قدرت اللہ شہاب ایک نامور ادیب اورا علی سرکاری عہدیدار تھے۔ وہ پاکستان کے سابق صدر جنرل ایوب خان کے سیکریٹری بھی رہ چکے تھے۔ اپنی آپ بیتی ’’شہاب نامہ ‘‘میں صدر ایوب خان کے ساتھ کچھ ایشائی ملکوں کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’جاپان جانے سے پہلے ہم برما میں بھی چند روز کے لئے ٹھہرے تھے۔ واپسی پر پھر ایک روز وہاں پر رُکے۔ اس وقت برما کے وزیر اعظم مسٹر اونو تھے۔ وہ بدھ بھکشووں کی طرح ایک درویش سیرت انسان تھے۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ہر سال کم از کم ایک ماہ کسی غار یا معبد میں معتکف ہوکر عبادت اور مراقبے میں بسر کرتے تھے۔ انہوں نے صدر ایوب خان سے پوچھا کہ ان کا جاپان کا دورہ کیسا رہا؟ صدر ایوب نے جاپانی قوم کی اَنتھک محنت، لگن اور ترقی کی خوب تعریف کرتے ہوئے کہا، 'جاپانی لوگ واقعی مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔
یہ سن کر اونو کھل کھلاکر ہنسے اور بولے:'بے چارے بدنصیب جاپانی۔انسان کی عظمت انسان بننے میں ہے، مشین بننے میں نہیں۔
وزیر اعظم اونو نے قوموں کی مادی ترقی کے متعلق اپنا فلسفہ کسی قدر تفصیل سے بیان کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ یہ زمانہ مادی ترقی کا زمانہ ہے۔ رفتہ رفتہ ترقی ساری دنیا کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لے گی جس طرح کہ برف، مٹی اور یخ کا تودہ پہاڑ کی چوٹی سے پھسل سکتا ہے۔ اگر کوئی ملک مادی ترقی سے بچنے کی کوشش کرے بھی تو وہ اس میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ہم سب مادی ترقی کی زد میں بے دست وپا مقید ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ترقی یافتہ ہوکر بھی انسان ہی رہیں۔ ایسی مشین نہ بن جائیں جس میں حرکت تو تیز ہو لیکن روح ندارد!!‘‘
مرحوم قدرت اللہ شہاب کا حوالہ دینے سے میرے کہنے کا منشا یہ ہے کہ اونو کو کروڑوں لوگوں کی آبادی والے ایک ملک کے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے اور ملک کا نظم ونسق چلانے کے لئے اس کی عبادت، گوشہ نشینی اور کچھ عرصہ کے لئے نفس کا مجاہدہ آڑے نہیں آتے تھے بلکہ اس کی دماغی صلاحیتوں اور قلبی قوتوں کو جلا بخشتے تھے۔ اسی طرح تزکیہ ٔ نفس کے لئے اگر کوئی طالب حق مجاہدات کی غرض سے کسی کامل رہبر کی ہدایت پر کچھ وقت گوشہ نشینی میں گزارتا ہے تو ایسا عمل اسے کسی اور کام کے لئے ناکارہ نہیں بناتا ہے بلکہ زیادہ لائق اور قابل اعتماد بناتا ہے۔بابا فریدالدین رحمتہ اللہ علیہ بھی خانقاہی شیخ تھے، اُن کی چوکھٹ کا تو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بوسہ لیا۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی تک تو پاکستان صحیح ڈگر پر چل رہا تھا اور اگر یہ ملک اسی راستے پر گامزن رہا ہوتا تو آج پاکستان بہت زیادہ خوشحال ہوتا اور ہم قرض دار ہونے کے بجائے دوسرے ممالک کو قرض دینے کے اہل ہوتے، مگر پاکستانی بدحالی کی اصل ذمہ داری اس سوچ پر عائد ہوتی ہے جو بیسویں صدی کے ساتویں صدی سے پاکستان میں پنپنی شروع ہوئی کہ سرمایہ کاری گناہ ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری مختصر ہوتی گئی، یہاں تک کہ پاکستان کی معیشیت کمزور ہوتی گئی اور پاکستان کے سرمایہ دار بھی اپنے ملک کے بجائے دوبئی، ملائیشیا اور دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔ آج