فکر ادراک
ڈاکٹر عبیدالرحمٰن ندوی
اسلام میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ تعلیم ہی کے ذریعے انسان اپنی زندگی کو سنوارتا ہے، چھوٹے بڑے کے درمیان فرق سمجھتا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے رب کو پہچان کر دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔ تعلیم کا تصور محض معلومات نہیں بلکہ کردار سازی اور اخلاق سازی کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تعلیم کو ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔زندگی کے حقائق کو سمجھنے کے لیے علم ایک لازمی وسیلہ ہے۔ علم ہی کی وجہ سے انسان کو خدا کی دوسری مخلوقات پر برتر سمجھا جاتا ہےاور جس کو قرآن کریم ’خیر امت‘ کے امتیازی لقب سے یاد کرتا ہے۔دراصل علم دل اور روح کو منور کرتا ہے اور دماغ کو تقویت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ عقل میں کمال پیدا کرتا ہے۔ یہ علم ہی ہے جس کے ذریعے انسان اچھائی اور برائی میں تمیز کرتا ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی پڑھنے سے کیوں شروع کی تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس دور میں حضرت محمدؐ کو بھیجا گیا، وہ زمانہ جاہلیت کاتھا۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کے بغیر جہالت اور جمود کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے رسول اللہؐ نے حصول علم پر بہت زور دیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔’’علم حاصل کرو گہوارے سے لے کر قبر تک‘‘۔ نبی کریمؐ کی ایک روایت کے مطابق علم ایک مسلمان کا گمشدہ مال ہے اور وہی اس کا حقیقی مالک ہے۔ نبی اکرم ؐ نے مزید فرمایا:’’علم حاصل کرو، کیونکہ جو اسے اللہ کی راہ میں حاصل کرتا ہے وہ تقویٰ کا کام کرتا ہے۔ جو اس کے بارے میں بات کرتا ہے، وہ رب کی تعریف کرتا ہے، جو اس کی تلاش کرتا ہے وہ خدا کی عبادت کرتا ہے، جو اس کی تلقین کرتا ہے،وہ خیرات کرتا ہے، اور جو اس کا استعمال مناسب چیزوں میں کرتا ہے، وہ خدا کی بندگی کاعمل کرتا ہے۔ علم عالم کو ممنوع اور غیر ممنوع چیزوں میں فرق کرنے کا اہل بناتاہے، یہ جنت کا راستہ روشن کرتا ہے، یہ صحرا میں ہمارا دوست ہے، خلوت میں ہمارارفیق ہے، دوستوں کی عدم موجودگی میں ہمارا ساتھی ہے، یہ خوشی کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے، یہ مصیبت میں ہمیں ثابت قدم رکھتا ہے، یہ دوستوں کی صحبت میں ہمارا زیور ہے، یہ دشمنوں کے خلاف سپر کا کام کرتا ہے۔ابن خلدون کے مطابق علم تین بنیادی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے۔ سب سے پہلے، یہ انسانوں کے باہمی تعاون کو آسان بناتا ہے۔ انسانی میل جول ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ زندگی میں کچھ بھی خلوت نشینی میں نہیں کیاجاسکتاہے۔ مختلف قسم کی انسانی ضروریات، انسانی کردار کانقص اور جسمانی کمزوری لوگوں کو صحبت میں رہنے اور دوسروں کی مدد لینے پر اکساتی ہے، علم ہی انہیں مختلف مواقع پر اس طرح کے تعاون کی نوعیت اور مقصد کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ دوسرے، زندگی کی راہیں بہت سی غلیظ چیزوں سے بھری ہوئی ہیں۔ انسان کو نیکی اور بدی میں فرق کرنے کے لیے علم کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ مؤخر الذکر سے بچ سکے اور اول الذکر کو قائم رکھ سکے۔ اور آخر کار، علم وقت کی بچت کرتا ہے اور زندگی کے بے شمار ناقابلِ تسخیر مسائل کو حل کرنے کے لیےانسانی توانائیوں کو بڑھاتا ہے‘‘۔ (المقدمہ، جلد۲، ص: ۴۱۸)اس تناظر میں اُس وقت کی کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کی طرف سے منظور کیا گیا بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کا حق ایکٹ (RTE) ایک اچھا قدم ہے۔ بچوں کے تعلیم کے حق کے لیے ہندوستانی جدوجہد میں یہ واقعی ایک تاریخی سنگ میل ہے۔ اس کا سہرا سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو جاتا ہے۔ وہ واقعی ہندوستان کے ہر شہری کو پڑھا لکھا، تعلیم یافتہ اور مہذب دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بالکل درست کہا تھا: ’’میں آج جو کچھ ہوں تعلیم ہی کی وجہ سے ہوں۔‘‘ اب وقت آگیا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں دیگر غیر ضروری سرگرمیوں اور ملازمتوں میں پیسہ لگانے کے بجائے اپنی متعلقہ ریاست میں RTE جیسا ایکٹ نافذکریں اور علم جیسی عظیم نعمت کی ترویج و اشاعت کے لئے حتی المقدور کوششیں کریں۔
