ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر
علم کے چراغ بجھ رہے ہیں،کشمیرمیںکتب فروش اپناکاروبارلپیٹ رہے ہیں۔یہ محض عام دکانیںنہیںبلکہ ایک عہد،تہذیب اورروایت قبل ازوقت تمام ہورہے ہیں۔جہاںاوراق کی خوشبو،افکارکی ضیاپاشی،ماضی کی لَن ترانی،شعورکی بازگشت،روح کی غذاہواکرتی تھی،آج وہ دَربندہورہے ہیں۔یوںلگتاہے جیسے ذہنی نشوونمااورفکرونظرکی پناہ گاہیںمقفل ہورہی ہیں۔تعلیمی ادارے ڈگریاںبانٹ تورہے ہیںلیکن شعور؟وہ توکہیںگُم ہوچکا ہے۔ مادے کی تسکین توہے پرروح کاکیا؟زمانے کی گردمیںوہ کہیںمدفون ہے۔جہاںکتاب نہ ہو،وہاںبحثیںخاموش ہوجاتی ہیںاورجہاںسوال نہ ہووہاںجواب بے معنی ہوجاتے ہیں۔برصغیرمیںعلم کے دِیے ٹمٹمارہے ہیں۔آلاتِ جدیدنے نسلِ نوکوکتابوںسے برگشتہ کردیاہے۔مستقبل کی تاریکی صرف اندیشہ نہیںبلکہ اب حقیقت بنتی جارہی ہے۔ہم تواداس نسلوںکے ’’وارثـ ‘‘ہیںاورآنے والی نسلیںصرف تسکینِ شکم کے اڈّوں (Restaurants) کا طواف کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔کتاب اورکتب خانہ۔۔۔ پرانی یادبنتے جارہے ہیں۔ایک ایک لفظ سے سطردرسطرورق آبادکرنے کاہنرآساںنہیںہوتا۔فرہادصفت لوگ ان پہاڑوںسے جُوئے علم نکال لاتے ہیںاورکئی گمنام شہیدعلم کے ان پہاڑوںاورندیوںکی خواندگی کرتے کرتے جاںسے گزرجاتے ہیں۔کتابیںگفتگوکرتی ہیں،جہالت اورمحکومی کی خزاںمیںکتابوںکے گلابوںسے بہارآتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میںآج بھی کتب خانے عالی مقام ہوتے ہیں۔واشنگٹن کے مرکزی چوک میںتین اہم ترین عمارات ہیںسپریم کورٹ،پارلیمنٹ ہائوس اورلائبریری۔ یورپین دورانِ سفربس،ریل،جہازمیںکتاب،رسالہ یااخبارہاتھ میںلئے مطالعہ میںمشغول ہوتے ہیں،وہاںکتابوںکی اشاعت لاکھوں میں ہوتی ہےاوریہاںکہاجاتاہے کہ انٹرنیٹ کی موجودگی میںکتاب کی کیاضرورت ؟حالانکہ انٹرنیٹ بنانے والے آج بھی کتاب سے منسلک ہیںاوردنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔
ہم پریہ آشوب ،یہ مرگِ شعور،یہ سانحہ عظیم،یہ ذلّت ومسکنت،حادثاتی نہیںبلکہ’’اکتسابی ‘‘ہے۔اپنے ہاتھوں’’خریدا‘‘ہواطوقِ گلوہے۔کتابوںکاعالمی دن مہذب قومیںCelebrateکررہی ہیںاورہماری نئی پودانٹرنیٹ اورموبائل کی غلامی میںقیدہے ۔کتابوںکے عالمی دن کاآغاز۱۶۱۶ء میںاسپین سے ہوا۔اسپین کے شمال مشرق ’کیٹولینا‘میںہرسال ۲۳مارچ سے ۲۵مارچ تک لوگ اپنے احباب کوگلاب کے پھول پیش کرتے اورمشہورناول،شیکسپئیرؔکے ڈرامے ایک دوسرے کوسناتے تھے۔رفتہ رفتہ یہ روایت دوسرے علاقوںمیںبھی مشہورہوگئی اوراس نے کتابوںکے عالمی دن کی شکل اختیارکرلی۔۱۹۹۵ء میںاقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکی جنرل کونسل کااجلاس فرانس میںہوا،جس میںاس ادارے نے۲۳اپریل کو’ورلڈبک ڈے اینڈکاپی رائٹس ڈے‘قراردیا،جس کے بعددنیاکے کئی ممالک نے اسے منانے کاآغازکیا۔