اسلام آباد//اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کی جرمن وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی جس دوران ان کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے ۔ملاقات کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے باہمی امور سمیت خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس سے قبل جرمنی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔اسلام آباد میں جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے دونوں شخصیات کے درمیان ہونے والی ملاقات میں زیر غور آنے والے امور پر تبادلہ خیال کیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے جرمنی کے ہم منصب ہائیکو ماس کو پاکستان کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے تحت اٹھائے گئے انسداد دہشت گردی کے اقدامات سے آگاہ کردیا، ساتھ ہی بتایا کہ اس پلان پر من و عن عمل درآمد کیا جارہا ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی اور خطے کا چیلنج ہے اور پاکستان نے اس معاملے میں بہت زیادہ اقدامات اٹھائے ہیں‘، میں نے جرمن وزیر خارجہ سے نیشنل ایکشن پلان کے ارتقا کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے بتایا کہ 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے ’خوفناک‘ واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا اور اس سانحے نے دہشت گردی سے لڑنے کے لیے سیاسی قیادت کو اتفاق رائے پیدا کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے ہائیکو ماس کی بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ’بہت نازک صورتحال‘ پر بھی ان کی توجہ مرکوز کروائی گئی، جس کا ’فوری طور پر حل‘ ہونا بہت ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ’مقبوضہ کشمیر میں اگر انسانی حقوق کی خلاف وزری ہو، اگر وہاں تشدد ہو تو پھر اس کا ردعمل تو آئے گا اور اس وقت اس ردعمل کو سنبھالنا مشکل ہوگا، لہٰذا پاکستان کا موقف ہے کہ ’آگے بڑھنے کے لیے مذاکرات ہی واحد‘ ذریعہ ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کبھی بات چیت سے گھبرایا نہیں‘ لیکن بھارت سے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کشمیری قیادت اور عوام کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔پریس کانفرنس کے دوران ہائیکو ماس نے جاری افغان عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی، ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی ’فوری رہائی‘ کو بھی سراہا، انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا جرمن حکومت کشیدگی کی کمی کیلئے پاکستانی کی کوششوں کو تسلیم کرتی ہے۔