شیخ ولی محمد
عہد وسطیٰ جسے مسلمانوں کے سنہری دور Golden Periodسے یاد کیا جاتا ہے کے بعد غیر مسلموں نے مسلمانوں کے علوم و فنون سے استفادہ کیا ۔ مسلمانوں کے عملی اور تحقیقی سرمایہ کو انہوں نے اپنی زبانوں میں منتقل کیا ۔ پندرویں صدی میں اسپین سے مسلمانوں کا نکالا جانا ، وسطہ ایشیاء میں تاتاریوں کے مسلسل کامیاب حملے ، ہلاکوں کے ذریعے بغداد کی بربادی ، مسلکی اختلاف کا پروان چڑھنا اور علم اور تحقیق کے میدان سے منہ موڑنا یہ وہ اسباب تھے جن سے مسلمان زوال کا شکار ہوگئے ۔ اقوام عالم میں مسلمان مغلوب ہوکر پسماندگی کے شکار ہوئے جبکہ مغربی اقوام کے ہاتھوں میں امانت و قیادت آگئی ۔ ایڈورڈ ایٹیاEdward Atiya نے مسلمانوں کے اس زوال کو Long Sleep یعنی طویل نیند سے تعبیر کیا ۔ بقول اس کے زوال کے دور میں مسلمان غوروفکر اور منطق واستدال کی صلاحیت کھو بیٹھے اور صرف پُرانی کتابوں کو رٹ لینے کو علم سمجھ بیٹھا ۔
سید ابواعلیٰ مودودی دنیا میں قوموں کے عروج و زوال کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے امامت آج ایک کو ملی ہے ، کل اس سے چھین کر دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے اور پرسوں اس سے بھی سلب ہوکر تیسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ؟ کیا یہ محض ایک بے ضابطہ اتفاقی امر ہے یا اس کا کوئی ضابطہ اور اصل مقرر بھی ہے ؟ اس مسئلہ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ ہاں اس کا ضابطہ ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ ہے ۔ انسانیت کو بہ حیثیت ایک نوع کے زمین کی خلافت ملی ہی علم کی وجہ سے ۔ اس کو سمع ، بصر اور فواد تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو دوسری مخلوقات ارضی کو یا تو نہیں دی گئیں یا اس کی بہ نسبت کمتر دی گئی ہیں ۔ اس لیے وہ اس بات کا اہل ہوا کہ دوسری مخلوقات پر خدا وندِ عالم کا خلیفہ بنایا جائے ۔ اب خود اس نوع میں سے جو طبقہ یاگر وہ علم کی صفت میں دوسرے طبقوں اور گروہوں سے آگے بڑھ جائے گا وہ اسی طرح ان سب کا امام بنے گا جس طرح انسان من حیث النوع دوسری انواعِ ارضی پر اس چیز کی وجہ سے خلیفہ بننے کا اہل ہوا ہے۔ امامت خواہ وہ آگ کی طرف لے جانے والی ہو یا جنت کی طرف ۔ ہرحال اس گروہ کا حصہ ہے جو سمع و بصر و فواد کو تمام انسانی گروہوں سے بڑھ کر استعمال کرے ۔ یہ انسان کے حق میں اﷲ کا بنایا ہوا اٹل ضابطہ ہے اور اس میں کوئی رد رعایت نہیں ہے ۔ کوئی گروہ خدا شناس ہو یا خدا ناشناس ۔بہر حال وہ یہ شرط پوری کرے گاتو دنیا کا امام بن جائے گا اور نہ کرے گا تو مقتدی ہی نہیں بلکہ اکثر حالات میں مطیع بھی بننے سےنہ بچ سکے گا ۔‘‘حکیم الامت علامہ ڈاکٹر اقبال ـؔ نے اسی نقطے کو یوں بیان کیا ہے :؎
حکومت کا تو کیا رونا وہ تو اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تودل ہوتا ہے سیپارا
امامت و قیادت کی بازیابی :
جس غلامی ، پستی اور پسماندگی میں امت مسلہ پھنس چکی ہے اس سے نکلنے کا راستہ یہی ہے کہ مسلمان علم سے اپنا رشتہ دو بارہ استوار کرے ۔ بقول پروفیسر محسن عثمانی ندوی’’ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہیں اگر وہ چاہتے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کی جارحیت کا نشانہ نہ بنیں اگر وہ چاہتے ہیں کہ زمانہ کا رولر انہیں پامال کرتا ہوا آگے نہ بڑھے ، اگر وہ چاہتے ہیں کہ ایجادات و انکشافات میں ان کا بھی حصہ ہو اگر وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ناقابل تسخیر قوم بن جائیں تو انہیں جدید علوم میں دست گاہ اور مہارت حاصل کرنی ہوگی کہ اس کے بغیر طاقت اور ترقی کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ اقبال ؔ کی یہ تعلیم بالکل درست ہے کہ :
؎
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہردور میںکرتاہے طواف اس کا زمانہ
[email protected]