برصغیرکی علمی روایت ہمیشہ علم کے دِیوں سے روشن رہی ہے۔اچھے برے موسم آئے،خزاں اوربہارنے بھی ڈیرے ڈالے،طوفان اور بادوباراں نے بھی اپنی سی پوری کوشش کی لیکن یہ دِیے اپنی حفاظت خودکرتے رہے۔علمی سفرایک مسلسل جدوجہدکانام ہے،ہرانسان کابنیادی حق ہے کہ اسے تعلیم کے زیورسے بہرہ مند کیاجائے اورتعلیم وہ جوفرقہ بندیوں اورمسالک کے تعصب سے آزاد ہو۔اسلامی تمدن میں علم اورتحصیل علم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اب تک تاریخ کے اوراق گیلان کی اس بستی کویادکرتے ہیں جس نے چھ سات سال کے ایک معصوم کوچنداشرفیاںدے کرایک قافلے کے ہمراہ کردیاکہ وہ بچہ علم حاصل کرے ۔یہی بچہ بڑاہوکرسیدعبدالقادرجیلانی ؒکے نام سے آسمان ِبغدادپرآفتاب ِہدایت بن کرچمکا۔دوسری طرف مکہ کی ایثارپیشہ ماںہے جس نے اپنے مسائل ومشکلات کے باوجوداپنے بیٹے کودین کاروشن دماغ ،عالی ظرفی،سیرچشم ،ذہین وفطین طالب علم بنانے کیلئے ساری عمرعزیمت واستقامت کی بے مثال داستاں رقم کی ۔مائیںبچوںکوآج بھی لمبے اسفارپربھیجتی ہیں،اس لئے کہ وہ دولت کے انبارجمع کریںلیکن امام شافعیؒ کی ماں کوصرف ایک ہی فکررہی کہ اس کانورِنظراللہ کی کتاب اورسنت رسول ؐ کاعلم حاصل کرے اوردنیاکے انسانوںکواس مزرع آخرت میںایسی فصل بونے کے قابل بنادے ،جس کاپھل انہیںجنت کی شکل میںعطاہوجائے۔علم انسان کاامتیازہی نہیں بلکہ اس کی بنیادی ضرورت ہے،جس کی تکمیل کاواحدذریعہ مطالعہ ہے۔مطالعہ استعداد کی کنجی اورصلاحیتوںکوپیداکرنے کابہترین آلہ ہے۔زاویہ نظروفکرکووسیع کرنے کابہترین وسیلہ۔
اسلام نے تلقین کی کہ تحصیل علم ایک مقدس فریضہ ہے۔اسی تعلیم کااثرتھاکہ اسلامی دنیامیںعلمی تحقیق وتجسس کاذوق وشوق سرعت کے ساتھ پھیلتاگیا۔کتاب وحکمت کی یہی تعلیم ہے جس کی بدولت انسانوںنے طبعی(Physical) کائنات کی قوتوںکومسخرکیااورانھیںاپنے تصرف میںلایا۔کتاب ایک مسلمہ حقیقت ہے،اسے ہردور،ہرزمانہ میںفضیلت حاصل رہی ہے۔بقول حکیم محمدسعیدشہید:’’انسانی تہذیب کے دورمیںکتاب کوبلندمقام حاصل رہاہے۔بلاخوب تردیدیہ کہاجاسکتاہے کہ تہذیب انسانی کاکوئی دور ایسا نہیں گذرا جو کتاب سے تہی دامن رہا ہو اور فکر آفتاب سے آزاد ہوجائے۔دراصل کتابیں بلند خیالات اور سنہری جزبات کی دستاویزی یا دگاریں ہوتی ہیں۔کتابیں بحرِ حیات کی سیپیاں ہیں جن میں پر اسرار موتی بند ہیں۔‘‘کتابیںمعلومات کے ثمرداردرختوںکے باغ ہیں،گزرے ہوئے بزرگوںکے دھڑکتے دل ہیں،حسن وجمال کے آئینے ہیںاوروقت کی گزری ہوئی بہاروںکے عکس ہیں۔کتابیںلافانی بلبلیںہیں،جوزندگی کے پھولوںپرسرمدی نغمے گاتی ہیں۔محی الدین ابن عربیؒ کے خیال میں’’کتاب پھلوںکاایک ایساباغ ہے کہ اسے ساتھ لئے پھرواورجہاںچاہواس سے خوشہ چینی کرلو۔‘‘درحقیقت،کتاب ایک ایسی روشنی ہے جس نے گزرے زمانے کی شمع کوکسی لمحہ مدہم ہونے نہیںدیا۔زمانے کی ترقی اسی مینارئہ نورکی مرہونِ منت ہے۔یہ فاصلوںکی بازگشت ہے اورخاموشیوں کی آوازیںہیں۔
