اردو ادب میں بیسویں صدی کے عظیم الشان شخصیت علی سردار جعفری کی ادبی شخصیت لگ بھگ ساٹھ برس کی مدت کا احاطہ کئے ہوئی ہے۔اپنی ادبی زندگی کے آغاز سے لے کر آخر تک سردار جعفری الفاظ کے ذریعے انسان دوستی ،روشن خیالی ،امن ومحبت ،رواداری اور زندگی کے خوبصورت تصور کی مصوری کرتے ہیں۔ سردار جعفری میںسادگی بدرجہ اتم موجود تھی ،و ہ منکسر المزاج ،نرم خو،سادہ دل انسان تھے،عام شخص کی طرح لوگوں میں گل مل جاتے۔انہوں نے فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر اخبار فروخت کیا۔مئی 1966 میںمشاعرہ ان کی صدارت میں منعقد ہوا تھا اور وہ اسٹیج پر کھڑے گاؤ تکیہ اور چادر بچھانے میں خود بھی مدد کررہے تھے،خود مہمانوں کورخصت کرنے میں بھاگ دوڑ کررہے تھے۔شعراء کی ایک دعوت میں سردار جعفری شیروانی پہنے ہوئے تھے۔عصمت چغتائی نے شرارت سے سردار کے کرتے کی آستین کھینچی۔پوری آستین اُن کے ہاتھ آگئی۔سردار جعفری نارمل رہے۔پھٹا ہوا کرتا پہننے کی وجہ کا جواب دیتے ہوئے سردار جعفری نے کہا کہ میزبانوں نے میری شاعری سننے کے لیے بلایا ہے نہ کہ میرے کپڑے دیکھنے کے لیے۔سردار جعفری نے کبھی کسی کو کمتر نہ سمجھا ،کسی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھا،نہ کبھی کسی کو چھوٹا سمجھا۔
علی سردار جعفری نے محمد حسن عسکری کے مرتب کردہ مجموعے ’’میری بہترین نظم‘‘ جو کتابستان الہ آباد سے 1942 میں چھپی،میں اپنے مختصر حالات یوں بیان کیے ہیں۔’’ پیدائش 1914 ،والدین کا ارادہ مولوی بنانے کاتھا۔چنانچہ سلطان المدارس لکھنؤ میں داخل ہوگیا۔1925 میںسلطان المدارس چھوڑ کر بلرام پور ہائی اسکول میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے لگا۔1930 میں جہازرانی(بمبیٔ)میں لے لیا گیا۔مگر والدین نے واپس بُلالیا۔انٹر میڈیٹ علی گڑھ یونیورسٹی سے پاس کیا۔1932 میںجب بی۔اے کا طالب علم تھا،اسٹرایک میں حصہ لینے کے جرم میں وہاں سے نکال دیا گیا۔1938 میں عربک کالج دہلی سے بی ۔اے کیا۔علی گڑھ آنے تک گاندھی جی کی آب بیتی کا اثر دماغ پر بہت تھا لیکن مارکس اورانگلیز کی تعلیمات نے یہ اثر زائیل کردیا۔ 1932میں لندن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی۔علی گڑھ میں اس کا پہلا اجلاس 1936میں خواجہ منظور حسین صاحب کے مکان پر ہوا۔وہاں جدید ادب اور نوجوان کے رجحانات کے نام سے سردار جعفری نے ایک مقالہ پڑھا جو انجمن کے اعلان نامہ سے متاثر تھا۔اس وقت سے جعفری کے جدید ادبی کاوشوں کی ابتدا ء ہوئی۔اس سے پہلے جعفری صاحب ہوائی چیزوں لکھا کرتا تھا۔1937میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد پڑی۔چنانچہ ابتدا ء ہی سے سردار جعفری اس میں شریک تھے۔1938میں کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’منزل‘‘ کے نام سے شائع کیا۔1939میں لکھنؤ یونیورسٹی میں ایم ۔اے میں داخلہ لیا ۔دسمبر 1940 میں طالب علموں کی سیاست میں حصہ لینے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیااور لکھنؤ اور بنارس جیل میں رہا۔رہا ہونے کے بعد گھر میںنظر بند کردیا گیا۔لیکن پھر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت مل گئی تھی۔
