مجید نے ‘روزنامہ آفتاب کےلئے ’’کشمیر نامہ‘‘ لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ انہیں کشمیر اور کشمیر کی تاریخ سے کتنا انس تھا،جن میں :
’’ہمالیہ کے چشمے ابلتے ہے کب تک ‘‘، ’’باغات کشمیر‘‘، ’’کشمیر کا اولین اشاعت خانہ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہے۔
(عمر مجید کے تحریر کردہ مضامین _ مرتبین : نور شاہ ، جاوید ماٹجی )
محترم نور شاہ صاحب نے عمر مجید کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’عمر مجید کے تعلق سے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کو بھی جموں کشمیر کے بہت سے قلمکاروں کی طرح ادبی دنیا میں وہ مقام نہیں دیا گیا، جس کے وہ ہر لحاظ سے مستحق تھے ،اس کے باوجود افسانوی ادب میں ان کا نام ہمیشہ روشن رہے گا ۔‘‘( نگینہ انٹرنیشنل _دسمبر ۲۰۰۸ ء)
انسان ہمیشہ جذبات اور احساسات سے دوچار رہتا ہے، ایسے میں انسانی زندگی کو احساسات سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔کبھی کبھی حساس اور باشعورذہن ہی انسان کےلئے سب بڑا عذاب بن جاتا ہے،جیسا کہ عمر مجید کے ساتھ ایک بار نہیں کئی بار ہوا۔
چاہیے وہ کسی گاڑی کا کنڈیکٹر نابالغ بھولا بھالا سا بچہ مٹھی میں سواریوں سے لیے پیسے…! اچانک فائرنگ کی زد میں آکر جس کا جسم آدھا گاڑی کی کھڑکی کے اندر اور آدھا باہر لٹک رہا ہو۔
یا پھر وہ عمر مجید کا ہمسایہ حجام ، عبدالخالق ہو، جو ایسے ہی المناک حادثے کا شکار ہوگیا ، جس نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر عمر مجید کی گود میں زندگی کی بازی ہاری ہو۔
درجنوںذی شعور دیکھنے والوں نے یہ دل دہلانے والا منظر کھلی آنکھوں سے دیکھا ہوگا۔ان کے دامن بھی خون سے بھیگ گئے ہوں گے۔ہر آنکھ بےشک روئی ہوگی ،پر عمر مجید اس بھیڑ میں ایک ہی فرد بشر تھا۔جس کے حساس زہن پر نامساعد حالات کے یہ بے رحم ہتھوڑے کاری ضرب لگا کر چل دیئےاور عمر مجید کی زندگی میں جمود سا آگیا اور وہ گوشہ نشین ہوگئے۔
کئی سالوں بعد اگر وہ زندگی کی طرف لوٹے بھی تو وہ پہلے والے عمر مجید نہیں تھے۔کوئی اور عمر مجید جو گونگے غموں کا بوجھ دل میں لیے زندگی کی طرف لوٹا تھا۔پر وہ غم نہ کسی سے بتا سکے اور نہ ہی کوئی سمجھ سکتا تھا۔بس تا دم حیات ان دکھوں اور غموں کو پالتے رہے اور آخر کار ۲۳ دسمبر ۲۰۰۶ ء اس دار فانی سے کوچ کر گئے. اِنا للہ ِواِنا الیہ ِراجعون ۔
زمانہ بڑے شوق سے سنتا رہا
ہمیں سو گئے داستان کہتے کہتے
(وزیر باغ، سرینگر ، کشمیر)
[email protected]