رحیم رہبرؔ
قصبے کے معروف ترین چوک میں علی محمد اینڈ سن نامی کریانہ کی وہ مشہور ہوں سیل دُکان تھی، جس کا مالک علی محمد تھا۔ علی محمد نے دکان نوکروں اور مُشنی کے حوالے کی تھی۔وہ اپنا سارا وقت سماجی بہبود کے کاموں پر صرف کرتا تھا۔
میں نے غفور چاچا سے سُنا تھا کہ علی محمد کی شادی حسینہ نامی ایک خوبصورت ترین لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی۔ اُن کا صرف ایک ہی لڑکا تھا، جس کا نام انہوں نے شہزاد رکھا تھا۔ اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے علی محمد اور اس کی بیوی حسینہ نے بڑی ہی لاڈ پیار کے ساتھ اُس کو پالا تھا۔ شہزاد نے بارہویں جماعت تک شہر کے ایک نامی گرامی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس سکول سے فارغ ہونے کے بعد بقول غفور چاچا انہوں نے اس کو وادی کے باہر انجینئرنگ کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجا، جہاں سے شہزاد نے پانچ سال کی مدت میں انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی۔ غفور چاچا کے کہنے کے مطابق والدین نے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی شہر کے ایک بڑے رئیس کی بیٹی اِقراء سے کی۔ اقراء نے پچھلے سال حُسن کی شہزادی (Queen of beauty)کا خطاب جیتا تھا۔
دولت ، شہرت، عزت، حسُن یہ ایسی چیزیں ہیں جو تمام زندگی انسان کا ساتھ نہیں دیتی ہیں۔ دھیرے دھیرے علی محمد کے کاروبار میں جُمود آنے لگا اور آخرکار علی محمد کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی علی محمد کے آنگن میں مایوسیوں نے اپنا خیمہ گاڑ ھ دیا۔ کچھ ہی مدت بعد اُس کی چاہتی شریک حیات حسینہ کرونا وائرس کا شکار ہوئی اور وہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔ بیوی کا بچھڑ جانا علی محمد کے لئے ایک کربناک امتحان تھا۔
غفور چاچا اکثر رات دیر گئے تک مُجھے علی محمد کے بارے میں کچھ میٹھی اور کچھ غمناک کہانیاں سُناتا تھا۔
اُس دنِ میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی جب میں نے علی محدم کو اُسی تاریخی چوک میں اپنی پرانی دُکان کے سامنے بے بسی کی حالت میں چلّاتے ہوئے دیکھا۔ وہ نمناک آنکھوں سے ہر ایک گزرنے والے سے کہتا تھا۔
’’۔۔۔۔اُس نے زنجیر توڑ دی۔۔۔۔ وہ کم بخت بھاگا۔۔۔۔ وہ احسان فراموش نکلا۔۔۔۔ اب میں کیا کروں۔۔۔ کیسے گھر جائوں! وہ ۔۔۔۔ وہ مجھ پر غضب کرے گا! میں اُس سے بہت ڈرتا ہوں!‘‘
’’ارے! کیا کیا ہوا!؟‘‘ میں نے علی محمد سے بڑے ہی انہماک کے ساتھ پوچھا۔
’’وہ زنجیر توڑ کر بھاگا۔۔۔ اب میں کیا کروں۔۔۔ کیسے گھر جائوں! آج وہ مجھے نہیں چھوڑے گا!‘‘۔ علی محمد نے بہت ہی اُداس لہجے میں جواب دیا۔
’’علی محمد! کون ہے وہ بدبخت ظالم، جس نے آپ کو اتنا ستایا ہے۔ جس کے ڈر سے تم اس قدر کانپ رہے ہو؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’بیٹا! وہ کم بخت نہیں۔۔۔ وہ میرا بیٹا ہے، میرا لخت جگر، اللہ اُس کی حفاظت کرے وہ میرا شہزادہ ہے۔‘‘
شہزاد کا نام سُنکر میں چونک گیا۔ میں نے علی محمد سے پھر پوچھا۔
’’آپ کو بیٹے کا اتنا خوف کیوں ہے؟ جبکہ ڈر، خوف ایک بیٹے کو اپنے باپ کا ہونا چاہئے۔ یہاں اس معاملے میں اُلٹی گنگا بہتی ہے!‘‘
علی محمد نے اپنا رومال جب سے نکالا۔ اپنے آنسوں پونچھ لئے اور یوں گویا ہوا۔
’’بیٹا! دراصل غلطی میری ہے، جو میں نے اُس دِن اُسکی بیوی اقراء کا فیصلہ قبول کیا۔ شہزاد نے کہا تھا کہ ہم اُسکی دیکھ بھال کے لئے نوکر کا بندوبست کریں گے، پر اُسکی بیوی نہیں مانی۔ اُس نے کہا جو تنخواہ ہم نوکر کو دیں گے کیوں نہ وہی تنخواہ ہم لالہ کو یعنی مجھے دیں گے۔ میں نے اقراء کا فیصلہ قبول کرکے نہ صرف اپنی غیرت بلکہ اپنے غرور کو بھی نیلام کردیا۔ جسکی سزا آج میں اُٹھا رہا ہوں!‘‘۔
’’اُٹھئے جناب میں تمہارے ساتھ آئوں گا، میں دیکھتا ہوں تمہارا بیٹا تمہاری بہو تمہارے ساتھ کونسا رویہ اختیار کرتے ہیں!‘‘۔ میں نے علی محمد سے کہا۔
’’ نہیں ۔۔۔نہیں بیٹا۔۔۔ میں ان کو کیسے بتائوں کہ اُس نے زنجیر توڑ دی اور لاکھ کوشش کے باوجود وہ بھاگا۔۔۔!‘‘
’’علی محمد! خدارا بتائو۔۔۔ ارے کون بھاگا۔۔۔ کس نے زنجیر توڑ دی!؟‘‘
’’بیٹا! وہ سفید کُتا جو اقراء اپنے جہیز میں ساتھ لے آئی تھی‘‘۔
علی محمد نے کپکپی آواز میں جواب دیا۔
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام کشمیر
موبائل نمبر؛9906534724