آپ اپنے زمانے کے بڑے مفکر ،ادیب ،ناقد ودانشور ،افسانہ نگار ،ڈرامہ نویس ،صحافی ،ہدایت کار اور نظریہ ساز بھی تھے۔ترقی پسند تحریک کے بانیان اور رہنمایان میں سے ایک تھے۔ادب،تاریخ ،تہذیب ،ثقافت ،سیاست وغیرہ کے گہرے رمز شناس ،فارسی وعالمی ادبیات کے عمدہ نباّض تھے۔کبیر ،نانک کا تصوف ،سعدی حافظ کا تغزل،غالب کا تفکر ،اقبال کا تعّمل اور مظلوم انسانوں کے تشہّد تھے ۔ سردار جعفری علم وعمل ،اضطراب واحتجاج کی صرف ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک عہد ،ایک تاریخ اور ایک علامت تھے۔زاہدہ زیدی نے اپنے مضمون’’ علی سردار جعفری کی فکری اور فنی جہات‘‘ میں ان کے فکر کے تعلق سے اپنا نظریہ اس طرح پیش کرتی ہیں:’’وہ ایک اخلاق ،مفکر اور۔۔۔۔شاعر تھے جن کی شاعری کا کینواس اور فکر کا دائرہ کافی وسیع تھا اور ان کی فکری جہات متنوع اور ارتقا ء پذیر ہیں۔پروٹسٹ کے جذبے اور انقلابی نظریے کے اظہار سے لے کر وسیع آفاقی وژن اور فلسفیانہ تفکر اور ماورائی احساس تک اس نے کئی مراحل طئے کیے۔اور ہر منزل پر ان کی فکر والہانہ جذبوں سے سرشاررہی۔شدت فکر واحساس وژن کی وسعت اور اسلوب کی بلند آہنگی سردار جعفری کی شاعری کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں۔‘‘(سردار جعفری ’’شخصیت اور فن‘‘مرتبہ اصغر عباس،2002۔ص129)
سردار جعفری ضرورت مندوں کی امداد میں نہایت رازداری برتتے تھے۔انہوںنے کبھی کسی سے حق تلفی نہیں کی،نہ ادب میں نہ عام زندگی میں۔وہ انسان کی قدر کرتے تھے،اس کے رتبے یا جاہ ومنزلت کی نہیں۔ان کے گھر میں کتابوںکی ایسی قدرومنزلت تھی جو بعض کتب خانوں میں بھی نہیں ملی۔انہیں کتابوں سے محبت تھی۔ان کے گھر کی سجاوٹ میںان کی اپنی دلکش ودل آویز ی شخصیت کے علاوہ ان کی کتابوں کا بھی بڑا حصہ شامل ہے۔30،جنوری1948میں سردار جعفری کی شادی سلطان منہاج سے ہوئی۔اسی دوران سردار جعفری نے پابلونروداکی ایک انگریزی کتاب’’Residence on Earth‘‘پڑھی۔یہ نظموں کا ایک انتخاب تھا جو ہسپانوی زبان سے انگریزی میں ترجمہ تھا۔یہ کتاب سردار جعفری کو اتنی پسند آئی کہ وہ جب دوسری بار 1949میں جیل گئے تھے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔اس کا ذکر سردار جعفری اپنے مضمون ’’شخصیت پابلونروادا‘‘میںاس طرح کرتے ہیں:’’مجھے اپریل1949میں دوبارہ گرفتار کرکے آرتھر روڈ جیل بھیج دیا گیا جہاں سے ڈیڑھ ماہ بعد تبادلہ سنٹرل جیل ناسک ہوگیا۔اس جیل یاترا میں جو کتابیں میری رفیق رہیں ان میں نرودا کی Residence on Earthبھی تھی۔جس پر آج تک آرتھر روڈ اور ناسک سنٹرل جیل کے جیلروں کے دستخط ہیں میں جولائی 1950 تک جیل میں رہا اور عید سے ایک دن پہلے رہائی کا پروانہ ملا۔یہ رہائی اتنی اچانک تھی کہ میں گھر پر اطلاع بھی نہ دے سکا تھا،جب میں نے عید کے دن صبح ہی صبح دروازہ کھٹ کھٹایا تو سلطانہ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئیں اور سب سے پہلی جو چیز انہوں نے مجھے دی وہ ترکی کے شاعر ناظم حکمت کی نظمیں تھیں جن کا ترجمہ ہماری ایک دوست صابرہ زیدی نے امریکہ سے بھیجا تھا۔‘‘(گفتگو،سہ ماہی،مارچ اور جون 1975 ،مضمون’’پابلونرودا،ص۔32)
