عبداللطیف تانترے
انسان جو خالقِ کائنات کا سب سے عظیم شاہکار ہے اپنے آپ کی حقیقت سے متعلق کُلی طور باخبر ہونے کا کبھی دعویدار نہیں بنا ہے۔ کیونکہ مشیعت ِ خداوندی کے تحت یہ مخفی حقائق بھی عظمت ِانسان کے نہایت ہی دلچسپ اور اہم پہلو مانے جاتے ہیں۔ان مخفی حقائق کے پیچھے چُھپی ہوئی حِکمت سے متعلق جو بھی علم و دانش سے اَخذ شُدہ مواد موجود ہے ،وہ اس اِخفا کو اظہار کی شکل میں آشکار کرنے کو انسانی مقصدِ حیات کے ساتھ منسوب ہونے سے تعبیر کرتا ہے۔اسی لئے قدرت ِالٰہی کا یہ شاہکار اپنی پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد کی حقیقت سے متعلق تجسُس کے باوجود اپنے آپ کو بے خبر اور بے اختیار پاتا ہے۔ انسان کو واردِ دنیا ہونے کی نہ خبر ہوتی ہے نہ اختیار، ماں باپ اور جائے پیدائش کے تعین کی خبر ہوتی ہے نہ اختیار، مدت حیات کی خبر ہوتی ہے نہ اختیار اور وقت مرگ کی خبر ہوتی ہے نہ جائے مرگ کے تعیُن کا اختیار۔ اسی طرح انسان فطرتِ سلیم کے ساتھ واردِ دنیا ہونے کے باوجود بھی اپنے بقیہ ادوارِ زندگی میں بگاڑ کا شکار ہوتا ہے اور وہ اس بگاڑ سے بچنے کا بذاتِ خود اختیار بھی نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان حقائق سے باخبر کر کے اپنا مقصد حیات پانے کے لیے روزِ اول سے ہی نبوت اور رسالت کا ایک سلسلہ شروع کیا اور اس طرح انسان کے لیے زندگی بطریق احسن گزارنے کو علم و حِکمت کے ساتھ وابستگی سے مشروط کیا ۔یعنی علم و حکمت سے ہی انسان کو وہ راہِ ہدایت تلاشنے کی سبیل ملتی ہے، جس کی اس کو فطری طور تلاش رہتی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس ہدایت کی طرف اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کے ذریعے تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے ،وہ ہدایت ’’ انعمت علیہم ‘‘ کہہ کر حکمتِ الٰہی کے تحت انعام یافتہ لوگوں سے وابستگی سے بھی مشروط ہو جاتی ہے اور اسی سبب سے علم و حکمت سے منسلک لوگ ہمیشہ سے عزت و عظمت کے حقدار سمجھے جاتے رہے ہیں اور انہی لوگوں کو علمی اور عملی افکار کے ذریعے انجام دی گئی خدمات کی بناء پر منصبِ پیغمبری کی نیابت کا خطاب عطا ہونے کا شرفِ منفرد بھی حاصل ہے ۔ چونکہ اس منصب کی رفعت و بلندی سے واقف ِ کار اور ایمان و عقیدت سے سَرشار لوگ جب یہ فریضہ انجام دینے کی توفیق پاتے ہیں تو ان کے قلب و ذہن میں رَتی برابر بھی مادی حرص و لالچ نہیں رہتا اور وہ تعلیم و تعلُم کے عمل میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا پانے کے حریص ہوتے ہیں ۔ اسی جذبۂ خیر کے طُفیل یہ معلمین روئے زمین پر تعظیم و توقیر میں سر فہرست گردانے جاتے رہے ہیں ۔ تاریخِ انسانی نے تعلیم و تعلُم کے لاتعداد ادوار دیکھے ہیں، جب متعلمین اپنے معلمین کو والدین سے بڑھ کر عزت و احترام دیتے تھے اور معلمین بھی اپنے تلامذہ کو اپنے جانشین گرداننے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی قریب تک استاد و شاگرد کے مابین جو ایک پُرخُلوص جذبات اور احساسات پر مشتمل رشتہ اُستوار ہوا کرتا تھا، دورِ حاضر میں اس رشتے کی نوعیت کیا ہے؟ اور اگر نوعیت برعکس ہے تو کیوں ہے ؟ آج کے دور میں ایک سرسری جائزہ بھی یہ پتہ لگانے کے لیے کافی ہوگا کہ اکثر و بیشتر اس پاک اور عظیم رشتے کی نوعیت بالکل مختلف ہے اور اس برعکس نویت کے کئی وجوہات بھی گردانیں جا سکتے ہیں ۔ نسلِ انسانی جو کہ ایک اعلی ترین ضابطۂ حیات اپنانے کے لیے منتخبہ مخلوق ہے، اپنی تخلیق سے لے کر آج تک عروج و زوال کے لاتعداد ادوار سے گُزری ہے۔ یعنی جب جب نسلِ انسانی نے دنیا میں موجود اعلی ترین ضابطہ حیات کو اپنایا ،تب تب اُسے عروج و ترقی سے ہمکنار ہوتے ہوئے پایا گیا اور جب جب اس ضابطۂ حیات سے نسل ِ انسانی نے روگردانی کی، تب تب اُسے ذلت و رسوائی کا سامنا رہا ہے۔ دورِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ بھی یہی ہے کہ موجودہ دور کا انسان اجتماعی سطح کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی اصل ضابطۂ حیات سے کافی زیادہ دور ہو چکا ہے اور اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ ترقی کی اُفق پر پہنچا ،آج کا انسان اس دُوری کو محسوس کرنے کا احساس بھی کھو چُکا ہے۔ اسی ترقی سے پیدا شدہ بے حسی کے عالم میں جب تعلیم و تعلم کو دین و مذہب سے الگ کر کے صرف حصولِ دنیا تک محدود کر دیا گیا تو تعلیم کی روح یعنی اخلاق و اقدار کی تربیت کے فقدان کی وجہ سے استاد و شاگردکا رشتہ بھی اثر پذیر ہوا ۔
چونکہ جب اخلاق و اقدار کا فقدان کسی معاشرے میں پایا جاتا ہے تو سبھی افراد معاشرہ میں بگاڑ کا آجانا طے ہوتا ہے اور صاحبِ علم لوگ بھی معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے اس بگاڑ سے فرار نہیں پا سکتےاور اس منصب کی عظمت و بلندی کی وجہ سے یہ معلمین ہمیشہ سب سے پہلے نشانِ تنقید بن جاتے ہیں اور اس طرح سماج تذلیلِ استاد کے گناہ کا اجتماعی اِرتکاب کر کے بگاڑ کی انتہا پر پہنچ جاتاہے۔حالانکہ دورِحاضرمیں مروجہ نظام تعلیم میں پائی جانے والی کمیاں اور کوتاہیاں صرف ایک اُستاد کی کمیاں اور کوتاہیاں گرداننا نہایت پست شعوری کی علامت ہے ۔ اگرچہ ماضی کی روایتی تعلیم میں ایک اُستاد پوری نظامت کا واحد اور بنیادی ذمہ دار یا مرکز و محور ہونے کے ناطے کُلی طور جوابدہ ہوتا تھا، لیکن آج کے ادارہ جاتی نظامِ تعلیم میں ایک استاد نظامِ تعلیم کے منصوبہ سازوں اور اس نظام کی مختلف سطح کی انتظامی اکائیوں کے تحت کام کررہا ہے اور اس تناظر میں تعلیم و تعلُم کی عمل میں وہ جواب دہی کے سماجی تقاضے پورے کرنے میں دشواریوں سے دوچار ہو رہا ہے۔ اس مادی ترقی کے دور میں انسانوں کا مفروضات پر تکیہ کرنے کا رجحان ایک اُستاد کی شان کو نظر انداز کر کے اسے ہر قسم کے طعن و تشنیع کا شکار بنا کر اس منصب کو قابل حقارت بنا رہا ہے، جس سے اُستاد و شاگرد کے مابین رشتے کی حساسیت اور زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دور حاضر کا استاد بھی اپنے منصب و مرتبہ کا دفاع کرنے کے لئے اپنے آپ میں درکار بدلاؤ لانے سے قاصر نظر آرہا ہے۔ اگرچہ موجودہ حالات میں ایک استاد بھی گردشِ ایّام سے مقابلہ آرائی میں مصروف ہے، تاہم ہمیشہ کی طرح اسی طبقے کو دُور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور مستقبل کو روشن بنانے میں اپنے آپ کو وقف کرنے کا پہلا قدم اٹھا کر اپنے منصب کی حقیقی پاسداری کا ثبوت دینا ہوگا ۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ موجودہ دور میں ان پر کی جانے والی تنقید ان کے منصب کی عظمت و مرتبت کی نشانی ہے اور اس پُرتناؤ دور میں اُن کا مثبت ردِ عمل ہی ان کی شان کو بحال کرنے کا واحد راستہ ہے اور سماج کی اصل ترقی اور بہبود کا بھی ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ وجوہات جو بھی ہو ،نظام تعلیم میں کسی بھی صورت میں کسی کمی یا کوتاہی کی گنجائش نہیں بنتی۔ کیونکہ معاشرے کی بہتر صورتحال کو بحال رکھنے یا بگڑے معاشرے کی صورتحال سُدھارنے کے لیے تعلیمی نظام کا کوئی متبادل یا بدل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اُستاد کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور معاشرہ بھی اس نظام میں موجود کمیوں اور کوتاہیوں کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے ان کمیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے ایک جُٹ ہو کر نظام کو فعال بنائیں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نظام کو فعال بنانے کی یہ کوشش تب ہی بار آور ثابت ہو سکتی ہے، جب اُستاد کی قدر و منزلت کا ہر صورت میں پاس لحاظ رکھا جائے۔ اگرتعلیم کو نظام کی شکل دینے کا مقصد ملک و قوم کی کُلہم ترقی کو بڑھاوا دینا ہے تو اس مقصد کی حصولیابی میں اُستاد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا انتظامیہ اُستاد کی قدر و منزلت کی پاسداری سے برئ الزِمّہ نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح معاشرہ کی ترقی اور خوشحالی کا سارا انحصار بہتر افراد سازی پر ہوتا ہے اور بہتر افراد سازی پر مامور اساتذہ کی تعظیم و توقیر کے بغیر معاشرہ ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں مادی چیزوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور وہ تعلیم کو صرف ایک ذریعہ معاش سمجھتے ہیں اور اس لیے وہ اساتذہ کی قدر و منزلت کی سمجھ کھو چُکے ہیں۔ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ آج کل کے تعلیمی نظام میں اساتذہ کو اب صرف ایک ملازم سمجھا جاتا ہے اور ان کی رائے کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ۔ اس کے علاوہ والدین کی بے توجہی بھی اساتذہ کی قدر منزلت میں کمی کا ایک سبب ہے ۔ جب والدین اپنے بچوں کو اساتذہ کا احترام کرنے کی ترغیب نہیں دیتے تو ان کے دل میں اساتذہ کے لیے کوئی عزت نہیں رہتی ۔ ایسے ہی محرکات کی وجہ سےمعاشرے کی تعمیر کے لئے درکار ایک منظم نظامِ تعلیم کی بنیادی اِکائیوں میں بکھراؤ اور زیادہ بڑھ رہا ہے۔ الغرض تعلیم کی اہمیت و افادیت کو ملحوظِ خاطر لا کر ہر سطح پر احساس ذمہ داری پیدا کر کے تعلیمی نظام کو صحیح ڈگر پر لانے کی دورِ حاضر میں اشد ضرورت ہے اور یہ احساس جتنا جلد پیدا ہوگا، اتنا سود مند بھی ہوگا اور اس احساسِ ذمہ داری کا اجتماعی شعور پیدا نہ ہونے کی صورت میں آج کے معاشرے میں رہ رہیں لوگ مستقبل کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے مستحق بن جائیں گے۔ دورِ رواں کے اس معاشرہ کےلئےیہ اور بھی ضروری ہے کہ وہ موجودہ تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ مستقبل کے نظامِ تعلیم کو ایک مستحکم بنیاد فراہم کرنےکا فریضہ ادا کرے، کیونکہ یہ معاشرہ بیک وقت ترقی کے سب سے زیادہ منازل سے گزرنے کا خاصہ رکھتا ہے اور اس وجہ سے یہ معاشرہ مستقبل کے لیے تعلیمی نظام کو نئی جہت عطا کرنے کے لیے ایک اخلاقی ذمہ دار بھی بن جاتا ہے ۔ لہٰذا اس معاشرے کو اپنی گزشتہ لغزشوں کی تلافی کا یہ سنہرا موقع بروئے کار لا کر نظام تعلیم کی ایسی نئی بنیاد ڈالنی ہوگی کہ مستقبل اس معاشرے کا مرہونِ منت رہے اور یہ انسانی زندگی کا سفر کامیابی کے ساتھ رواں دواں بھی رہے۔
رابطہ۔ 7006174615