ارضکشمیر کبار اولیائے کرام، بزرگان دین، مشائخ عظام اور علمائے ذی احترام کی سرزمین رہی ہے ۔۔اس حقیقت سے دنیا بخوبی واقف ہے کہ جب ساتویں صدی ہجری میں مشیت الٰہی کے تحت وقت کے ولی کامل ، داعی کبیر حضرت عبدالرحمن بلبل شاہؒ کے ہاتھوں کشمیر میں اسلام کی داغ بیل پڑی اور دین حق یعنی دین اسلام کی تخم ریزی ہوئی تو اس کے بعد پھر غیرت توحید سے سرشار اور دعوت و عزیمت کے پیکر اعظم حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ نے اپنے وطن ایران کبیر سے ایران صغیر کا سفر فرمایا۔
مورخین کے مطابق حضرت امیر کبیر ؒ نے کشمیر جنت نظیر کے تین دورے کئے اور نتیجے کے طور پر پوری وادی اسلام اور ایمان کے نور سے منور اور بہرہ ور ہو گئی ۔ حضرت امیر کبیرؒ کے نورانی قافلے کے ہمراہ ۷۰۰ سادات بھی وارد کشمیر ہوئے جس میں خوش بختی سے میرواعظین کشمیر کے اکابر بھی شامل تھے ۔ کشمیر میں وسیع پیمانے پر اشاعت اسلام اور دعوت اسلام کا سہرا بلا شبہ حضرت امیر کبیر ؒ کے سر ہے جنہوں نے ایک اسلامی انقلاب پیدا کرکے اہل کشمیر کی تاریخ اور تقدیر بدل کے رکھ دی جب کہ حضرت امیر کبیرؒ کے بعد اس مشن کی آبیاری آپ کے خلف الرشید اور دینی و روحانی جانشین حضرت میر محمد ہمدانیؒ دیگر سرکردہ اولیائے اور مشائخ کے ساتھ ساتھ کشمیر میں اشاعت اسلام اور حفاظت اسلام کا بیڑا میرواعظ خاندان کے بزرگوں نے پورے اخلاص ، دیانت اور لگن کے ساتھ انجام دیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ تاحال مرور زمانہ اور گردش ایام کے باوجود یہ زریں سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ اپنے اپنے دور اور عصر کے میرواعظ نے بلا خوف لومہ ولائم غیر معمولی حالات میں جہاں دین مبین کی ترجمانی کا فریضہ انجام دینے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی مداہنت اور کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا، وہاں وقت کے حکمرانوں کے مظالم اور چیرہ دستیوں کیخلاف آواز بلند کرنے اور عوامی ترجمانی سے بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
زیر تحریر مضمون میں خاندان میرواعظ کے جس معتبر ، مستند اور مقبول عام شخصیت کا ذکر خیر مقصود ہے ،وہ ذات گرامی میرواعظ مولانا احمد اللہ شاہ صاحب کی عظیم المرتبت شخصیت ہے جو حقیقتاً علم و عمل کے مہر تاباں تھے۔
میرواعظ کشمیر مولانا احمد اللہ شاہ ؒکشمیر کے ایک معرکتہ الآرا میرواعظ تھے ۔ آپ علم و عمل ، زہد و تقویٰ ، شریعت و طریقت، ولایت و حقیقت کے مجسم تھے جنہوں نے پورے ۲۲ ؍سال تک جموںوکشمیر کے طول و عرض میں اسلامی ، دینی، علمی، اور دعوتی تحریک کو بے پناہ استحکام عطا کیا اور عوام و خواص کے دلوں کو ایمان و یقین کے علاوہ عشق نبوی ﷺ سے معمور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
مرحوم میرواعظ اپنی عالمانہ اور واعظانہ شخصیت کی بدولت انتہائی ہردلعزیزاور کشمیری سماج میں زبردست اثر و نفوذ کے مالک تھے۔ چنانچہ آپ کے مواعظ حسنہ انتہائی جامع ، مربوط ، سوز و گداز سے بھر پور علم و عرفان سے پُر توحید الٰہی اور عشق نبوی ﷺ سے لبریز ہوتے تھے ۔ مرحوم میرواعظ سچے عاشق رسول ﷺ، متبع سنت اور اہل اللہ کے جیسے مذاق و مزاج کے حامل مرد مومن تھے اور یہ شرف کشمیر میں آپ ہی کو حاصل ہے کہ جب ۱۹۰۱ ء میں انگریزوں کی ایما پر مرزا غلام احمد قادیانی نے ختم نبوت کے حتمی اور اجتماعی عقیدے پر ڈاکہ ڈالنے کی مذموم کوشش کی اور اپنی قادیانی تحریک شروع کی اور اسے اسلام کے نام سے پھیلانے کی کوشش کی اور اسارتدادی تحریک کو اسلام کا نام دیا توجس طرح برصغیر میں علامہ انور شاہ کشمیری ؒ آپ کے نامور شاگردوں میں امیر شریعت مولانا عطا اللہ شاہ بخاری ؒ ، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ، وغیرہ اور ندوۃ العلماء لکھنو کے بانی حضرت علامہ محمد علی مونگیریؒ وغیرہ نے مرزا قادیانی اور اس کی جھوٹے دعوت نبوت کیخلاف عوامی مہم چلا کر اس کے شیطانی منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور قرآن و حدیث سے ملت اسلامیہ اور عالم اسلام کیلئے دلائل دے کر اسے جھوٹا اور کذاب ثابت کرنے کے تعلق سے کتابوں اور رسائل کے انبار مہیا کردیئے تاکہ مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کو تحفظ فراہم کیا جاسکے اور نتیجے کے طور پر آج پورے عالم اسلام میں قادیانیوں کو دین اسلام سے خارج اور مرتد قرار دے دیا گیا ۔