سردار کوشاعری اُس ماحول سے وراثت میں ملی جہاں اُنیس ؔ ودبیرؔکے مرثیے گو یا روز مرہ زندگی کے جزکی حیثیت رکھتے تھے۔اُن کی شاعری کی ابتدائی نمونوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان اثرات سے آزاد کرنے میں ناکام ہورہے تھے جوان کی کثرت ِ مطالعہ کی وجہ سے اُن کی شاعری پر مرتب ہورہے تھے۔شاید اسی لئے اپنی ادبی زندگی کے باقاعدہ آغاز میں انھوں نے سب سے پہلے افسانوں کی طرف توجہ کی۔1938-39میں’’منزل‘‘ کے نام سے چھ افسانوں پر مشتمل اُن کا ایک مجموعہ منظر پر آیا۔جس سے حلقہ ادب لکھنؤ نے شائع کیا تھا۔یہ کتاب ان کی تخلیق نثر کا پہلا نمونہ تھی۔اُن کی دوسری نثری تخلیق جس نے ان کو ایک نثر نگار کی حیثیت سے منفرد شناخت بخشی۔1964میں منظر عام پر آئی ’’لکھنؤ کی پانچ راتیں‘‘ ہے۔یہ سوانح اور تاثراتی قسم کے مضامین کا مجموعہ ہے۔’’لمحوں کے چراغ‘‘ان کا طویل تاثراتی مضمون ہے جس میں شعر وادب کے حوالے سے موت کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کا زمانہ تخلیق 1969کے آس پا س ہے لیکن اس کی اشاعت برسوں بعد ماہنامہ آجکل جنوری 1996تااپریل1996میں ہوئی۔سردار جعفری کی فکر کا دائرہ صرف ترقی پسند مصنفین تک محدود نہیں تھا اور وہ صرف ہندوستان ہی کے تخلیق کاروں کی تخلیقات نہیں پڑھتے تھے۔بلکہ ساری دنیا کے ادب پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔اسی بات کو علی احمد فاطمی نے بھی لکھا ہے:’’سردار جعفری کا مطالعہ ایک عام ترقی پسند ادیب وناقد کی حیثیت سے محض اقبال ،پریم چند ۔جوش جیسے ترقی پسند فنکاروں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان کی فکرکی فطرت ہندوستانی تہذیب کی جڑوں میں پیوست کبیر ،جیسے ہندوستانی شعراء کو سمجھنے پر مجبور کرتی ہے اور یہی جذبہ گرونانک ،ٹیگور اور نذر الاسلام اور آگے بڑھ کر پابلونر ودا ،ناظم حکمت جیسے صوفی وانقلابی شاعروں تک لے جاتاہے۔جن کی تفہیم انہیں ہندوستان کی اصل تہذیب وتمدن کی طرف لے جاتی ہے اور اس فکری وتہذیبی تناظر میں ،وہ جب میر وغالب کی طرف آتے ہیں تو ایک نئی تصویر سامنے آتی ہے۔‘‘(نئی تنقید ،نئے اقدار،)
سردار جعفری کی زندگی کے تمام واقعات اور وہ جتنی بھی شخصیات سے مل چکے تھے اور جتنی کتابیں وہ پڑھ چکے تھے اور جتنے تجربات اور مشاہدات کا سامناکرچکے تھے،ان سب کے ساتھ ان کی فکر کا دائرہ اور بھی وسیع تر ہوگیا۔جو ہمارے سامنے ان کی تصانیف کی شکل میں موجود ہیں۔سردار جعفری کی کتاب مخدوم محی الدین(سوانح تنقید)1948 ،خون کی لکیر(نظمیں،1949 )، امن کا ستارہ ( نظمیں،(1950،ترقی پسند ادب(تنقید،1951)،ایشیا جاگ اٹھا(طویل نظم،1952)،پتھر کی دیوار (نظمیں ،1953) ، لکھنؤکی پانچ راتیں(نثر،1962)،ایک خواب اور(نظمیں،1965)،پیراہن شرر( نظمیں ،1966) ، پیغمبران سخن (مضامین ،1970 )،منتخب قومی شاعرہندوستانی شاعر آزادی کے بعد(1973)،اقبال شناسی(تنقید،1976)،لہو پکارتاہے(نظمیں،1978)،ترقی پسند ادب کی نصف صدی(خطبہ،1987)اس کے علاوہ 300سے زیادہ مضامین ملتے ہیں۔