سری نگر//حریت(گ) اور حریت (ع)نے نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ کے نیویارک میں دئے گئے بیا ن پر شدید تحفظات اور انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے پیش رو کی طرح حکومت ہند کا نمائندہ بن کر بیرون ممالک میں جموں کشمیر میں حق و انصاف پر مبنی اور کشمیریوں کے خون سے سینچی ہوئی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو عمر عبداللہ نے غلط رنگ میں پیش کر کے بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی ناکام اور مذموم کوشش کی ہے۔حریت (گ) چیئرمین سید علی گیلانی عمر عبداللہ کے بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمر عبدللہ کا یہ بیان جموں کشمیر کے تاریخی پسِ منظر اور حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ گیلانی نے کہا نیشنل کانفرنس نے 13؍جولائی 1931ء کے شہداء کے مشن کو یکسر نظرانداز کرکے 1938میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرکے ہمیشہ انڈین نیشنل کانگریس کی ہی پالیسی اپنائی اور 53ء کے بعد شیخ محمد عبداللہ مرحوم نے رائے شماری کا نعرہ دیا اور بائیس برس تک رائے شماری کا نعرہ دیتے رہے پھر اقتدار کی لالچ میں بائیس برس تک لوگوں کی دی ہوئی قربانیوں اور مصیبتوں کو نظرانداز کرکے 1975ء میں اندرا عبداللہ ایکارڈ کرکے عوامی قربانیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ گیلانی نے کہاکہ شیخ محمد عبداللہ کے بعد ان کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور پوتے عمر عبداللہ نے بھی ہمیشہ بھارت کی وفاداری نبھاکر قومی اور ملی مقاصد کا سودا کیا، جبکہ جموں کشمیر کے عوام نے کبھی بھی بھارت کے جبری فوجی قبضے کو دل سے قبول نہیں کیا۔ گیلانی نے کہا جموں کشمیر بین الاقوامی سطح پر منطور شدہ ایک متنازعہ تاریخی مسئلہ ہے اور بھارتی آئین کے وجود میں آنے سے پہلے کا مسئلہ ہے ، لہٰذا جموں کشمیر کا مسئلہ آئین ہند کے دائرے میں نہیں آسکتا ہے۔ گیلانی نے کہا کہ بھارت کے لیڈروں نے خود اس متنازعہ مسئلہ کو جموں کشمیر کے عوام کی خواہشات اور تاریخی پسِ منظر میں حل کرنے کے وعدے پاکستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں سے بھی کئے ہیں۔ گیلانی نے کہا کہ عمر عبداللہ کے اس بیان کہ ’’حقِ خود ارادیت کا موقع فراہم کرنے میں پاکستان رُکاوٹ بنے گا‘‘ کو بچگانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان روزِ اول سے جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے عوام کو حقِ خود ارادیت کا موقع فراہم کرنے کی وکالت کرتا آیا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قرارداروں کو عملانے کے لیے پاکستان وعدہ بند ہے، مگر یہ بھارت ہے جو اس میں سب سے بڑا رُکاوٹ بنا ہوا ہے اور جموں کشمیر میں اس حوالے سے اٹھنے والی ہر آواز کو طاقت اور فوجی جبر سے ختم کرنا چاہتا ہے۔ادھر حریت(ع) نے کہاکہ اپنے آپ کو کشمیریوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے عمر عبداللہ نے ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے حالیہ ایام میں 100سے زیادہ معصوم کشمیریوں کے قتل عام،500سے زیادہ افراد کا آنکھوں کی بینائی سے محروم کردئے جانے اور ہزاروں کو زخمی کرنے جیسے انسانیت سوز مظالم کو اجاگر کرنے کے بجائے حکومت ہند کے ایجنڈا کو آگے بڑھاتے ہوئے دہلی کے اپنے آقائوں کو خوش کرنے کا بھر پور طریقے سے حق ادا کیا ۔حریت کانفرنس نے واضح کیا کہ عمر عبدللہ کا یہ کہنا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے، بے بنیاد اور گمراہ کن ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کے تین فریق کشمیری عوام ، بھارت اور پاکستان ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ عمر عبداللہ نے اپنے طرز عمل سے یہ بات پھر ثابت کر دی ہے کہ وہ اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چل کر کشمیر میں مگر مچھ کے آنسو بہا تے ہوئے ایک بات دہلی میں دوسری بات اور دہلی سے باہر بھارت کی وکالت کرنا ان کا پیشہ رہا ہے ۔حریت کانفرنس نے باشعور اور باغیر کشمیری عوام سے یہ بات زور دے کر کہی کہ وہ ان موقعہ پرست ، خود غرض اور اقتدار کے پجاری سیاستدانوں کی چالوں سے با خبر رہیں اور مقامی طور پر دئے جا رہے ان کے منافقانہ اور کشمیر دشمن بیانات سے خبردار رہیں اورہماری خونین تحریک کو زک پہنچانے کی کوششوں کو متحدہ طور پر ناکام بنائیں۔ ادھر نیو یارک یونیورسٹی میں طالب علموں کی طرف سے ’’ بھارت اور پاکستان اور برصغیر کے معاملات‘‘ کے موضوع پر منعقد کی گئی کانفرنس میں سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے خطاب کو بار ایسوسی ایش کشمیر نے حقیقت سے بعید قرار دیا ہے۔ بار ایسوسی ایشن کشمیر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر سے واضح کرتی ہے کہ سیکورٹی کونسل کی 28قراردادوں جنہوں نے کشمیر میں بھارت کے ساتھ الحاق کو بنیاد قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے، کشمیری عوام کی حق خود اداریت کی بنیاد ہے اور یہ صرف بھارت ہے جس نے پہلے ان قرار دادوں کو عملانے میں تاخیر اور پھر بعد میں انکار کیا ہے۔ بار ایسوسی ایشن نے عمر عبداللہ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے روح سے پاکستان کو پہلے کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانے ہونگی اور ایسے علاقوں کو خالی کرناہوگا جن کو سال 1947میںقبضے میں لیا گیا تھا اور اسکے علاوہ پاکستان کو تمام فوجی اور نیم فوجی دستے جموں و کشمیر سے ہٹانے ہونگے جس کے جواب میں بھارت کو بھی اپنی فوجیں واپس بلانی ہونگی اور اس کے بعد ہی استصواب رائے منعقد کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ بار ایسوسی ایشن عمر عبداللہ کی توجہ ڈاکٹر فرینک گریہم کی تعیناتی کی طرف دلانا چاہتی ہے جو بھارت اور پاکستان کیلئے اقوام متحدہ کے نمائندے’’سراون ڈکسن‘‘کے بعدتعینات کئے گئے تھے،نے07/09/1951 ،18.12.1951 ،16.07.1952،02.09.1952اور04.09.1952 کو اقوام متحدہ میں جمع کی گئی رپوٹوں میں کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں نے جموں و کشمیر سے اپنی فوجیں واپس ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی تھی ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں میں تنازعہ فوجی کی تعداد اور استصواب رائے کیلئے مقرر کئے جانے والے ایڈمنسٹریٹر کی دفتر کولیکر کھڑا ہوا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تنازعہ بھی اقوام متحدہ کی مداخلت سے 23.12.1952کو ختم ہوا جب اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں پر زور دیا کہ بھارت اور پاکستان جلد بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کرے تاکہ فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی فیصلہ لیا جاسکے۔ بار نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ فوجی انخلاء کے اختتام پر پاکستانی حصے میں 3000سے 6000فوجی موجود رہیں گے جبکہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں موجود فوجیوں کی تعداد 12000اور 18000ہزار ہوگی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے تحت23.12.1952کو سیکورٹی کونسل کی قرارداد کے تحت بات چیت کا سلسلہ جینوا میں جنوری اور فروری 1953 میں جاری رہا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر گرہم نے مشورہ دیا تھا کہ بھارت کی طرف سے 21ہزار فوجی تعینات کئے جائیں جس کی پاکستان نے سخت مخالفت کی تھی کیونکہ یہ اقوام متحدہ کی 23.12.1952کو پاس کی گئی قرار داد کے منافی تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بھارت کا ضد پر رویہ تھا کہ وہ کشمیر میں 12ہزارسے 18ہزار فوجیوں کے بجائے 21ہزار فوجی کشمیر میں تعینات کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے بات چیت کا عمل رد ہوا اور اقوام متحدہ کے نمائندے نے 27مارچ1953کو سیکورٹی کونسل میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ عمر عبداللہ کابیان نہ صرف حقیقت سے برعکس ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے اور اسلئے انکے بیان میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ اس دوران اے آئی پی سربراہ اورممبراسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے عمر عبداللہ کی طرف سے نیو یارک میں کی گئی تقریر کی شدید مذمت اور نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تقریر سے ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اس جماعت کے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہے اور1931ء سے لیکر آج تک این سی کی قیادت کا کشمیر میں ایک بات ، دلّی میں دوسری بات اور بین الاقوامی فورموں میں کچھ اور ہی متضاد موقف اختیار کرنا اس کی پہچان بن چکا ہے۔رشیدنے عمر عبداللہ کو چلینج کیا کہ جو کچھ انہوں نے نیو یارک میں کہا یا دلّی دربار کے خفیہ اجلاسوں میں کہتے آئے ہیں، اگر ان میں ذرہ بھر بھی اخلاقی جرأت ہے تو انہیں یہی باتیں لالچوک یا کشمیرکے کسی اور حصے میں کرنی چاہیے۔انجینئر رشید نے کہا ’’اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ کشمیر کی اسمبلی میں الحاق کو عارضی کہنے والے عمر عبداللہ نیویارک میں LOC کو بین الاقوامی سرحد بنانے کی وکالت کر رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ نئی دلّی کی ہدایت پر عمر عبداللہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل آوری نہ ہونے کیلئے پاکستان کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جب کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی تمام سرکاروں نے ہر بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کو عملانے کے لئے عالمی برادری سے درخواست کی ہے ۔ کیا عمرعبداللہ یہ چاہتے ہے کہ پاکستان بغیر کسی جامعہ پلان کے اچانک آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے فوجیں نکالیں تاکہ ہندوستان پورے آزاد کشمیر پر آسانی سے قبضہ کر سکے۔ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر نہ صرف عمر عبداللہ نے دن کو رات کہا ہے بلکہ کشمیریوں کی قربانیوں کی بھی توہین کی ہے۔ اسی طرح کشمیری پنڈتوں کشمیر سے بے دخلی کے لئے کشمیریوں کو ذمہ دار ٹھہرانا اس بات کا ثبوت ہے کہ عمر عبداللہ دلی کے ترجمان بن کر باہر کی دنیا کو گمراہ کررہے ہیں ‘‘ ۔