اسی طرح کشمیر کی سرزمین میں میرواعظ مولانا حمد اللہ شاہ صاحبؒ نے فتنہ قادینیت اور مرزائیت کے خلاف زور دار اور کامیاب تحریک چلا کر اور تمام مکتب فکر کے علما اور مشائخ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر ریاست کے لوگوں کو کفر اور ارتداد کی آندھی سے بچانے میں تاریخی کارنامہ انجام دیا اور اہل کشمیر کو اس حوالے سے بیدار کرکے عقیدے ختم نبوت پر قائم و دائم رہنے کی مبارک کوششیں کیں جو بفضل تعالیٰ بارآور رہیں۔مرحوم میرواعظ احمد اللہ شاہ صاحبؒ کو ہی یہ افتخار اور اعزاز حاصل ہے کہ جموںوکشمیر میں شخصی راج کے دوران عوام خاص طور پر مسلمانوں پر جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے تھے اور ان کے حقوق کو جس طرح سے بے دردی کے ساتھ پائوں تلے روندا جارہا تھا تو اس کے خلاف مرحوم میرواعظ نے اپنے قریبی دوستوں اور ہمدردوں جن کے دل میں ملت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا تھا کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک میمورنڈم تیار کیا اور سب سے پہلے اپنی دستخط سے وائسرائے ہند کو پیش کیا جس میں تمام تر تفصیلات انتہائی جامع انداز سے جمع کرکے حالات کی اصلاح اور بہتر رعایہ پروری اور حقوق البشر کی بحالی کیلئے ان کی توجہ دلائی گئی۔
چونکہ کشمیر میں تعلیمی بیداری کی مہم پھیلانے میں انجمن نصرۃ الاسلام کا ایک بنیادی اور کلیدی رول رہا ہے اور اس تاریخ ساز اور شخصیت ساز ادارے کے بانی مرحوم میرواعظ کے برادر اکبر سرسید کشمیر علامہ رسول شاہ مرحوم تھے قدرتاً ان کی وفات حسرت آیات کے بعد اس تعلیمی انجمن کی ذمہ داری اوراس کے نظام کو چلانے کے حوالے سے آپ کو صدارت کا عہدہ قبول کرنا پڑا ۔چنانچہ آپ کے ہی دور صدارت میں اور آپ کی حسن کوشش کے نتیجے میں انجمن میں باقاعدہ اورینٹل کالج کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں آج بھی علوم شرقیہ یعنی قرآن و حدیث ، فقہ اسلامی، اخلاقیات اور دینی علوم کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور پورے کشمیر میں علماء ، ائمہ ، خطباء اور واعظین کی کھیپ تیار کرکے شہر ودیہات میں تبلغی وتعلیمی واصلاحی مشن چلانے کے لئے مہیا کئے جاتے ہیں۔
بہرحال موت ایک ابدی حقیقت ہے اور قرآن مجید کے مطابق جو کلام الٰہی کا لاریب نسخہ ہے جتنی مرتبہ حیات کا تذکرہ آیا ہے اتنی ہی مرتبہ موت کا بھی ذکر آیا ہے ۔ اس فطری قانون کے تحت مرحوم میرواعظ اپنا دینی، دعوتی و تبلیغی مشن کی آبیاری کرتے ہوئے ۶۴ سال کی عمر میں بروز جمعتہ المبارک ۱۴ ماہ ذی القعدہ ۱۳۴۹ھ مطابق ۱۹۲۸ء اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔
آپ کی وفات سے پورے کشمیر میں غم و ماتم کی لہر دوڑ گئی اور عوام کے تمام طبقوں نے آپ کے انتقال اور کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے اور آپ کی گرانقدر خدمات کو عقیدت کا آخری نذرانہ ادا کرنے کیلئے تاریخی عیدگاہ سرینگر میں لاکھوں کی تعداد میں اس وقت کے کشمیر کے سینکڑوں علماء اور مشائخ کے ساتھ ساتھ نماز جنازہ میں شرکت کی اور بعد میں میرواعظ مرحوم کو پر نم آنکھوں سے اپنے آبائی مقبرہ ملکھا میں دفن کیا گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حقیقت یہی ہے کہ موت اس کی ہے کرے زمانہ جس کا افسوس
یوں تو آئے ہیں سبھی یہاں مرنے کیلئے
یہ دنیا عجب ایک سرائے فانی دیکھی
یہاں کی ہر چیز آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
مرسلہ: جموں وکشمیر عوامی مجلس عمل۔ سری نگر