اُن کی ان تمام ادبی کاوشوںمیںان کی ذہنی وفکری تربیت دیکھی جاسکتی ہے۔ان میں حسن الفاظ اور حسن اظہار نمایاں ہے اور ان کے فکر وخیال میں ارتقاء نظر آتاہے۔سرداری جعفری اپنی تخلیقات کے سلسلے میں لکھتے ہیں؛’’میری تخلیقات پرصوفی سنتوں اور فقیروں کا گہرا اثر ہے۔سنت گیانشور،امیر خسرو،کبیر اور سنت تکارام نے انسانیت کو اونچا مقام دیا اور طبقاتی فرق کو ختم کیا وہی اثر میری تصنیفات میں درآیاہے۔انسانی معاشرے کی آزادی اور انسانی سر بلندی کی لڑائی لڑی ہے میںنے اپنے قلم کو انسانی زندگی کی بہتری کے لیے ہی استعمال کیاہے۔‘‘(اردو دنیا،سہ ماہی ،جنوری تا مارچ ،1998 ،مضمون ’’علی سردار جعفری سے ملاقات ‘‘ص۔78 )۔آپ کی طویل نظم ’’ امن کا ستارہ‘‘بارہ(12)ہندوستانی زبانوں میں منتقل ہوچکی ہے۔’امن کا ستارہ‘1950میں منظر عام آیا جس میں ان کی تین نظمیں سویت یونین اور جنگ باز‘استالن کتھا اور امن کا ستارا شامل ہیں۔سردار جعفری نے اس مجموعے کا انتساب ہی ’’امن عالم کے مجاہدوں کے نام‘‘کیا ہے جس سے ابتدا میں ہی واضح ہوجاتاہے کہ ان نظموں کا مقصد سماج سے ظلم وبربریت اور استحصال واستبداد کو ختم کرنا اور امن وامان کی راہیں کو واستوار کرنا ہے۔جب کہ نیشنل بک ٹرسٹ نے’’نئی دنیا کو سلا م ‘‘چودہ(14)زبانوں میں ترجمے کے لیے منتخب کیا ہے۔یہ نظم اپنے موضوع وہیئت کے اعتبار سے ایک منفرد نظم ہے جس میں شاعر نے اپنی فکر،اپنے تخیل کوتجسیم ،تمثیل،علامتوں اور پیکروں کی مدد سے جان ڈال دی۔اس نظم کے کردار علامتی کردار ہیںجن میں مریم اور جاوید جدوجہد کی علامت کے طور پر ا بھر کر سامنے آئے ہیں تو فرنگی کا کردار ظلم وستم کی علامت ہے اور اہم کردار اس بچے کا ہے جوا بھی دنیامیں نہیں آیا۔لیکن نئی دنیا کی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے۔اس نظم میں انھوں نے جابجا نئی نئی تراکیب بالخصوص پیکر کو استعمال میں لاتے ہوئے اردو شاعری کو نئی جلا بخشی ہے۔اس کے علاوہ ان کے تدوین وترتیب کے کارناموں کو: دیوان غالب،دیوان میر،کبیروانی،پریموانی جیسے ناموں سے شہرت حاصل ہوئی۔انہوں نے مختلف ایوارڈ اور اعزازات بھی حاصل کیے جیسے:سیویت لینڈ نہروایوارڈ1940،پدم شری ایوارڈ1947،جواہر لال نہروفیلوشپ1949،سجاد ظہیر ایوارڈ1974،اترپردیش اکیڈمی ایوارڈ1979۔1977،اقبال میڈل(پاکستان)1978،مخدوم ایوارڈ 1980،میر تقی میرایوارڈ1982،کمارآسن ایوارڈ1983،ہندروس دوستی میڈل1984،وغیرہ یہ ایوارڈ اور اعزازات آج بھی سردار جعفری کی کامیاب زندگی پر نغمہ سنج ہیں۔
آپ نے انگریزی ،فرانسیسی ،عربی،روسی،ازبک،چینی،فارسی،ہندی،تیلگو،ملیالم وغیرہ زبانوں میں تخلیقات کے تراجم کیے۔آخر میں علی سردار جعفری کی ہمہ جہت شخصیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنی بات ان کے اس شعر پر ختم کرتے ہیں جس کو انہوں نے 1996میں لکھنؤمیں اپنے دوست کی اہلیہ کے انتقال پر کہا تھا ؎
ڈھونڈنے والے تجھے ڈھونڈکے تھک جائیں گے
بزم فطرت کی کسی شے میں نہ پائیں گے سراغ
Mail:[email protected]