البیرونی نے لکھاہے’ ’خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیاروںکاکام دیتی ہیں۔‘‘کتاب ، لق و دق صحرا میںمونس ہے۔ایک ایسا دوست جو کبھی اشتعال نہیں دلاتی، ایسا ہم دم جو کبھی تکبر میں نہیں ڈالتی، ایسا رفیق جو افسردہ نہیں کرتی ، ایسا پڑوسی جو ہم سے آگے نکلنا نہیں چاہتی۔ ایسا ساتھی جو خوشآمد و تملق سے تمہارا مال لینا نہیں چاہے گی۔ فریب کا معاملہ کرتی ہے نہ جھوٹ اور نفاق سے دھوکہ دیتی ۔کتاب ہی وہ دل نواز ہے جس کو دیکھو تو مسرت بڑھ جاتی ہے، ذہن تازہ رہتا ہے۔ پاکیزہ نفس عمدہ ہوتا ہے، سینہ آباد ہوتا ہے۔ کتابوں سے تعلق ، لوگوں کی نظر میں آپ کی تعظیم میں اضافہ کرتی ہے۔ کتاب ہماری اطاعت رات میں بھی ایسے ہی کرتی ہے جیسے دن میں ، سفر و حضر میں یکساں ہمارا کہامانتی ہے ۔ وہ نیند کا بہانہ کرتی ہے نہ رات میں جگنے کا۔ وہ ایسا معلم ہے جس کی آپ کو ضرورت پڑے تو کبھی پیچھے نہ ہٹے گا۔ بُرے ہم نشین سے بچاتی ہے۔بے کار خواہشوں ، لہو و لعب اور آرام پسندی سے محفوظ رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر مختلف نظریاتی لہروں اور فکری سمتوں کی باہمی آویزش اور ٹکرکا دور ہے۔ تصادم اور کشمکش کی اس فضا میں کمزور نظریاتی بنیادوں پر کھڑی اقوام زبردست خطرے میں ہے۔ طاقتور اقوام کی طرف سے تمدنی ،علمی،تہذیبی اورسیاسی یلغارنے بھرپورحملے کارنگ اختیارکرلیاہے۔ان پُرآشوب حالات میں کوئی ایسی قوم ابھر ہی نہیں سکتی جو دوسروں کے ذہنی افکار کی گدائی کرتی پھرے اورجس کے پاس ایک مضبوط فکری اورعلمی انقلاب بپاکرنے کیلئے کوئی نظریاتی سرمایہ نہ ہو۔
کتاب میں گُم ہونا درحقیقت ذہن سے برسوں کی گرد جھاڑ دیتا ہے۔ علم و حکمت کے سمندر میں سفر کرنے کے لئے مطالعے کی نائو لازمی ہے۔ اعلیٰ نظریات و تصورات، خیالات اور تخیلات ،مطالعہ کا زینہ عبور کرتے ہی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔تو اس چمن رنگ و بو کے گل گشت بنیے ، اس جام شراب کے رسیا اور حافظؔ کی طرح ــــ ـــ’فراغتے و کتابے و گوشہ چمنے‘ کا نعرہ مستانہ کا عملی مظہر بنیں۔
دنیا کی عظیم سوانح حیات دیکھیں تو ان کی کامیابی کے پیچھے کتب بینی ہی کارفرما ہیں۔ کوفے کے مشہور مصنف جاحظؔ کتب فروشوں کی دکانیں کرائے پر لے کر ساری رات کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ ممتاز فلسفی ابن رشدؔ اپنی زندگی میں صرف دو راتوں کومطالعہ نہیں کر سکے کیونکہ ان دو راتوں میں ان کے قریبی عزیز وفات پا گئے تھے۔ خلیفہ عباس المتوکل کے وزیر فتح بن خاقانؔ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے۔ جب بھی سرکاری کاموں سے ذرا فرصت ملتی، کتاب نکال کر پڑھنے لگتے۔ امام رازیؒ کو اس با ت کا افسوس تھا کہ کھانے کا وقت مطالعہ کے بغیر گزر جاتا ہے۔
