علی گڑہ مسلم یونیورسٹی کا شمار دنیا کی مایا ناز یونیورسٹیوں میں ہو تا ہے اور ملک بھر میں اس کو پہلا درجہ حاصل ہے – جب ہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تا ریخ کو اپنی نظروں سے تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ جب 1857ءکے غدر میں مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور انگریزوں کی ظلم و بربریت عام ہونے لگی تو قوم اپنی تہذیبی روائیت کو بھول گئی تھی – جہالت اور بے جاء رسم ورواج کے دلدل میں پھنس گئی تھی – ایسے مایوس کن ماحول میں سر سید احمد خان نے آنکھیں کھولیںاور ان سے قوم کی کشتی کو ڈوبتےہوے دیکھا نہ گیا ، اس لئے قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھانے کی جرأت کرلی ۔ انہوں نےمدرسة العلوم کی بنیاد رکھی – پھر کیا تھا کہ ایک طرف سرسید احمد خان نے اپنا تن من دھن قوم کی ترقی اور فلاح وبہبود کے لئےلگا نا شروع کردیا دوسری طرف قوم نے بجائےسرسید کے کاندھے سے کاندھا ملا نے کے ان کی مخالفت اور طعن و تشنیع شروع کردی، یہاں تک کہ ان پر کفر کے فتوے تک لگائے گئے – تاہم اس محسن قوم ملت اور بہادر جوان مرد نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے مخالفوں کو بس اتنا کہا کہ اپ مجھے جو چاہیں کہیں مگر خدا کےلئے ان اپنے نو نہالوں کی زندگی کو مت برباد کیجئے، ان کو جدید علوم کے زیور سے آراستہ کیجئے- سر سید احمد خان یہ سمجھ چکے تھے کہ اس قوم کی ترقی کا راز دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی علوم میں مضمر ہے- مدرسة اللعلوم بعد میں محمڈن اورینٹل کالج میں منتقل ہوا، یوں سرسید احمد خان کا لگایا ہوا پودا آہستہ اہستہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگا – دیکھتے ہی دیکھتے طلباء کاجم غفیر تعلیم کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کر نے لگا- ان کا علمی وتہذیبی سفرکہ ایک روشن چراغ بن کر بھٹکے ہوؤں کو منزل آشنا کر گیا کہ علم وآگہی کا یہ روح رواں اور میدان تعلیم کا مرد مجاہد 1898ء کو اس دنیا فانی کو الوداع کہہ گئے ، پھر وہ وقت آگیا کہ 1940ء میں محمڈن اورینٹل کالج یونیورسٹی میں مبدل ہو گئی اور سیداحمد خان کا آب ِ زر سے لکھاجانے والا خواب پورا ہوا۔ اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دنیا کی وہ عظیم علمی درسگاہ ہے جہاں سے نہ صرف تعلیم وتعلم کی مشعلیں فروزاں ہوتی ہیں بلکہ تہذیب وتمدن کے جوہر بھی لٹا ئے جاتے ہیں ۔ یہ دانش کدہ تشنگان ِ علم کو پوری دنیا سے کھینچ کر اپنے علمی سر چشمے سے سیراب کرتا جارہا ہے – یہ دنیا کی ایک ایسی واحد یونیورسٹی ہے جس کی بنیاد وسیع المشربی اور وسیع الخیالی پر رکھی گئی ہے – یہی وجہ ہےکہ یہاں ہندو مسلم اور ودسری جاتیوں کے لوگ ایک قوم کی طرح مل جل کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہر قسم کے مذہبی تعصب اور ' قومی منافرتوںسے بالا تر ہوکر علمی سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے علم مو تی کے اور آگہی کے ہیرے جواہرات اپنی چمک دمک سے پوری دنیا پر چھا تے جارہے ہیں – بقول شاعر ع
جو ابر یہاں سے اٹھا ہے وہ سارے جہاں پر چھا یا ہے
یہاں پر قومی ایکتا اور مذہبی ومسلکی اتحاد کی بہترین مثالیں ملتی ہیں- یونیورسٹی کی بڑی جامع مسجد جس میں ہر مکتبہ فکر سنّی شیعہ اور دیگر مسالک کے طلبہ اپنے رب کے حضور سر بسجود ہوتےہیں، کوئی تفریق یا انتشار نہیں ، کوئی من وتُو نہیں بلکہ ہر ایک خوشی خوشی ایک دوسرے سے مصافحہ ومعانقعہ کرتےہوئے دیکھا جاتاہے – یہ ایک ایسا اتحاد ہے جو دنیاکے کسی ا وردانش گاہ میں شاذ ونادر ہی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے- ی یونیورسٹی اپنی تعمیر وترقی میں اپنی مثال اپ ہے – اس کی حسین و جمیل جامع مسجد سٹریچی حال وکٹوریہ گیٹ تعا رف کے محتاج نہیں ،دنیا بھر کے سیاح یہاں آکر لطف اندوز ہوتے ہیں – یونیورسٹی علمی میدان میں ملک بھر میں پہلے نمبر پر آتی ہے جس میں مختلف شعبوں میں زیر تعلیم طلبا کی تعدادقریب 35000 ہے – یہ طلبہ و طالبات اورمحققین ملک بھر کے کونے کونے سے علم سےسیراب ہونے یہاں پہنچے ہیں جن کا قیام گاہوں کا بہترین نظم اس کے علاوہ کئی کشادہ ہال صحن اور گلپوش پارکیں ذہنوں کو سکون بخشتے ہیں -یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی طالبات کےلئے دو بڑے I.G اور عبداللہ کالج ہیں جہاں پُر سکون ماحول اور پاکیزہ فضا میں وہ تعلیم کے انمول زیور سے آرستہ ہورہی ہیں-12 شعبے اس کے علاوہ میڈیکل انجنئیرنگ پالی ٹیکنیک کالج اور 8 بڑے سکول ہیں – اس وسیع و عریض احاطہ میں یونیورسٹی کی سنٹرل کتب خانہ موسوم بہ مولانا آزاد لا بر ئیری واقع ہے جو دنیا بھر میں مشہور و معروف ہے – یہ یونیورسٹی کی شان ہی نہیں بلکہ قوم اور وطن عزیز کی ایک نایاب وراثت ہے – اس سے یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے علاوہ ملک بھر کے مفکر و ادیب سکالر اور تحقیق کے ماہرین بھی اس لائیبریری سے استفادہ کرتے ہیں – اللہ کرے اس ادارے کو علم وتحقیق کے ہر میدان میں یکتائے روزگار بنائے۔
[email protected]> رابطہ