بدقسمتی سے، ہماری طرف سے ان جیسے عظیم اثاثوں کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ والدین کی طرف سے بچوں کی پرورش میں مجرمانہ غفلت پائی جاتی ہے۔ والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بچپن سے ہی اچھے طریقے سے تعلیم دیں۔ مختصر یہ کہ تعلیم قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بغیر معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔ ہماری زندگی تعلیم کے بغیر کھوکھلی اور بنجر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بغیر کسی قوم نے ترقی نہیں کی اور نہ خوشحالی حاصل کی۔ جب تک مسلمان تعلیم سے مربوط رہے انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں شاندار پیش رفت کی۔ بقول نامور اسکالر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و سابق ناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ :’’جب یورپ قرون وسطی کے اندھیروں اور جہالت سے گزر رہا تھا، مسلم دنیا علماء، مفکرین، ماہر تعلیم، طبعی اور سماجی علوم کے نامور ماہرین پیدا کر رہی تھی۔ یورپی مصنفین نے اکثر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ چھ سو سال تک یورپ نے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے پہلے مسلمانوں کی تحقیق اور علم کے خزانوں سے سیکھا اور فائدہ اٹھایا‘‘۔
یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ صرف سچی اور بامقصد تعلیم ہی ہمیں ترقی، نجات اور سربلندی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ یہی تعلیم انسان کو بربادی، تنزلی، فنا اور پستی کے اندھیروں سے نکال کر کامیابی، عزت اور بلندی کے نورانی راستے پر لے جاتی ہے۔ اگر تعلیم کے ساتھ اخلاص، محنت اور مستقل مزاجی شامل ہو تو ایک عام انسان بھی غیر معمولی شخصیت بن سکتا ہے اور اپنی قوم و ملت کا وقار بڑھا سکتا ہے۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو فرد اور معاشرے کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اس کی ایک روشن اور زندہ مثال تھے۔ وہ ایک نہایت سادہ اور متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب مچھیروں کے خاندان سے تھا، مگر غربت اور وسائل کی کمی ان کے عزم و ہمت کو روک نہ سکی۔ انہوں نے تعلیم کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور علم کی روشنی سے اپنی راہ کو منور کیا۔ بچپن میں وہ کاندھے پر اخبارات بیچ کر گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹاتے تھے، لیکن ان کے خواب ہمیشہ بلند تھے۔ ان کے دل میں علم کی ایسی پیاس اور لگن تھی جس نے انہیں مشکلات کے باوجود کبھی تھکنے یا ہارنے نہ دیا۔تعلیم سے محبت، محنت اور مستقل جستجو نے انہیں آگے بڑھایا۔ انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ عظیم کارنامے سرانجام دیے کہ آج دنیا انہیں ’’بابائے میزائل‘‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ انہوں نے جدید میزائل ٹیکنالوجی کو فروغ دیا اور ملک کو دفاعی میدان میں خود کفیل بنایا۔ ان کی صلاحیتوں، علم دوستی اور علمی وقار نے انہیں نہ صرف ایک عظیم سائنس داں بنایا بلکہ انہیں ہندوستان کے سب سے بڑے عہدے یعنی صدرِ جمہوریہ تک پہنچا دیا۔لہٰذا تعلیم صرف روزگار یا مادی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ انسان کی تقدیر بدلنے والی قوت ہے۔ جو قومیں تعلیم کی حقیقت کو سمجھ لیتی ہیں اور اپنی نئی نسل کو اس سے آراستہ کرتی ہیں وہ ہمیشہ ترقی و عروج کی منازل طے کرتی ہیں، جبکہ تعلیم سے دوری قوموں کو پستی اور زوال کے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے۔
[email protected]