عزیزانِ من !ڈھلتی ہوئی شام، کھلتی فضا، چائے کا کپ اور ایک اچھی کتاب کا ساتھ، اس سے بڑھ کر خود کو کیا تحفہ دے سکتے ہیں؟ وقت کا اس سے بہتر مصرف کیا ہو سکتا ہے۔ فارسی کا ایک معروف مقولہ ہے کہ ’’ ہم نشینی بہ از کتاب مخواہ کہ مصاحب بودگاہ و بے گاہ‘‘ ( کتاب سے بہتر کوئی ہم نشین تلاش کرنا فضول ہے، یہ ہر موقع پر ہی ساتھی اور رفیق ہے) اسکندر نے اپنے کتب خانے کو’ روحان معالج‘ کا نام دے رکھا تھا۔
تمام انقلابات کے پیچھے قلم و قرطاس ہی رہے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی انقلاب ہوں یا سماجی۔معاشی میدان میں کمیونیسٹوں کے لئے کارل مارکسؔ کی ”Das-Capital” ہو یا کیپٹلیزم کے لئے ایڈم اسمتھؔ کی “The Wealth of Nation” ۔ سیاسی میدان میں ہندوئوں کے چانکیہ کی ’’ارتھ شاستر‘‘ ہو یا چینیوں کے لئے مائوزے تُنگؔ کی ’’ سرخ کتاب‘‘ یا اہل مغرب کے لئے میکائولیؔ کی “The Prince” ۔ الٰہیات میں مسلمانوں کے لئے مولانا رومؔ کی مثنوی ، ادب میں عربی کی ــ ’’الف لیلیٰ‘‘ ہو یا فردوسیؔ کا ’’شاہنامہ‘‘۔ مذہب کے دفاع میں سعید نورسیؔ کے ’’رسائل نور ‘‘ ہوں یا رادھا کرشننؔ کی کتب ۔ غرض ہر سمت کتاب ، اذہان پر حکومت کرتی نظر آتی ہے۔
عظیم یونانی فلسفی سقراط ؔلکھتے ہیں کہ ’اپناوقت دوسروں کی تحریروںکے مطالعے سے اپنی سمجھ بڑھانے میں صرف کرو،اس طرح تم ان چیزوں کونہایت آسانی سے حاصل کرسکوگے جن کوحاصل کرنے میں دوسروںکومحنت ومشقت کرنی پڑی ۔ملّت اسلامیہ کے پاس اللہ کی عظیم نعمت قرآن کریم کی شکل میں موجودہے۔قرآن کریم کاپیغام آفاقی،ابدی اورلازوال ہے۔یہ پیغام آوازِدوست ہے۔زمانہ کی گرداسے آلودہ نہ کرسکی۔جدیددورکے تقاضوں کے آگے اس نے سپرنہیںڈالے۔اس کے اصول مضبوط ومستحکم ہیں۔اس کی ہدایت ماندنہیںپڑی،تسلسلِ زمانہ اس کی روشنی کومدہم نہ کرسکی۔اس کامخاطب تب بھی انسان تھااورآج بھی ہرآیت قاری کی انگلی پکڑکراسے راہِ راست کی طرف رہنمائی کررہی ہے۔بندوںکوبندوں کی غلامی سے آزادکرکے اللہ کی غلامی میں لانے والی کتاب،ہرمطلق العنان سے توڑکرقادرمطلق رب سے جوڑنے والی صحیفئہ ہدایت!اسلا م نے غوروفکرپربڑازوردیاہے ۔اسلام کی بنیاد اگرچہ وحی اورخبر پرہے ،مگراسی منبع سے نظروبصر،عقل وفکر،تفکیروتدبیراورتفقہ،زمین میں چل پھرکرآثارکامطالعہ ، آسمانوںکی طرف توجہ ،سمندروںکی موجودات کے مشاہدے ، غرض سمع وبصر اورفواد کے ہمہ جہتی استعمال کی تاکیدبھی ملتی ہے۔ پھر قرآن کریم اوردیگرکتب کے مطالعہ سے ہم لاتعلق کیوں؟