سرینگر//عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ایم ایل اے لنگیٹ انجینئر رشید نے اس بات کو دہرایا ہے کہ جموں و کشمیر کے ساتھ ہندوستان کے الحاق کا آئینی طور سے دفعہ 370کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں اور ریاست جموں و کشمیر دفعہ 370کی موجودگی یا عدم موجودگی دونوں صورتوں میں ایک متنازعہ علاقہ ہے اور تب تک ریاست ہندوستان کا حصہ نہیں بن سکتی جب تک نہ استصواب رائے کے ذریعے ریاست کے لوگ ہندوستان کے حق میں اپنا فیصلہ نہ دیں۔ انجینئر رشید نے نیشنل کانفرنس سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سے کہا ہے کہ وہ 370اور خود مختاری کی باتیں کرکے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو کمزور کرنے کی کوششوں سے باز آجائیں ۔ اپنے ایک بیان میں انجینئر رشید نے کہا ــ’’جموں و کشمیر کے تنازعہ کو سیاسی مسئلہ اور اس کا سیاسی حل کہہ کر عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور دیگر لوگ کنفیوژن کھڑا کر رہے ہیں کیونکہ یہ بات ہر کوئی مانتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن مسئلہ اس تنازعہ کے حل کے بارے میں ہے ۔ نہ ہی مہاراجہ کا ہندوستا ن کے ساتھ غیر آئینی الحاق اور نہ ہی ہندوستانی پارلیمنٹ یا ریاست کی آئین ساز اسمبلی کسی قرارداد یا قانون کے ذریعے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو متاثر کر سکتی ہے اور نہ ہی تب تک اٹانومی کی بحالی مسئلہ کا حل بن سکتی ہے جب تک نہ یا تو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے گا یا پھر انہیں اقوام متحدہ سے تمام فریق باہمی رضامندی سے واپس نکالیں گے یا پھر اقوم متحدہ ان قراردادوں کو کالعدم قرار دے گی۔ عمر عبداللہ اور دیگر مین اسٹریم لیڈروں کو سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ یا جموں و کشمیر کی لنگڑی اسمبلی کسی بھی صورت میں اقوام متحدہ کا نعم البدل نہیں ہو سکتی کیونکہ اقوام متحدہ پوری دنیا کے چھوٹے بڑے آزاد اور خودمختار ممالک کا نمائندہ فورم ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی ہر گز بھی بھولی نہیں جانی چاہئے کہ نئی دلی اور ریاست کے منتخب نمائندوں نے وقتاً فوقتاًاز خود ریاستی اسمبلی کی اعتباریت کو نقصان پہنچایا ہے لہذا جب تک نہ نئی دلی ریاستی اسمبلی کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرے تب تک کسی بھی عوامی نمائندے کو نہ یہاں دلی کا وکیل بننے کا اختیار ہے اور نہ ہی ہندوستانی آئین میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرنے کا کسی کو اخلاقی حق حاصل ہے ‘‘۔