حال یہ ہے کہ 21 ؍کروڑ کی آبادی والے ملک کی برآمد صرف 84 ارب ڈالر ہے جب کہ 6 کروڑ والے ملائیشیا کی برآمد تقریبا اڑھائی سو ارب ڈالر ہیں۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جب گھٹیا لوگ 'علماءکی جگہ لیتے ہیں، جعل ساز صوفیوں کا روپ دھارن کر تے ہیں ، جاہل عاقلوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں تو کسی اصلاح کی امید رکھنا عبث ہےبلکہ ایسے نام نہاد لوگوں سے فتنہ و فسادات ہی پھیل جاتے ہیں اور پھیلتے رہیں گے۔ در اصل یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو بلندیوں سے پستیوں کی جانب لڑھکا دیا۔ احمق اور کم فہم لوگ ان کے آلہ ٔ کار بنے اسلام کو شدید نقصان پہنچاتے رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان بے وقار ہوکر رہے اوراقوامِ ِعالم کی نگاہوں میں بے آبرو ہوگئے ، لوگوں کے قلب وذہن میں مسلمانوں کی جو باوقار اور پُر عظمت راسخ تھی اس کو ہم خود ہی اپنی جہالت وبد بختیوں سے خراشیں لگاکر بدصورت بناتے گئے۔کون کہتا ہے کہ سرمایہ کاری غلط ہے؟ کیا میوہ باغات کو بنانا اور ان میں شجرکاری سرمایہ کاری نہیں ہے؟ کیا ایسا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں ہوتا تھا؟ کیا لوہے کے اوزار، تلواریں، تیرکمان، نیزے، بھالے بنانا کارخانہ داری اور سرمایہ کاری نہیں ہے؟ کیا خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں اس پر پابندی تھی؟ کیا اس دور میں کپڑے کے کارخانے نہ تھے اور اگر تھے تو کیا ان میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی تھی؟ عشرہ مبشرہ، یعنی وہ دس اصحاب رسولؐ جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی، سب تاجر تھے، کاروباری حضرات تھے۔ روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، جب انتقال کرگئے تو وراثت میں ساڑھے اکاون کھرب ڈالر چھوڑ گئے اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیجب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے تو ان کی کوئی جائداد نہ تھی کیونکہ وہ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ اس لئے انفرادی طور پر انسان جس طرح کی بھی زندگی اختیار کرلے ، اسلام منع نہیں کرتا مگر جب بات ریاست کی ہو تو یہ مال کے لحاظ سے مضبوط ہونی چاہئے اور اس میں کارخانے لگانے میں سرمایہ کاری ہو تو اسلام کہاں آڑے آتا ہے؟
اگر امارت کے پاس سرمایہ کثیر مقدار میں ہو تو یہ ایک مملکت کی خوشحالی کی ضمانت ہوتی ہے مگر عام اعتبار سے کسی آدمی کے پاس بہت زیادہ دولت کا ہونا عام طور ہلاکت ہی سمجھی جاتی ہے کیونکہ تجربہ گواہ ہے کہ دولت کی کثرت سے انسان خود بھی برباد ہوگئے اور معاشرے کی بربادی کا بھی سبب بن گئے۔
میرے ہاتھ اتفاق سے ایک کتابچہ لگا جو احمد علی اختر صاحب نے لکھا ہے اور دہلی سے 1983 میں چھپا ہے۔ اس میں موجودہ حالات اور اسلامی نظام کے خلاف بعض نادانوں کے پروپگنڈے کے جواب کے حوالے سے بڑی مفید باتیں بیان ہوئی ہیں۔ مصنف کہتا ہے کہ آج انسان کا سب سے بڑا اور حقیقی مسلٔہ اس کا ذہنی بگاڑ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اصل میں یہی بگاڑ تمام مفاسد اور برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ جب تک یہ بگاڑ ختم نہیں ہوگا انسانیت پریشان رہے گی۔ مسائل کے بطن سے مسائل ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ہر مسلہ کا حل نئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ مصنف کا کہنا صحیح بھی ہے، آج ایک مرض کی دوا دوسرے امراض پیدا کررہی ہے اور انسانیت تباہی کی طرف بڑھ رہی ہےبلکہ میں تو کہوں گا کہ بڑھ چکی ہے۔ واقعی اسلام کے اندر تمام نظریات کے مقابلے میں زیادہ حکمت اور کمال ہے مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اسلامی حکومت کا کوئی ماڈل آج کہیں بھی موجود یا ہمارے سامنے نہیں ہے۔ مسلم ریاستیں تو تقریبا 56 کے قریب ہیں مگر اسلامی مملکت ایک بھی نہیں کیونکہ آج اسلام عملاًا اقتدار سے محروم ہے اور اسلام کہیں بھی اپنے مکمل نظام کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آج اسلامی نظام ناقابل عمل ہے تو پھر وہ اپنی بات کو ٹھوس دلائل سے کیوںثابت نہیں کرپاتا کہ اس نعمت بھرے نظام کو اختیار کرنے میں یہ اور یہ اڑچنیں ہیں؟ کچھ نادان برتھ کنٹرول کے لئے اسلام میں گنجائش نہ ہونے کا رونا روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آبادی کو نس بندی سے کنٹرول نہیں کیا گیا تو ایک بحران پیدا ہوگا کیونکہ سب کے لئے نہ کھانا ہوگا، نہ کپڑا ہوگا اور نہ رہائش ہوگی۔ اس سلسلے میں کچھ مفید باتیں مذکورہ کتابچے میں درج ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 63۔1962 میں دنیا کی آبادی چار ارب کے قریب تھی۔ ماہرین کے مطابق اس آبادی کے لئے سالانہ سرسٹھ کروڑ ساڑھے باون لاکھ میٹرک ٹن غذا کی ضرورت تھی،جب کہ اس وقت کے جائزے سے پتہ چلا تھا کہ صرف آٹھ اجناس کی عالمی پیداوار ایک اَرب ساڑھے بائیس کروڑ ٹن ہے۔ اس کے علاوہ تلہن، میوہ جات، پھل، سبزی، گوشت، انڈا، مچھلی، دودھ وغیرہ ان سب کو ملاکر دیکھا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا میں دو ارب چالیس کروڑ ٹن کے قریب اجناس پیدا ہوتی ہیں۔ کپڑے کے اعتبار سے صرف ہندوستان میں آج سے پچاس سال پہلے کپڑے کی پیداوار دس ارب میٹر کے قریب تھی۔ اس حساب سے کپڑے کی عالمی پیداوار دس کھرب میٹر کے قریب رہی ہوگی۔ ایک تحقیق کار نے کہا تھا کہ کپڑے کی اس پیداوار کو آبادی کی ضرورت کے تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا کی تمام آبادی کے کپڑوں کی ضرورت پوری کرنے کے بعد بھی اتنا کپڑا بچ جاتا ہے کہ پورے خط استوا کو ایک سے زائد بار لپیٹا جاسکے۔ اب رہی رہائش کی بات۔ جدید فن تعمیر نے انسان کو آج اس مقام پر پہنچایا ہے کہ ایک سو مربع فٹ زمین پر بآسانی دو ہزار انسانوں کی رہائش کا انتظام ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آج کا سارا معاشی نظام سود پر چل رہا ہے۔ سود اسلام میں حرام ہے تو کیسے کوئی ملک سودی نظام کے بغیر چل سکتا ہے؟
یہ جوآج ہر طرف خود غرضی اور بے حسی کا بازار گرم نظر آرہا ہے اور ہر شخص مادی فوائد کے لئے یہ جو تمام اخلاقی حدیں پار کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے یہاں تک کہ پیسوں کی تمنا میں وہ اپنا ضمیر تک دوسرے لوگوں کے پاس گروی رکھنے پر تیار رہتا ہے تو انسان کے اندر ایسی بے ضمیری، خود غرضی اور درندہ صفات کے پنپنے کے پیچھے اصل حقائق اور وجوہات کو تعصب سے ہٹ کر اور ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیا جائے تو اس صورت حال کی تمام تر ذمہ داری معاشرے میں سودی کاروبار عام ہونے سے متعلق ہوجاتی ہے۔ چونکہ سود ایک ایسی بدعت ہے کہ جب کوئی معاشرہ اس کا عادی بن جاتا ہے تو لازما اس معاشرے میں خود غرضی بھی پیدا ہوجاتی ہے اور ہمدردی، محبت اور تعاون کا جذبہ آہستہ آہستہ دم توڑ دیتا ہے۔ ایک صاحب فکر کا کہنا ہے :’’ چونکہ سودی نظام کی بنیاد ہی اس پر ہے کہ آدمی صرف اپنی مصلحت دیکھے، صرف اپنے فائدے اور آمدنی کو مدنظر رکھے، اسے دوسروں کی لاچاریوں اور مجبوریوں سے کوئی غرض نہ ہو، دوسرے کے نفع نقصان کی اسے پروا نہ ہو، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سود خور، خواہ وہ ساہوکار ہو یا سودی ادارے (جیسے بنک وغیرہ) کا مالک، وہ غریبوں، محتاجوں اور مجبوروں کا منتظر رہتا ہےبلکہ وہ پریشان حال اور ضرورت مندوں کا انتظار کرتا ہےلیکن اس واسطے انتظار نہیں کرتا کہ یہ مجبور، غریب، محتاج اس کے پاس آئیں تو وہ ان کی مدد کرے بلکہ وہ اُن کا اس واسطے انتظار کرتا ہے تاکہ سودی قرض دے کر ان کو اپنے دام ہمرنگِ زمیں میں پھنسالے اور جب اس کے جال میں پھنس جائیں تو پھر ان کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لے، ان کی زندگی بھر کی کمائی کا ایک ایک پیسہ ان سے چھین لے، چنانچہ قرض دار سے قرض مع سود وصول کرتے وقت اس کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ یہ شخص غریب ومحتاج ہے، بھوکا اور ننگا ہے، اس کے بال بچے بھوکے اور سردی سے پریشان ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس غریب نے جو قرض ہم سے لے کر جو کاروبار اس نے شروع کیا تھا، اس میں اس کو نفع ہوا یا نقصان؟ وہ یہ سب کچھ نہیں دیکھتا۔ اس کو صرف اپنے نفع سے مطلب ہوتا ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ ہم نے جو قرض اس کو دیا تھا وہ ہم کو سود کے ساتھ مل جائے۔‘‘ بلاشبہ خود غرضی کی اس سوچ پر جو معاشرہ بنتا ہے وہی بگاڑ پیدا کرتا ہے اور اسی سے سارے مسائل، مفاسد اور برائیاں جنم لینے لگتے ہیں۔ ایسا ہی معاشرہ ذہنی بگاڑ کی اصل صورت ہے۔ ایسے ہی معاشرے سے وہ زہریلا چشمہ وجود میں آتا ہے جس سے برائیاں پھوٹتی ہیں۔ اخلاقی پستی، کردار کی بدحالی اور انسانی درندگی ذہنی بگاڑ کے ہی نتائج ہیں۔ خود غرضی اور ذہنی بگاڑ کے اس معاشرے میں انسان اپنی عقل کو رہنما بناکر جینا اختیار کر لیتا ہے اور دین کو بھلا بیٹھتا ہے۔ چنانچہ اس کی روح اور اس کا ضمیر مرجاتا ہے۔ وہ انسانیت کے زینے سے گرکر درندگی اور حیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے۔ دین سے دوری کے نتیجے میں وہ صرف عقل کے تابع ہوکر رہ جاتا ہےاور ضمیر کی موت اسے دنیا کا پجاری بنا دیتی ہے، انسان وحشی بن جاتا ہے، زندگیاں بگڑنے لگتی ہیں، آدم زاد تباہی مچانے لگتا ہے اور پھر المیہ یہ کہ خود ہی ان تباہیوں کا رونا بھی شروع کردیتا ہے۔ وہ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری کرتا ہے، نتیجہ یہ کہ ضروریات زندگی کی کثرت اور فراوانی کے باوجود ایک مصنوعی غذائی بحران پیدا ہوجاتا ہے اور قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگتی ہیں۔ صرف پیسے والا ہی پیٹ کی بھوک مٹانے کے اہل رہتا ہے اور غریب خالی پیٹ سونے پر مجبور ہوتا ہے، غریبی بڑھنے لگتی ہے، بھوک پھیلنے لگتی ہے، عصمتوں کا سودا شروع ہوتا ہے، حسن کے بازار سجنے لگتے ہیں، آبروئیں بکنے لٹنے لگتی ہیں اور کنواری مائیں سماج میں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ کپڑے کی قلت اور زمین کی نایابی کا رونا رویا جاتا ہے، حالانکہ آبادی کے تناسب سے یہ چیزیں کبھی بھی کم نہیں پڑی ہیں بلکہ انسان ہی اس کو ہڑپ کرکے انتشار پھیلانے لگتا ہے اور ان چیزوں کی تقسیم میں 'سرکاری بدنظمی کو انتظام بنایا جاتا ہے۔ سرکاریں دولت پرستوں اور ہوس پرستوں کی سرپرستی میں بنتی ہیں اور جینے کا معیار یہی دولت پرست اور ہوس پرست مقرر کرلیتے ہیں۔ ضروری چیزوں کا بھاری سٹاک اس لئے کیا جاتا ہے کہ ان چیزوں کی مصنوعی قلت پیدا ہوسکے۔ چنانچہ چیزوں کے نرخ ذخیرہ اندوزوں کی مرضی کے تابع ہوجاتے ہیں، رشوت اور چوری کوئی عیب کی بات نہیں رہتی۔ رشوت کلچر بنتا ہے اور چوری دلاوری۔ یہ حالات جب شدت اختیار کرتے ہیں توروزمرہ زندگی عام آدمی کے لئے مصیبت بن جاتی ہے ، پھر لوگ تنگ ہونے لگتے ہیں تو حکومت کسی امکانی انقلاب اور ردعمل کو روکنے اور ارباب ِاقتدار اپنے اقتدار کے تحفظ اور سرمایہ دار اپنے مفادات کو کسی خطرے سے بچانے کے لئے علاقائی، لسانی، نسلی اور مذہبی مسائل ابھارنا شروع کردیتے ہیں اور اس کے لئے پانی کی طرح روپیہ بہا کر سماج میں بااثر افراد، اپوزیشن نیتاؤں اور بڑے بڑے غنڈوں کو خریدا جاتا ہے۔ اگر رشوت نہ ہوتی، اگر چوریاں نہ ہوتیں تو کیا ملک میں ریلوے اور دیگر سرکاری ٹرانسپورٹ کو کروڑوں کروڑوں روپیہ کی مالیت کا خسارہ ہوسکتا ؟ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ نیتا عام آدمی کو ایسے فضول اور جذباتی مسائل میں اُلجھا ئے رکھتے ہیں کہ وہ اصل مسائل جن سے اس کی زندگی اور جینے کا عمل جڑا ہوتا ہے، ان کے حل کی طرف دھیان ہی نہ رہے۔ خزانہ، دفاع، ریلوے، زراعت کے پورٹ فولیوز لینے پر ممبران ایک دوسرے سے گتھم گتھا بھی ہوجاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان محکموں کی وساطت سے اربوں کی رشوت مل جاتی ہے اور تمام عیاشیوں کے سامان حاصل ہوتے ہیں۔
حاصل بحث یہ کہ پاکستان کی حکومت، جوڈیشری اور ملک کے مستند دینی علما کو علم کے تئیں اپنے تصورات واضح کرنے ہوں گے بلکہ بعضوں کو علم، معاش اور نس بندی پروگرام کی بے ربط رٹیں لگانے کے بجائے تعلیمی نظام کو موجودہ آلودگیوں سے پاک کرکے اسے موثر اور بہتر بنانے پر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے۔ اسلام سائنس، علوم ِنافع، فنونِ مفیدہ کے خلاف نہیں، نہ کبھی تھا اور نہ کبھی ہوسکتا ہے بلکہ اسلام کا تقاضا صرف یہ ہے کہ سائنسی تصورات اور ایجادات کو ضمیر سے بے نیاز نہ کرو، ان کو بھلائی چاہنےو الا ضمیر بھی فراہم کردو۔انسان مادے کو تخلیق نہیں کرسکتا، وہ اس کی صورتوں کو بدلتا رہا ہے۔ اس لئے اس کے عمل اورتحرک کی قوتوں کو خیر پر لگاناے کے لئےضروری ہے کہ اس میں زندہ ضمیر کی مداخلت ہو ،ورنہ یہ قوتیں تخریب کی آلہ کار بنتی رہیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب مرد مومن قدوسی وغفاری کے ساتھ ساتھ قہاری و جبروت کا مقام بھی پاتا ہے تو بھٹک نہیں جاتا۔ "خدا ہی ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے۔ (القرآن) اللہ کے بنائے ہوئے ارض وسما کے خزانوں سے مستفید ہونے کے لئےتعلیمی نظام کو بہتر بنانا ضروری ہے ، اس کے لئے نظام تعلیم کواسلامی خطوط پر استوار کر نا شرط اول ہے۔ اسی سے معاشی نظام بھی بہتر ہوگا۔ میرے نزدیک وہ علم بے کار ہے جس میں بے غرض عوامی خدمت کی تعلیم نہ ہو، میرے لئے وہ مذہب حق نہیں جس میں بے لوث عوامی خدمت کی تلقین نہیں۔
ختم شد