گلزار احمد وانی
’’ پانچواں موسم ‘‘ علی شیدا کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو کہ خالص نظموں پر مشتمل ہے ۔ اس سے قبل کئی شعری مجموعے ان کے منصۂ شہود پر آ چکے ہیں ۔ ’’درد کی دہلیز تک‘‘ ٬ ،’’ لا بہ لا‘‘ اور اب ’’پانچواں موسم‘‘ ان کا منظر عام پر آ چکا ہے۔ مذکورہ مجموعے میں کل انسٹھ نظمیں شامل ہیں ۔’’ گمشدہ پڑاؤ‘‘ سے لے کر’’ غار سے پھوٹی روشنی ‘‘ تک ان کی یہ نظمیں اپنی درو بست میں سجی ہوئی لگ رہی ہیں ۔ ان نظموں میں شاعر کے تخلیقی رویوں کی بو باس رچی بسی ہے۔ جو اس بات کا باس دے رہی ہیں کہ موصوف اپنی اردو نظموں کے ذریعے سے اپنے داخلی و خارجی واقعات و تجربات عام قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
’’ انجمن پنجاب ‘‘ کےقیام کے ساتھ ساتھ جتنی بھی ادبی انجمنوں کا آغاز ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ کئی سرکاری و غیر سرکاری ادبی انجمنیں بھی برسر پیکار ہونے لگیں ۔ جن سے ادب کی کئی اصناف پھلنے پھولنے لگ گئیں جن میں خاص طور پر اردو ںظم کو جو اہمیت مل گئی وہ قابل سراہنا ہے۔ اس انجمن کی گہرائی و گیرائی نے نظم نگاروں کی ایک لمبی اور طویل فہرست تیار کرنے میں ایک اہم رول نبھایا ۔ یہ قافلہ برابر چلتا رہا اور آج تک رواں دواں ہے۔ اردو نظم کو جو مقبولیت حاصل ہو گئی اسے شاید ہی لفظوں میں اتارا جا سکتا ہے۔ اردو نظم کا بول بالا اس قدر ہونے لگا کہ اس نے غزل پر فوقیت حاصل کی ہے۔ اردو نظم نے کئی نامور تخلیق کار اردو ادب کو ارپن کئے جن میں فیض ٬ اقبال ٬ چکبست ٬ نظیر ٬ ن م راشد ٬ قاضی سلیم ٬، محمد علوی ٬ شہریار ٬ منیر نیازی ٬ اختر الایمان ٬ شفیع الدین نیر یا اور بھی بہت سارے اہم نام جن کے ذکر کے بغیر اردو نظم نگاری کا بام عروج پر پہنچنا نا ممکن سا لگ رہا تھا
ریاست جموں و کشمیر میں بھی ملک کی باقی ریاستوں کی طرح اردو نظم کو فروغ دینے میں کئی نام اہمیت کے حامل ہیں جنہوں نے اپنی انسیت نظم کے حوالے سے ظاہر کی اور کئی مجموعے منظر عام پر آنے لگے۔ ۱۹۴۷ سے قبل کئی نظم نگاروں نے اپنی شناخت نظم نگاری کے حوالے سے بنائی جن میں چراغ حسن حسرت، نند لال کول، طالب ۔شہہ زور کشمیری، ٬ میر غلام رسول نازکی، مرزا کمال الدین رسوا، ٬ غ م طاؤس ٬ بلبل کاشمیری، نشاط کشتواڑی ٬ منوہر لال دل اللہ رکھا ساغر، دینا ناتھ رفیق ، میکش کاشمیری ،جموں سے کرشن سمیل پوری ٬، رسا جاودانی ،وفا بھدرواہی ٬ ،عبدالرحمان دیوانہ، ٬ محمد اسداللہ قاضی ، پریمی رومانی وغیرہ۔
پھر وادئ کشمیر سے حامدی کاشمیری کے ساتھ کئی اور نظم نگار بھی جڑ گئے جن میں خاص طور پر شفق سوپوری ٬، نذیر آزاد ، ٬ فرید پربتی، مجید مضمر ٬ ،رخسانہ جبین ٬ اور پھر رخشندہ رشید ٬، شبیر آذر ٬ پرویز مانوس، روبینہ میر ٬ اور گلزار احمد وانی (راقم )کا بھی نظموں پر ایک مجموعہ بنام ’’ گرد سفر‘‘منظر عام پر آچکا ہے اور اس کے علاوہ علی شیدا بھی شامل ہیں ،جن کے بغیر جموں و کشمیر میں اردو نظم نگاری کی تاریخ نامکمل ہے ۔
علی شیدا مسلسل اور تواتر کے ساتھ لکھ رہے ہیں خصوصا نظم کے حوالے سے ٬ آج تک جتنے بھی ان کے شعری مجموعے شایع ہوئے ہیں تقریبا ًان سب میں غزل کے ساتھ ساتھ نظموں کی ایک وافر مقدار بھی موجود ہے۔ ان کی نظم میں باقاعدہ طور علامتیں استعارات ٬ تشبیہات ٬ اور تلمیحات کا التزام پایا جاتا ہے ۔ داخلی اور خارجی تجربات و واقعات کا عکس و اثر ان کی نظموں کو وہ تانا بانا فراہم کر رہے ہیں جن سے ان کی نظم بہت دور سے اپنی پہچان رکھتی ہے۔
تپتی ریت مٹھی میں دبائے
میں بیچ صحرا کے کھڑا ہوں
ریت کی تپش ہاتھوں کی لکیروں میں
دھیرے دھیرے سرایت کر رہی ہے
فکر کی وادیوں میں عجیب موسم ہے
آس پاس سوچوں نے خیمے گاڑ دئے ہیں
( نظم۔ اندھیروں کی آخری شکست)
یا
دشت امکاں میں کوئی موسم نہیں ہوتا ہے
کہیں پہ گماں کی سہانی دھوپ
انگڑائی لیتی رہتی ہے
کہیں حقیقت کی تند تیز بارش۔۔۔
(نظم ۔ دشت امکاں کے موسم)
مذکورہ نظموں کے ان ٹکڑوں سے کم لفظوں میں بھاری فکر کی بھینی بھینی خوشبوئیں محسوس کی جا سکتی ہیں ۔ مذکورہ مجموعے کی نظمیں اردو نظموں کی اپنی روائت قائم کئے ہوئی ہیں اور اپنی تابناکیوں سے قارئین کا دل اپنی اور کھینچ لیتی ہیںاور اس طرح سے باقی موسموں کی طرح محبت کے موسم کی بات ہو رہی ہے جو کہ پانچواں موسم کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ امید ہے کہ اس شعری مجموعے کی اہمیت اس کے مطالعے کا جواز فراہم کرنے میں کامیاب ہوگی۔کتاب خوبصورت ڈیزائن سے مزین ہے خوبصورت کاغذ ٬ بہترین چھپائی ٬ اور بے مثال ترتیب و تنظیم سے کتاب دیدہ زیب ہے۔
[email protected]